شاہی فوج میں بھگدڑ مچ چکی تھی، پیادے اور سوار، جان بچانے کے لیے بھاگ رہے تھے۔ پیادے توپوں کے سامنے کھودی گئی خندق کے درمیانی راستے سے دھکم پیل کرتے ہوئے سر پٹ دوڑ رہے تھے۔ چند سوار خندق کو پھلانگنے کی کوشش میں گھوڑے سمیت خندق میں گر چکے تھے۔ اس کی کمپنی کے سپاہی اپنی پوزیشنوں پر براجمان۔ چند وفادار توپوں پہ براجمان بار بار اس کی طرف دیکھتے تھے۔ وہ میدان کا بغور جائزہ لے رہا تھا۔ اس کی گوری چمڑی نیلی وردی کے نیچے تڑخ رہی تھی۔
جنگ کا نتیجہ واضح تھا، یہ تو اسی وقت واضح ہوگیا تھا جب شاہی مہورت کو توپ کا گولہ لگا اور ہاتھی اپنی شاہی سواری کو لے کر اپنی ہی صفوں کو روندتا ہوا واپس دوڑا تھا۔ رہی سہی کسر اس فوج کے سپہ سالار کھگرخان کی اپنے دستے سمیت دشمن سے جا ملنے سے پوری ہوگئی تھی۔ فوج اپنے سالارکے بغیر ایسے ریوڑ میں بدل چکی تھی جو چرواہے بنا اپنی جان بچانے کے لیے ہر سمت میں بھاگ رہا ہو۔ اس نے اپنے وفاداروں پہ ایک نظر ڈالی۔ جو اب سینکڑوں میں نہیں درجنوں میں رہ گئے تھے۔ یہ وہ جانثار تھے جو کئی سال سے اس کا ساتھ دے رہے تھے۔ جو شہروں کی رونق، جنگلوں کی تنہائی، بیابانوں کی بھوک میں ہمیشہ اس کے ساتھ رہے۔ ان جنگجووں میں سے بہت سارے ڈھیر ہو چکے تھے۔
"آج کا دن دوبارہ نہیں آئے گا"۔
اس کے اندر سے فیصلہ کن آواز آئی۔۔ سالوں بھاگنے کے بعد اب وہ تھک چکا تھا۔ اسے دشمن اور اپنے آپ سے لڑتے کئی سال بیت چکے تھے۔ وہ پہلی ہار کے بعد ہی اپنے وطن لوٹ سکتا تھا۔ یہ زمین اس کی اپنی نہیں تھی۔ لیکن وہ اپنے اور خاندان کے ناموس کے لیے واپس نہیں جا سکتا تھا۔ جیتنے کی کوشش میں وہ بہت دفعہ ہار چکا تھا۔ آج وہ ہار میں سے جیت کا موقع دیکھ رہا تھا۔ اسے صرف اپنی جان پہ کھیلنا تھا۔ اپنا خون بہانا تھا۔
وہ گھوڑے سے اتر آیا۔ سپاہیوں کو اس نے تباہ شدہ توپوں کے ساتھ خندقوں کے درمیانی راستے کو بند کرنے کا حکم دیا۔ جن سپاہیوں کی توپیں بیکار ہو چکی تھیں ان کو مردہ سپاہیوں اور توپوں سے گولہ بارود اپنے قریب اکٹھے کرنے کا حکم دیا۔ توپچیوں کو توپیں سنبھالنے کا حکم دیا۔ باقی ماندہ سپاہیوں کوبندوقیں لوڈ کرکے شست لینے کا حکم دیا۔ سپاہی اپنے کمانڈر اور استاد کو یوں لڑنے کے لیے تیار دیکھ کر ایک نئے ولولے اور حوصلے کے ساتھ دشمن پہ ٹوٹنے کو تیار تھے۔ وہ خود بھی ایک توپ سنبھالے لڑنے کو تیار تھا۔
یہ زمین اس کی نہیں تھی، یہ موسم اس کا نہیں تھا۔ یہ لوگ اس کے نہیں تھے، وہ اپنے زمیں سے ہزاروں میل دور اپنے وطن اور خاندان کے نام کے لیے لڑ رہا تھا۔ انگریز سے نفرت اس کے خون میں شامل تھی۔ وہ یہاں ان سے لڑنے آیا تھا۔ اس کی ذمہ داریوں میں اس ملک میں قدم جما کر یہاں اپنے ملک کا استعمار قائم کرنا تھا۔ وہ بھی انگریزوں کی طرح اس سرزمین کے باسیوں کا خون نچوڑنے آیا تھا۔ لیکن اس کو یہاں کے لوگوں سے محبت ہوگئی تھی۔ یہاں کے لوگ تو پہلے ہی استعمار کا شکار تھے۔ اپنے ہی لوگوں کے ہاتھوں پس رہے تھے۔ یہ نرم دل اور عاشق مزاج جذباتی لوگ چھوٹی چھوٹی خوشیوں کے مزے لینے والے تھے، کتنی جلدی ان کے دل ٹوٹ جاتے تھے۔ مہمانوں کے لیے اپنا کھانا اٹھا کر دے دیتے تھے۔ کشت و خون سے ان کا دور دور تک تعلق نہیں تھا۔ ان کو باہر کی دنیا سے کوئی غرض نہ تھی۔ کشت وخون ان کا اوڑھنا بچھونا کبھی نہیں بن سکا۔ اپنے امیروں اور نوابوں کے ہاتھوں بھوک کے شکار لوگوں پہ بدیسی استعمار آ سوار ہوا تھا۔
قابل نفرت انگریزوں نے ان کی زندگی دو بھر کر دی تھی۔ ان سے لڑتے لڑتے اس کی فوج ختم ہوگئی تھی۔ اس کے جرنیل نے واپس اپنے ملک جانے کی ٹھانی تو وہ اس جہاز سے اتر آیا۔ اس کی انا نے اجازت نہیں دی کہ وہ انگریز سے ہار کر وطن لوٹے۔ وہ اپنے خاندان اور قابل احترام انکل کا سامنا کیسے کرے گا جس کی امیدوں پہ پورا اترنے کے لیے وہ اس سرزمین پہ آیا تھا۔ وہ بھی استعمار کا نمائندہ بن کے آیا تھا لیکن اس زمین نے اس کے دل میں گھر کر لیا تھا۔ وہ واپس نہیں گیا۔ جنگلوں اور بیابانوں میں بھتکتا رہا، لڑتا رہا۔ اس نے اس سرزمین کے باسیوں کو جدید جنگی آلات کا استعمال سکھایا، نظم و ٖضبط سکھایا۔ اس کے ساتھ اپنے ملک کے سرپھرے جو اپنے وطن کے دفاع کی جنگ پرائی زمین پرلڑنے کو تیار تھے، ان کے علاوہ مقامی لوگوں پہ مشتمل دستہ بھی تیار کر لیا۔
اس نے گن سنبھالی، ایک نظر دائیں بائیں توپیں سنبھالے اپنے جانثاروں پہ نظر ڈالی۔ بندوقیں ہاتھ میں لیے بارود کے ڈھیر اکٹھا کیے رائفلرز کی انگلیں ٹریگر پر تھیں۔ وہ اپنے ہاتھ کی دو انگلیاں آنکھوں کے سامنے لا کر دشمن کی طرف اشارہ کرتے ہوئے، دشمن پہ نظر رکھنے کا حکم دیتا ہے۔ دشمن دستے جو بے ترتیبی سے لوٹ مار میں مصروف تھے۔ ان میں سے چند سواروں اور پیادوں کا رخ ان کی جانب ہوا، اور وہ تیزی سے ان کے سامنے کدھی خندق کی طرف بڑھنے لگے۔
فرانس کا یہ نوجوان "جین لا ڈی لارسٹن"، اپنے ملک سے ہزاروں میل دور، بہار انڈیا میں ہیلسا کے مقام پہ دشمن کا آخری دفعہ سامنا کرنے کا فیصلہ کر چکا تھا۔ اس نے اب واپس فرانس نہیں جانا تھا۔ یہ اس کی زندگی کی آخری جنگ تھی۔
جیسے ہی انگریز فوج کے سپاہی توپوں کی زد میں آئے۔ وہ چیخا
"فائر"
کئی دھماکے ایک ساتھ ہوئے اور انگریز فوج کے کئی سپاہی چیتھڑوں میں بدل گئے۔
***
"جین لاء ڈی لارسٹن" فرانس کی ایسٹ انڈیا کمپنی کی طرف سے ہندوستان میں لڑنے آیا تھا۔ یہ اپنے چند وفاداروں کے ساتھ ہندوستانی فوجوں سے ملکر انگریز کے خلاف لڑتا رہا۔ ہندوستانی فوجیوں کی ٹریننگ کرتا رہا۔ اس کا خاندان اس کے انکل جان ڈی لارسٹن کی قیادت سکاٹ لینڈ سے فرانس ہجرت کرکے گیا تھا۔ جین لاء ایک سچا اور بہادر سپاہی تھا۔ جس نے مختلف جنگوں میں اپنی مہارت کا ثبوت دیا۔ اس کے نام سے منسوب "لازپت" ایک گاوں آج بھی ہندوستان میں موجودہے جو اس کی بہادری اور ہندوستانی کے رہنے والوں کی طرف سے اس سے محبت کا ثبوت ہے
***