پاکستان کی اعلٰی عدلیہ کے سب سے اعلٰی عہدیدار جناب چیف جسٹس ثاقب نثار صاحب نے چند دن قبل اپنا دل کھول کے عوام کے سامنے رکھ دیا۔ نہایت فکر انگیز گفتگو فرمائی، عدلیہ کی ناکامیوں کا ذکر کیا، سسٹم کی کمزوریوں پہ افسوس کا اظہار کیا۔ لیکن جس چیز پہ ان کا زور وہ تھا "عدلیہ کی تضحیک"۔ انہوں نے دردمندی کے ساتھ افسوس کا اظہار کیا کہ لوگ ہماری اتنی عزت بھی نہیں کر رہے جتنی گاوں میں رہنے والے اس "بابے رحمتے" کی کرتے ہیں جو ان کے فیصلے کرتا ہے۔ انہوں نے عدلیہ کو "بابے " سے تشبیح دے کہ اپنے تئیں عدلیہ کا وقار بحال کرنے کی کوشش کی۔
اشفاق احمد کے "بابے" کے بعد بابا رحمتا نے لکھاری حلقوں میں شہرت پائی ہے۔ اس کا کریڈٹ اور کاپی رائٹ ثاقب نثار صاحب کو بہرحال ملنا چاہیے۔ اس سے پہلے ان کے کولیگز "گاڈ فادر" کو ایک فیصلے کا حصہ بنا کہ کافی شہرت حاصل کر چکے ہیں۔ دوسرے کولیگ پاکستانی عدالت میں اپنے کمنٹس میں ملزمان کو "سسلین مافیا" کہہ کہ وہ شہرت تو نہیں پا سکے جیسے انہوں نے مدعین کے وکیلوں سے فلموں کی "ریٹنگ" کی وضاحت مانگی تھی۔ ان کی فلمز، اور فنوں لطیفہ سے متعلق دلچسپی کافی حد تک واضح ہو رہی ہے۔ انصاف کے پہلو سے اس کو نہ بھی دیکھا جائے تو اتنے ذرخیز ذہن رکھنے والے لوگوں کی ایک وقت میں اعلٰی عدالت میں موجودگی یقینا عدلیہ، انصاف اور پاکستان کے لئے فخر کا باعث ہے۔ اور پاکستان میں فنون لطیفہ کا مستقبل کافی روشن نظر آرہا ہے۔
چیف جسٹس نے جس خیالی بابے کا ذکر کیا ہے وہ یقینا ایک قابل احترام اور محترم شخصیت نظر آئی ہے۔ جو بغیر کسی لالچ کے انصاف کے ساتھ فیصلہ کرتا ہے اور اس کے فیصلوں کو عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ اس کی عزت اس کے فیصلوں ہی کی وجہ سے۔ چیف صاحب کی امید تو ٹھیک ہے کہ پاکستانیوں کو اس "بابے" یعنی "پاکستانی عدلیہ " کو اتنی ہی عزت دینی چاہیے۔ لیکن نہایت احترام سے سوال ہے کہ "بابا رحمتا" یہ عزت اپنی 70، 80 سال کی زندگی میں ایسے فیصلے کر کے کماتا ہے۔ اس کے لئے اس نے اپنی انا، مفاد، رشتہ داری، کو قربان کیا ہو گا۔ کئ دفعہ اس کے سامنے خوف کے سائے لہرائے ہوں گے۔ دہشت زدہ کیا ہو گا۔ اقربا پروری کے مواقعوں کو رد کیا ہوگا۔ تبھی اس کو عزت ملی۔
کیا ثاقب نثار صآحب یہ دعوٰی کر سکتے ہیں کہ ان کا بابا جس کی عزت کی ڈیمانڈ یہ کر رہے ہیں۔ اس نے 70 سال کے فیصلوں کے بعد "عزت" کمائی ہے ؟ ہمیشہ انصاف کیا ہے ؟ اس سے لوگوں کو بروقت انصاف ملا ہے ؟ انا کی قربانی دی اس بابے نے ؟ کبھی کسی خوف کے آگے گھٹنے تو نہیں ٹیکے ؟ کبھی دہشت زدہ نہیں ہوا یہ بابا ؟؟ کبھی اپنے رشتوں اپنے کولیگز کو دیکھ کہ آواز نہیں کپکپائی ؟؟؟
