کل مسنگ پرسن کا کیس تھا اعلٰی عدالت میں۔ ۔ ۔ نہ وہ گھن گرج، نہ وہ "آج ہی پیش کرو" والی ڈیمانڈ۔ ۔ ۔ نہ وہ دھمکیاں، نہ قانون کی بالا دستی کا اظہار۔ ۔ ۔ ایں ایں۔ ۔ اوں اوں۔ ۔ اور 3 ہفتے کے لئے ٹائم۔ ۔ ۔ اور مئی میں یہ جج صاحب ریٹائر ہو رہے ہیں۔ یہ وہ جج ہیں جو پانامہ کیس میں چیتے کی طرح لپک رہے تھے۔
کہتے ہیں کہ اگر کسی میں ملک میں یہ دیکھنا ہو کہ اصل حکمران کون ہے تو یہ دیکھو کہ کس کے خلاف آپ بات نہیں کر سکتے۔ جج منمنانے لگتے ہیں۔ حکومت ڈھل جاتی ہے۔ عوام کو توہین رسالت کا الزام لگا کہ اٹھا لیا جاتا ہے۔ سارا دن سیاستدانوں سے پوچھنے والا جیو، " آپ نام کیوں نہیں لیتے کہ سازش کس کی ہے "۔ ۔ آج اپنی بندش پہ " چینل بند کیا جا رہا ہے "۔ ۔ ۔ اب ان سے پوچھ رہے ہیں کہ "کون بند کرا رہا ہے " تو زبانیں گنگ ہیں۔ کیوں نہیں کہتے کہ "فلاں بند کررہا ہے "،
اس لئے کہ جو بند کرا رہا ہے وہ اس ملک کے اصل مالک ہیں۔ جن کے آگے ججوں کی بولتی بند ہو جاتی ہے۔ بڑے بڑے بہادر گھگھیا جا تے ہیں۔ دوسروں کو ہر لحظہ دھمکیاں دینے والے، حکومت کو گھر بھیجنے کی بات کرنے والے، وزیر اعظم کو اڈیالہ میں کمرہ تیار ہے کی نوید دینے والے ٹھس ہو جاتے ہیں۔ "ہونا چاہیے، ہوتا ہے، ریاست وغیرہ وغیرہ " کی کہانی سنا کے اپنی ریٹائرمنٹ کا انتظار کر رہے ہیں تا کہ فیصلہ کرنے کی بلا ان سے ٹل جائے۔
اس خوف کا عالم دیکھیں کہ میں دوسروں کو بزدلی کا طعنہ دینے کے باوجود ان کا نام نہیں لے سکتا۔ میں بھی ججوں کی طرح، جیو کی طرح، وزیر اعظم کی طرح خوف زدہ ہوں۔ میرے پاس تو کوئی اختیار بھی نہیں۔ سوائے ایک اختیار کے
ووٹ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
میں کم از کم اس دن اس خوف کے حصار کو توڑ کے ووٹ ضرور ڈالوں گا۔ اگر اس ملک کے دفاع کی اور عزت کی تھوڑی فکر بھی ہے تو باز آجاو کہ پاکستان میں حکمرانی کا فیصلہ عوام نے کرنا ہے کسی بھی اور نے نہیں۔ ورنہ عوام تو خجل ہو ہی رہی ہے تم بھی بازاروں میں پھر سے خجل ہو جاو گے۔