آج پہلی دفعہ سر فخر سے بلند ہو ا کہ میرے فرقے کے لوگ جو فیض آباد بند کرکے بیٹھے تھے وہ "اپنے" ہیں ان کے خلاف آپریشن نہیں ہو سکتا۔ بلوچستان والے اپنے نہیں، کے پی کے والے اپنے نہیں۔ اوکاڑہ فارمز پہ احتجاج کرنے والے بھی اپنے نہیں۔ لال مسجد والے بھی اپنے نہیں تھے۔ ہمارے لئے یہ فخر کی بات ہے کہ ہمارے دھرنے سے محبت اور یگانگت کا اظہار ان کی طرف سے ہو رہا ہے جن کو فوج میں قادیانی چاہیں پر ختم نبوت پہ وہ کمپرومائز نہیں کر سکتے۔ ہمیں بھی منظور نظر ہونے کے لئے، "اپنا" ہونے کے لئے صرف اتنا کرنا ہے کہ اس ٹویٹ کا نہیں پوچھنا، یہ سوال نہیں کرنا کہ "اوے تم کون ہوتے ہو، پاک فوج میں پلید قادیانی بھرتی کرنے والے " کیونکہ پھر ہمیں پتہ چلتا ہے کہ قادیانی بھی اس ملک کا حصہ ہیں اور ان کی بھی اس ملک کے لئے بہت قربانیاں ہیں۔ بھلا کتنی ؟؟ 70 سال میں ایک شہادت۔
یہ اس ملک کے "مالک " ہیں، "مائی باپ" ہیں۔ یہ فیصلہ کریں گے کہ حلف نامے میں ایک زیادہ مضبوط لفظ شامل کرنے سے تو ناموس رسالت کو خطرہ ہے لیکن اگریہی حلف نامہ فوج کو لگا دینے کا کہا جائے تو وہ قابل قبول نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ان لوگوں کو عوام کی تکلیف کا احساس نہیں ہے۔ ان کو ملک کی سالمیت یا مستقبل کی بھی پرواہ نہیں ہے۔ ان کو صرف اپنی اتھارٹی کی اور اپنی انا کی پرواہ ہے۔ جہاں جہاں ان کو فائدہ نظر آئے گا یہ طاقت بھی استعمال کریں گے۔ فاسفورس بم بھی چلائیں گے۔ اگر کسی ریٹائرڈ جنرل کو دیئے گئے فارم پہ کسی غریب ہاری نے احتجاج کیا تو اس پہ ٹینک لے کہ چڑھ دوڑیں گے۔ کہ یہ ملک کی سالمیت کا مسئلہ ہوگا۔ شائد صحیح کہتے ہیں کہ ہمارے ملک کی سالمیت ایک جنرل کی زمین کے چند ایکڑسے جڑی ہے یا شائد کسی جنرل کی مونچھ کے نیچا ہونے کے ساتھ۔
اور رہ گیا مستقبل ؟؟؟ تو کیا فائدہ ایسے مستقبل کا جس میں طاقت طاقتور کے پاس نہیں، بلڈی سویلینز کے پاس ہو۔ ایک غریب اور جاہل آدمی کی کاغذ کی پرچی سے آنے والا ان سے سوال کرے۔ یہ مستقبل نہیں تاریک مستقبل ہے۔ اور اس کو روکنے کے لئے جو بھی بن پڑے۔ ہمیں کرنا چاہیے۔ اس کے لئے لسانی گروپوں کے دہشت گردوں کے درمیان وچولن کا کردار ادا کرنا پڑے یا ججز کو مینیج کرنا پڑے یا حلوہ خور مولویوں کا لانا پڑے۔ ہم کوئی بھی دقیقہ فروگزاشت نہیں کریں گے۔ اگر اندھیرا گہرا ہوا مسقتبل پہ تو دشمن ملک کے ساتھ سٹینڈ سٹل کا معاہدہ کر کے پہلے اندرونی اندھیروں کو دور کیا جائے گا
جس شخص کو سول سپریمیسی یا آئین اور قانون کی بالادستی کا اصل چہرہ دیکھنا ہے وہ لبیک تحریک کے صدر اور وزیر داخلہ کے درمیان ہونے والے معاہدے کو دیکھ سکتا ہے۔ وزیر دفاع کے ماتحت کام کرنے والے چیف آف آرمی سٹاف کے زیر کمان ایک "میجر جنرل" اس معاہدے کے ضامن قرار پائے ہیں۔ یہ معاہدہ ایک وزیر اور ایک 1000 بندوں کے گروہ کے لیڈر کے بیچ ہے۔ "فریقین" (بقول چیف صاحب) کے بیچ ایک معزز اور قابل تکریم شخص ضروری تھا سو میجر جنرل صاحب کو شامل کیا گیا۔ وزیر داخلہ کو احساس ہونا چاہیے کہ وزارت یا چند لاکھ ووٹوں کا یہ مطلب نہیں کہ وہ "معزز" ہو گئے ہیں۔ اس سے پہلے چیف صاحب ہمارے سینے پہ "اپنا" ہونے کا تمغہ لگا کہ ان کو ٹھینگا دکھا چکے ہیں۔ اور آفرین ہے کہ ان کی "پرواز میں کوتاہی" آئی ہو۔
لیکن اس معاہدے کے آئینے میں ہر سیاستدان کو اپنی شکل ضرور دیکھنی چاہیے کہ ان کی حیثیت کیا ہے۔ ان کی زندگی، مقبولیت، نصب العین، منشور سب جمہوریت کے ساتھ جڑے ہیں۔ اور یہ معاہدہ جمہوریت، سول سپریمیسی کے منہ پہ ایک طمانچہ ہے۔ نہیں معلوم اس کی تکلیف نواز شریف محسوس کریں گے، زرداری یا عمران خان۔ شائد ان کی سوچ چند سیٹوں سے آگے نہیں جا رہی۔ اور کوتاہ نظروں کا انجام یہی ہو گا کہ دھول چاٹتے رہیں گے اور زندگی کے دن پورے کرتے رہیں۔ اپنے اپنے حواریوں سے ایسے ہی تمغے سینے پہ سجاتے رہیں۔ کوئی "شیر" بن جائے کوئی "ٹائگر" تو کوئی "مرد حر"۔
لیکن ہم خوش ہیں کہ ہم تو "اپنے" ہیں۔ سڑو بلوچستان والو۔ ۔ ۔ کے پی کے والو۔ ۔ ۔ ۔ اور اوکاڑے والو۔ ۔ ۔ تم بھی۔ ۔