اس مضمون کی تحریک وہ "سوراخ" ہے، جو "جیل" روڈ سے "عسکری" پارک کی طرف سڑک پر گاڑی میں رواں، سامنے سے گزرا۔ دیکھا یہ گیا ہے کہ "عسکری" پارک اور "جیل" روڈ کے درمیان ایسے کئی سوراخ سامنے آتے ہیں، اور باوجود اس کے کہ بندے بچ نہیں پاتے، سوراخ اللہ کے فضل و کرم سے قائم و دائم ہی رہتے ہیں۔ بندے پہ کیا گزرتی ہے، یہ ایک الگ معاملہ ہے۔ مذکورہ بالا سوراخ بغیرڈھکن کے، یہاں وہاں سے گزرتے سواری برداروں کا منہ چڑا رہا تھا۔
سوراخوں کی ہئیت پر اُردو ادب، بلکہ اردو بے ادب میں اس سے پہلے ایسا سیر ِِحاصل تجزیہ نہیں ہوا۔ ستم ظریفی دیکھیے کہ میں "بےادب" ٹائپ کر رہا تھا تو، آزاد خیال آئی فون نے اسے آٹو (اِن) کریکٹ کر کے، اردو "گے ادب" کر ڈالا۔ خیر بات ہو رہی تھی سوراخوں کی ہئیت و اقسام کی۔ جیل روڈ سے عسکری پارک کے درمیان جو سوراخ دیکھنے کو ملا، اسے مروجہ انگریزی میں مین ہول کہتے ہیں۔ غدار، ہر جا ملتے ہیں۔ اہلیان ِکراچی جو اُردو کے بانی و نگہبان سمجھے جاتے ہیں، کا ایک قابلِ ذکر تلفظ کے اعتبار سےغدار، حِصہ اُردو تلفظ میں بھی کئی مین ہول، ناصرف ڈھونڈ چکا ہے بلکہ انہیں بے دریغ استعمال بھی کرتا ہے۔
اس کی ایک مثال مین ہول بذات خودہے، جسے اُردو بولنے والوں کا یہ حصہ گُفت و شنید کے دورانMan Holeکی بجائے، Main Holeادا کرتا ہے۔ مزید یہ کہ، اس گفت وشنید کے دوران محوِ کلام شخصیت کے منہ میں گٹکا بھی ہو تو، مین ہول کی بجائے "میں ہو" سنائی دیتا ہے۔ لفظ "ہو" دراصل انگریزی کا لفظ Hoeہے، جس کی وضاحت مجھ جیسے خوش قماش فرد کے لیے نامناسب ہے۔ آپ گوگل ٹرانسلیٹ پر اس لفظ کے غیر مناسب معنی، مناسب طریقے سے تلاش کر سکتے ہیں۔ سوراخ، یعنی ہول کا مومن سے نہایت ہی گہرا تعلق ہے۔ نہیں اگر آپ یہاں وہاں نکل چکے ہیں، تو واپس آجائیے۔
میں بتا چکا ہوں کہ، میں ایک مہذب اور بااخلاق آدمی بلکہ لڑکا ہوں۔ سوراخ وہ شے ہے، جو ایک مومن کی غیر مومن سے تفریق کرتی ہے۔ چونکہ میں خود کوبادی النظر میں فتوے جاری کرنے والا نہیں ظاہر کرنا چاہتا، لہٰذا یوں کہہ لیتے ہیں کہ، سوراخ ایک مضبوط اور کمزور مومن کے درمیان فاروق کا کام کرتا ہے۔ دینی تعلیمات کے تحت، مومن ایک سوراخ سے دو بار نہیں ڈسا جاتا۔ ٹھنڈ ہے، میں ہر قسم کی مجبوری سمجھ سکتا ہوں، لہٰذا اگر غسل کیے زیادہ عرصہ نہیں گزرا تو، ایک بار گریبان میں نظر دوڑائیے۔ آپ ایک ہی سوراخ سے کتنی بار ڈسے جاچکے ہیں؟ تعزیت قبول فرمائیے۔
سوراخ کا انسانی طبیعت سے بھی گہرا تعلق ہے۔ رُکیے، آپ ایک بار پھر بے راہ روی کا شکار ہو رہے ہیں۔ سوراخ کا تعلق انسانی عجزو انکساری سے ہے، ناکہ کسی اور طبیعت سے۔ پچھلے دس سالوں کا مشاہدہ دیکھا جائے، تو منکسر مزاج شخصیت کی برہان، اس کےکپڑوں میں موجود سوراخوں کی تعداد سے براہ ِراست تعلق میں ہے۔ مثلاً قمیض میں سوراخ جتنے زیادہ ہوں گے، ہمارے عوامی لیڈر اتنےہی درویش صفت مانے جائیں گے۔ یاد رہے، قمیض کے یہ سوراخ، انسانی کردار میں موجود کسی بھی چھید کے لیے لباس کا کام دیاکرتے ہیں۔
سوراخ ایک آفاقی حقیقت ہے۔ کائنات کے سربستہ رازوں میں سے ایک راز کالا سوراخ، یعنی بلیک ہول بھی ہے۔ یہ کائنات میں موجود وہ سیاہ رنگی سوراخ ہے، جس میں اس قدر کشش ہوتی ہے کہ، ہر وہ شے جو اس کے قریب پہنچے اس میں گُھس کر غائب ہوجاتی ہے۔ اس سوراخ کی کشش کا اندازہ اس حقیقت سے لگائیے کہ، اس میں نور بھی گھس جائے، تو واپس نہیں نکل سکتا۔ یاد آیا، نور وہ بندہ تھا، جو ویزے کے چکر میں مجھے اچھا خاصہ چونا لگا چکا ہے۔ جانے کیوں بلیک ہول کی خصوصیات پڑھ کر ہر بار ایسا محسوس ہوتا ہے کہ، میں یہ کالا سوراخ کئی بار دیکھ چکا ہوں، اور جب جب دیکھا، اس کی لامتناہی کشش محسوس کی۔
سوراخ ہمیشہ سے انسانی تمدن میں اہمیت کا حامل رہا ہے۔ ویسے تو اس کا تعلق جملہ حیوانات کی افزائش نسل سے بھی ہے، لیکن آج کے دن، میرا حیاتیات پڑھانے کا ہرگز موڈ نہیں۔ کہتے ہیں، انسان کی پہلی ایجاد پہیہ تھی۔ میں اس تھیوری کو پوری شدت سےمسترد کرتا ہوں۔ انسان کی پہلی ایجاد پہیہ نہیں، بلکہ وہ سوراخ تھا جو پہیے کو پہیہ بنانے کی لیے، پہیے میں کیا گیا۔ حیاتیات، جسےپڑھانے کا میرا بالکل موڈ نہیں، کے تناظر میں دیکھا جائے تو میرا ایمان کامل ہے کہ، انسان کی پہلی دریافت بھی سوراخ ہی رہا ہوگا۔
الغرض، سوراخ، ہول، موری یا چھید کا بنی نوع انسان کے ساتھ گہرا تعلق ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ، لِسانی تفریق نے اس عظیم الشان سہہ جہتی شکل کا ذکر بھی اخلاقیات و تہذیب سے جوڑ دیا ہے۔ زندگی رہی تو انشاءاللہ اس متنوع اور اچھوتے موضوع پر مزیدتفصیلی بات ہوگی۔ آج کے لیے ھٰذا ما عندی، واللہ اعلم بالصواب۔