1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. محمد اشتیاق/
  4. جماعت اسلامی، سیاست اور اسلامی نظام

جماعت اسلامی، سیاست اور اسلامی نظام

جماعت اسلامی کرپشن سے پاک، فلاحی کاموں میں سب سے آگے، پاکستانیت کے لئے سب سے بڑی قربانی بنگال میں ابھی تک دے رہے ہیں۔ اور سب سے بڑھ کر اس کا صحیح معنوں میں اندرونی جمہوری نظام۔ ۔ ۔ ان سے بہتر طریقہ انتخاب کسی بھی سیاسی جماعت کا نہیں ہے۔

جہاں جماعت اسلامی ناکام ہوتی ہے وہ ہے اس کا نعرہ۔ اسلامی نظام کا نعرہ۔ اس جماعت کو جب بھی تولا جائے گا اس کے اس نعرے بلکہ اس ذمہ داری کے حساب سے تولا جائے گا جو اس نے اپنی خوشی سے قبول کی۔ اس نعرے کے لئے جماعت اسلامی کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھا سکی۔ 70 سال میں متعدد بار شراکت داری میں اور 2002 کی اسمبلی میں ایک اور اسلامی جماعت کے ساتھ شراکت داری میں بھی اسے نعرے کو عملی جامہ پہنانے میں ناکام رہی ہے۔ حسبہ بل کے نام پہ سیاسی فرنٹ پہ نام بچانے کی کوشش کی لیکن معافی چاہتا ہوں نہایت پھسپھسی سی کوشش تھی جو پانچ سال کے دور اقتدار کو مدنظر رکھتے ہوئے اور زیادہ چھوٹی محسوس ہوتی ہے۔

نہ صرف جماعت اپنے نظریے کو عملی جامہ پہنانے میں ناکام رہی بلکہ اس نظریے میں بہت سارے سقم ہیں۔ دعویٰ تو اسلامی نظام لانے کا ہے لیکن اس پہ صحیح مغزماری نہیں کی گئی کہ وہ نظام کیا ہوگا۔ طریقہ انتخاب اور نظام حکومت پہ کوئی مفصل اور جامع، منظم حل موجود نہیں۔

جماعت اسلامی پہ اعتراضات میں سے ایک اس کا پرو اسٹیبلشمنٹ ہونا ہے، پچھلے 40 سال میں لگنے والے دونوں مارشل لاء میں جماعت اسلامی نے ڈکٹیٹرز کا ساتھ دیا اگرچہ یہ کوئی غیر معمولی بات نہیں لیکن پھر بھی جمہوریت کو کھوکھلا کرنے میں ان کے حصے سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ حتٰی کہ جمہوری ادوار میں بھی وہ کچھ نہ کچھ اسٹیبلشمنٹ کے کھیل کا حصہ رہی جیسا کہ قاضی صاحب کا لانگ مارچ۔

ایک اور مسئلہ جہاں پہ جماعت اسلامی کی اجتماعی دانشمندی جواب دے جاتی ہے وہ ہے "جہاد"۔ ۔ اس نام سے جماعت اسلامی کو بہت دفعہ استعمال کیا گیا۔ یہاں تک جماعت اسلامی کا ایک امیج ہی جہادی تنظیم کا بن چکا ہے۔ بلکہ اب تو پاکستانی طالبان کی بلا جواز حمایت کے بعد تو اگر یہ کہا جائے کہ ایک دہشت گرد تنظیم کا بن چکا تھا تو بھی کچھ زیادہ غلط نہیں ہو گا۔ طالبان کمانڈرز سے یک طرفہ محبت، امریکہ کی نفرت میں عوام کے جذبات کے خلاف بیانات نے اس سوچ کو مزید تقویت دی اور لوگ اب جماعت سے کافی بدظن ہیں ۔

میری ذاتی رائے میں سراج الحق صاحب، کو امیر منتخب کر کے جماعت اسلامی نے میچورٹی سے بچگانہ پن کی طرف سفر کیا ہے۔ جماعت کا امیج ایک میچور، مدبر اور کافی حد تک مین سٹریم میڈیا پہ شخصی کردارسازی سے ہٹ کہ کام کرنے والی جماعت کا تھا۔ لیکن سراج صاحب کی آمد کے بعد ایسا محسوس ہوتا ہے کہ عمران خان کو کاپی کرنے کی کوشش کی گئی۔ ٹوئٹر پہ سراج صاحب کی سادگی، شرافت، اور غربت کو کیش کرنے کی کوشش کی گئی۔ اس میں کوئی حرج نہیں لیکن ایک تو اس طرف آنے میں تھوڑی دیر ہو گئی اور دوسرا جماعت کو اس کی ضرورت نہیں تھی۔ وہ اس میدان کی کھلاڑی نہیں تھی اس کو اپنے میدان میں ہی کھیلنا چاہیے تھا۔

جماعت نے سوشل میڈیا کا استعمال بھی سٹینڈرڈ بھی بہت کم درجے کا ہے۔ سراج الحق کی ذات کو پروموٹ کرنے کے لئے جو ریڑھیاں نکالنے کی تصویریں یا زمین پہ بیٹھ کے چائے پینے کی تصویروں سے بی گریڈ موویز کی پروموشن کی یاد تازہ ہوتی ہے لیکن کوئی مثبت امیج نہیں چھوڑتیں۔ اس کے علاوہ بڑے رہنماوں کے ٹوئٹر ہینڈلر شائد ان کے سیکرٹری ہینڈل کر رہے ہیں کہ ان کے روز مرہ کے معمولات کا تو پتہ چلتا ہے پر اپنے نقطہ نظر کے لئے عوامی سطح پہ تائید حاصل کرنے کا جو موقع یہ میڈیا دیتا ہے اس سے جماعت اسلامی کی سوشل میڈیا ٹیم شائد لاعلم ہے۔ ان کی پرفارمنس شائد پی پی پی کے بعد سب سے کم ہے۔

تحریک انصاف سے کے پی کے میں غیر فطری اتحاد، اور اب اس کی ناکامیوں سے اپنا دامن بچانے کی کوشش، جیسا کہ ایم ایم اے کی ناکامیوں کا ملبہ فضل الرحمٰن پہ ڈالنے کی کوشش کی گئی۔ اس دفعہ بھی ناکام ہو گا۔ جماعت اسلامی کو ذمہ داری کا ثبوت دیتے ہوئے اس کی ذمہ داری قبول کرکے ایک دفعہ سیدھے سیاسی راستے کا آغاز کرنا چاہیے۔ اور اپنی رلی ملی سیاست جیسا وہ توہین رسالت کے قانون کے غلط استعمال کی کارروایئوں پہ وکٹ کے دونوں طرف کھیلتی ہے، کی بجائے واضح راستے اور لائحہ عمل کا اعلان کرنا چاہیے۔

محمد اشتیاق

Muhammad Ishtiaq

محمد اشتیاق ایک بہترین لکھاری جو کئی سالوں سے ادب سے وابستہ ہیں۔ محمد اشتیاق سخن کدہ اور دیگر کئی ویب سائٹس کے لئے مختلف موضوعات پہ بلاگز تحریر کرتے ہیں۔ اشتیاق کرکٹ سے جنون کی حد تک پیار کرنے والے ہیں جن کا کرکٹ سے متعلق اپنی ویب سائٹ کلب انفو ہے جہاں کلب کرکٹ کے بارے معلومات حاصل کی جاسکتی ہیں ۔ بہ لحاظ پیشہ محمد اشتیاق سافٹ ویئر انجینئر ہیں اور ایک پرائیویٹ کمپنی میں ملازمت کر رہے ہیں۔