1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. معاذ بن محمود/
  4. نا خالص محبت؟

نا خالص محبت؟

15 برس قبل کسی کو مجھ سے محبت ہوئی۔ کسی وجہ سے معاملات شروع ہی سے ٹھس پڑ گئے۔ پھر میں اپنے راستے چل پڑا بی بی اپنے راستے۔ چند سال بعد محب الباچیز پھر راہ چلتے باچیز سے ٹکرا گیا۔ تب تک میری شادی ہوچکی تھی۔ خوب غدر مچایا۔ خوب کوشش کی زندگی حرام کرنے کی۔ نہ ہو سکی۔ آخرکار محترمہ غیب میں چلی گئیں۔

پھر سال میں ایک بار سالگرہ مبارک کا پیغام موصول ہوتا تھا۔ کبھی لنکڈ ان پر تو کبھی فیس بک پر۔ جی۔۔ لنکڈ ان کے یہ استعمال بھی مروج ہیں پاکستان میں۔ خیر ایک بار پھر چند برس کے لیے خاموشی چھا گئی۔

گزشتہ روز محترمہ کی محبت پھر جاگی۔ چلو یہاں تک بھی جائز تھا۔ میں سمجھ سکتا ہوں عشق کی آگ پچیدہ ہوتی ہے۔ کبھی بھی کسی کو بھی مجبور کر سکتی ہے۔ سو انہیں بھی کر گئی۔

گزشتہ روز پھر سے محترمہ کا ظہور ہوا۔ فیک پروفائل سے ایڈ کیا۔ تب تک مجھے معلوم نہیں تھا کہ موصوفہ دراصل موصوفہ ہیں۔ میں فرینڈ ریکویسٹ کرتے ہوئے آئی ڈی کی عمر دیکھتا ہوں اور شئیر کردہ مواد کہ کہیں مذہبی یا نسلی یا مسلکی شدت پسندی تو نہیں۔ یہ دونوں خصوصیات ناپید تھیں سو حلقہ احباب میں آن پہنچیں۔

کل رات سے محترمہ نے میری ٹائم لائن پر کمنٹس کی صورت میں ایسے طعنے مارنے شروع کر دیے جو عموماً میرے تین بچوں کی ماں، میری اہلیہ، میری شرعی منکوحہ، میری بہتر نصف بھی شاید کبھی نہ ماریں۔ ایک آدھ معاملے کو چھوڑ کر میں کم و بیش ہر ایک سے ہر موضوع پر بات کر لیتا ہوں۔ مقابل مرد ہو یا زن مجھے اس سے کوئی خاص فرق نہیں پڑتا۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ کوئی مرد و زن یہ نہیں کہہ سکتا کہ میں نے کبھی کسی سے ظاہر فی الکمنٹس یا باطن فی الانباکس کوئی قابل اعتراض بات کہی ہو۔

سیاسی اختلافات اپنی جگہ، کبھی کبھار کسی معاملے پر وقتی غصہ اپنی جگہ لیکن میرے پاس فخر کرنے کو بہرحال ایک کردار ضرور ہے۔ میرا خیال ہے سوشل میڈیا یا اس سے باہر تمام دوست اسی بنیاد پر مجھ سے کہیں بھی کچھ بھی ڈسکس کر لیتے ہیں۔ میں جج نہیں کرتا۔ لیکن کوئی مجھے جج کرے مجھے اس سے بھی الجھن ہوتی ہے۔

خیر۔۔ چوبیس گھنٹے محترمہ کی جانب سے نجی معاملات میں دخل اندازی برداشت کی اور پھر سکون سے کھلی فضاء میں چہل قدمی کرتے ہوئے داہنے ہاتھ کی منجھلی انگل سے محترمہ کو بلاک کر ڈالا۔

بات شاید ختم ہوگئی البتہ چند سوال میرے ذہن میں ابھی بھی کلبلا رہے ہیں۔

آپ کو کبھی بھی کسی سے بھی محبت ہو سکتی ہے۔ اس کے لیے زمان و مکان کی کوئی قید نہیں۔ اس کے لیے عمر کی کوئی بندش نہیں۔ اس کے لیے جغرافیے کی کوئی اہمیت نہیں۔ اس کے لیے اگلے کے میرٹل سٹیٹس کی کوئی اہمیت نہیں۔

لیکن جس سے آپ کو محبت ہو جائے کیا اس کو حاصل کرنا یا اس کی پرسنل لائف میں اس حد تک دخل اندازی کرنا جس کی اگلا آپ کو اجازت نہ دینا چاہے، یہ ہمارا جنون کیوں بن جایا کرتا ہے؟ جس سے محبت کی جائے اس پر فرض تو نہیں ہوتا کہ آپ کو reciprocate کرے؟ کرتا ہے تو اچھی بات ہے۔ نہیں کرتا تو آپ سڑیل روح بلکہ بدروح بن کے اس کے کمفرٹ زون کے ساتھ بالجبر کرنے کی کوشش کیوں کریں؟ اگلے کو خوش دیکھ کر ہم خوش کیوں نہیں رہ سکتے؟

کیا ہم محبت بھی خالص کرنے سے معذور ہیں؟