یقین کریں جو لوگ گاوں سے تعلق رکھتے ہیں وہ اس بات کو سمجھیں گے کہ اگر زندگی میں ایک دفعہ بھی اوپر کئے گئے سوالوں میں سے کسی ایک سوال کا جواب بھی سٹینڈرڈ سے کم ہوا تو بابا کبھی فیصلہ کرنے والی کرسی پہ نہیں بیٹھ سکتا۔ اور نہ اس کی کوئی بات مانے گا۔ نہ فیصلہ تسلیم کرے گا۔ صرف ایک لغزش اس کا سٹیٹس تبدیل کر دے گی۔ اور آپ اس عزت کے خواہاں ہیں اور آپ کے پاس ہے کیا جس کی بنیاد پہ یہ عزت چاہتے ہیں ؟
اگر "بابا رحمتا" بننا چاہتے ہیں تو ہسپتالوں کے نہیں ماتحت عدالتوں کے دورے کریں۔ ہسپتال میں بندہ مرتا نظر آجاتا ہے۔ عدالتوں میں خاندان اور نسلیں گھٹ گھٹ کے دم دیتی آپ کو نظر نہیں آتیں۔ کیا عدالتوں کی حالت ہسپتالوں سے اچھی ہے ؟ انصاف آپ کو بستر مرگ پہ نظر نہیں آتا ؟ پاکستانی عدالتوں میں کتنے مقدمے تعطل کا شکار ہیں ؟ کیا یہ قتل نہیں ہے ؟ آپ عدالت کا دورہ کریں، ہمیں بتائیں کہ ان کے حالات خراب ہیں۔ ان کو آپ ٹھیک کر رہے ہیں۔ بہتری آرہی ہے۔ آپ لگے ہیں ہمیں بتانے کہ ہسپتال صحیح کام نہیں کر رہے۔
تجھ کو پڑا ہے تشریح محبت کا دورہ !!!!
برائے مہربانی سستی شہرت حاصل کرنے کا شوق عدلیہ میں سے ختم کریں، اسے سیاستدانوں کے لئے چھوڑ دیں اگر آپ یہ کام اچھا کرسکتے ہیں تو اپ کو وزیر صحت لگا دیتے ہیں اور عدالت میں کسی ڈاکٹر کو لگا دیتے ہیں وہ بھی ہمیں بتا دے گا کہ عدالتوں میں سائل کیسے دھکے کھا رہے ہیں۔
بابے رحمتے کو ہی رہبر بنا لیں، بابا رحمتا سستی شہرت کے لئے کہانیوں اور کیمرہ کا محتاج نہیں۔ وہ اپنے فیصلوں سے پہچانا جاتا ہے۔ اپنے آس پاس بیٹھے ججوں کو بتائیں کہ عوام کے من و رنجن کے لئے لاہور میں سٹیج پہ بہت ڈرامے ہوتے ہیں وہ جگتوں پہ نہیں قانون پہ توجہ دیں۔ اور آپ جگتیں سیاستدانوں پہ لگا رہے ہیں جن کا سارا دن میڈیا کے مائیکس کے سامنے گزرتا ہے۔ معاف کیجیے گا ایک تو آپ اپنا کام نہیں کر رہے اور دوسرا آپ کو اپنی صلاحیتوں پہ اعتماد ضرورت سے زیادہ ہے۔ آپ کا خیال ہے کہ طنز کے تیر آپ ہی چلا سکتے ہیں یا جیسا آپ چلا سکتے ہیں ویسا کوئی نہیں چلا سکتا تو اب تک یہ غلط فہمی دور ہو جانی چاہیے۔
اور ہمیں پتہ ہے کہ کون سی مووی کی ریٹنگ کیا ہے وہ بچوں کو دکھانی ہے کہ نہیں۔ آپ اپنا کام کریں کہ آپ کہ بچے کل کو کسی کو منہ دکھا سکیں۔ اگر کسی کو شہرت کا شوق سیاسی معاملات میں کودنے پہ مجبور کرے یا فیصل عرب صاحب کے بقول عوامی جذبات کے تحت فیصلہ کرنے پہ مجبور کرے نہ کہ قانوں کے مطابق۔ توپھر ان فیصلوں پہ تبصرے سننے کو تیار رہیں وہ تحریم کی شکل میں اور تضحیک کی شکل میں آئیں گے۔