1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. معاذ بن محمود/
  4. منافق تمبو لبرل لاؤڈ سپیکر

منافق تمبو لبرل لاؤڈ سپیکر

چار دن پہلے رات گیارہ بجے کے قریب باہر چائے گردی کے چکر میں نکلنا ہوا۔ بعد از چائے گھر والوں سے آگے پیچھے ہو کر سوٹا مارا اور سوٹا مرائی کی رسم کے بعد گھر کی راہ لی۔

گلی میں پہنچے تو ایک عدد تمبو گلی میں راستہ روکے ہمارا منہ چڑا اور جانے کیا کیا سڑا رہا تھا۔ چونکہ تمبو گڑائی اپنے شروعاتی مرحلے میں تھی لہذا منتظمین نے فراخ دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہمیں اوپر اوپر سے خصوصی راستہ دیا۔ ہم اس احسان کو چکانے کے بارے میں سوچتے ہوئے گھر کی جانب بڑھ گئے کہ تادم مرگ اس ضمن ناکام و نامراد ہی رہیں گے۔

تمبو منافق کی ایک بری بات یہ ہوتی ہے کہ دیکھ کر پتہ نہیں چلتا یہ مذہبی اجتماع کے لیے مستعمل ہونے کو ہے یا کسی احمق کی آزادی کشائی کے چکر میں گڑا پڑا ہے۔ اس والے تمبو سے گزرتے ہوئے بھی یہ یہی سوچتے نکل گئے کہ جو بھی ہو، کان تو ہم نے ہی مروانے ہیں، پھر جس کا داؤ لگے لگ جائے۔

اگلی شام پرانے گیتوں کی دھن پر مغنیانہ نعتیں لہک لہک کر پڑھی جا رہی تھیں۔ مائیک دو سو فیصد خواہ مخواہ نعت خواں ٹولے کے ہاتھ دے دیا گیا جس کے بعد باقی کی رات کانوں کے ساتھ بالجبر سہتے گزری۔ ساری رات میں اس یقین پر گالیوں کی ڈبل ڈوز دیتا رہا کہ ہو نہ ہو، اس خبیث نعت خواں ٹولے میں کم از کم ایک تو وہ ہے جس نے پچھلی عید بقر ہماری بقر کاٹی تھی۔ یہی نعت خواں غالبا فراغت کے اوقات میں بچوں کے ختنے بھی کرتے ہوں گے۔ پارٹ ٹائم میں شاید تعویذ گنڈوں کا سائیڈ بزنس بھی موجود ہو۔ علاوہ ازیں انجمن گداگران کراچی کے ایک چیپٹر کے منتظم اعلی کی حیثیت سے بھی ان کی خدمات سراہی جاتی ہوں گی۔ نہایت بے سری اور مقعد سوز آوازیں تھیں۔

خیر، اگلی شام پھر باہر نکلنا ہوا۔ معلوم ہوا تمبو لگانے والے اپنی ضد پر اڑے جبکہ تمبو اپنی جگہ پر گڑے ہوئے ہیں۔ متبادل گلی کشادگی جس کی ڈیڑھ عدد ٹھیلہ نصف جس کا پون بنتا ہے، استعمال کرنی پڑی۔ ظاہر ہے، کان میں پہلے ہی ساری رات دیتا رہا تھا، اب دینے کو گالیاں ہی بچی تھیں سو دیں۔ یہ رات بھی کان دان کرتے گزری۔ اس رات البتہ اس تمام مقدس خباثت کے بعد بطور بونس کوئی تین عدد کتے ایک دوسرے پر بھونکتے الگ رہے۔ ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے دس سال عمران خان کے گزرنے کے بعد دو ایک سال شیخ رشید کو حکومت دے دی گئی ہو۔ بہرحال، بس بہن جو اللہ کی مرضی۔ سچا پیار ملنا اتنا آسان کہاں؟

نعت در نعت، نوحے در نوحے، وعیدیں در وعیدیں۔۔۔ لوگ کہتے ہیں لبرلزم کہاں وڑ گیا۔ میں کہتا ہوں لبرلزم آ نہیں رہا، لبرلزم آچکا ہے۔ اگلی رات جب کان مروانے کی عادت ہو چکی تھی، الحمد للہ ہمارے پڑوسی راتوں رات بدل گئے۔ یہ تبدیلی البتہ ویسی ہی تبدیلی تھی جیسے ہمارے یہاں حکومت کی تبدیلی ہو یا مشغول فی الفعل مفعول کے آسن میں تغیر۔ بعدین وہی جاری رہتا ہے جو پہلے بھی جاری تھا۔ اگلی رات اسی منافق تمبو میں یہ با آواز بلند یہ گانا چلایا جا رہا تھا۔۔۔

"ہو موہنجو کھٹی آیو پیر سا۔۔۔ ہو جمالو۔۔۔ ہو موہنجو جمالو جتن سا۔۔۔ ہو جمالو"

وڑ گئے وئی۔۔۔ لگاتار دو لیال رنگ برنگی نعتوں کے بعد۔۔۔ ہو جمالو!

اس رات بھی بعد از انسانی ہلڑ بازی کتے صبح چار بجے تک بھونکے۔

بس بہن۔۔۔ جو اللہ کی مرضی۔

اگلی شام عظیم کے ساتھ سوٹا مارتے ہوئے پھر کہیں سے مائیک کے خر خر کی آواز آئی۔ میں سہم سا گیا۔۔۔ ڈرتے ڈرتے عظیم سے پوچھا۔۔۔"یار عظیم۔۔۔ اب یہ کون سی پالٹی ہے؟ "

عظیم نے چند سیکنڈ لاؤڈ سپیکر سے آتی مائیک کی آواز کو سنا، سگریٹ کا گہرا کش لگایا اور دھواں نکالتے پھیپھڑوں کی والدہ و ہمشیرہ ایک کرتے ہوئے گیان پیلا۔۔۔

"یہ بریلوی بھائی ہیں "

کہا "یار ابھی تو مائیک سے کچھ برآمد نہیں ہوا پھر کیسے پتہ چلا؟ "

عظیم نے جلتی ہوئی سگریٹ کی جانب دیکھتے ہوئے نشانیاں بتائیں۔۔۔

"دیکھیں معاذ بھائی۔۔۔ جس لاؤڈ سپیکر سے گونج یا ایکو کی آوازیں آئیں، وہ بریلوی لاؤڈ سپیکر ہے۔ جس میں سے دھمک آئے، وہ مومن لاؤڈ سپیکر ہے اور جس میں سے یہ دونوں نہ آئیں تو سمجھ لیں وہ۔۔۔ دیوبندی لاؤڈ سپیکر ہے"۔

اگلی پوری سگریٹ میں نے ان منافق تمبؤوں اور لبرل لاؤڈ سپیکر کے بارے میں سوچتے بھسم کی۔