جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال جوکہ لاپتہ افراد کے کمیشن کے سربراہ ہیں نے قومی اسمبلی کی انسانی حقوق کی کی قائمہ کمیتی کو لاپتہ افراد پہ بریفنگ دی۔ انہوں نے بہت سے انکشافات کئے۔ ان کے مطابق ٹوٹل 4929 کیسز موصول ہوئے۔ 3219 کیسز نمٹا دئے گئے ہیں جبکہ 1710 کیسز ابھی زیر تحقیق ہیں۔
مشرف حکومت کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ اس دور میں تقریبا 4 ہزار لوگوں کو دوسرے ملکوں کے حوالے کیا گیا۔ اور اس حوالگی کے عوض ڈالر وصول کئے گئے۔ یہ تقریبا وہی دور ہے جس میں ایک اخبار میں کارٹون چھپا جہاں ایک امریکن فوجی اس کتے کو شاباش دے رہا جس کے منہ میں ایک طالبان کے حلیے کا بندہ ہے۔ اور ہم نے بطور قوم اس کا بہت برا منایا تھا۔ لیکن جسٹس صاحب کی تحقیقات کے بعد یہ کہنا پڑے گا کہ ہمیں برا نہیں منانا چاہیے تھا۔ حالات کچھ ایسے ہی تھے اور ہم ان کے لئے تقریبا یہی ڈیوٹی سرانجام دے رہے تھے۔ اس لئے اگر ہم یہ فرائض ادا کرنے سے انکار نہ کر سکے تو پھربرا منانے کی وجہ سمجھ سے بالاتر ہے۔
ایک اور اہم نکتہ جو انہوں نے اٹھایا وہ این جی اوز کے حوالے سے ہے کہ وہ غیرممالک سے پیسے لے رہی ہیں اور ان کے ایجنڈے پہ کام کرتی ہیں۔ ان پہ پابندی ہونی چاہیے۔ اچھی تجویزہے تھوڑی دیر سے آئی لیکن اس پہ جلد سے جلد عمل درآمد ہونا چاہیے۔ ایسی ہی ایک این جی او کی رپورٹ پہ، ویڈیو کلپ پہ ہم نے اپنے علاقے سوات میں آپریشن کرکے وہاں کے لوگوں کا جینا عذاب کر دیا۔ اور بعد میں پتہ چلا کہ وہ ویڈیو فیک تھا۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ این جی اوز اپنے ایجنڈے کو پھیلانے میں بہت کارآمد ہیں۔ افسوس کا مقام ہے کہ اس ایجنڈے میں ہمارے میڈیا کا ایک بہت بڑا بلکہ کہنا چاہیے کہ پورا میڈیا ہی ملوث پایا گیا۔
انہیں این جی اوز سے جڑی ایک اور کہانی ملالہ کی بھی ہے۔ کہ ایک اخبار نویس اس 12 سالہ لڑکی کہانی انگریزی میں چھاپ کے اس کو انٹرنیشنل لیول پہ اتنا مشہور کر دیتا ہے کہ طالبان جو لوگوں کو ذبح کرنے کا ماہر تھے ان کے ہاتھ اس شہرت، اس لڑکی کی بہادری اور غیر متزلزل ایمان جو کہ زیادہ تر ہم تک اس اخبار نویس اور انڑنیشنل میڈیا کے ذریعے پہنچا۔ کی وجہ سے ایسے کانپے کہ پوائنٹ بلینک سے گن کی صرف ایک گولی چلا پائے جو اس کے سر کو چھوتے ہوئے گزر گئی۔ اس کو معجزہ قرار دیا جا سکتا ہے یا ہو سکتا ہے کہ فوج کی کڑی نگرانی کی وجہ سے گولیاں بچانے کا آرڈر خاص طور پہ دیا گیا ہو کہ میریٹ کو اڑانے کے لئے پورا ٹرک بارود کا ضائع کرنے جیسے عیاشی میسر نہ رہی ہو۔
جسٹس جاوید اقبال صاحب نے یہ بھی بتایا کہ کافی لوگوں کو ملک دشمن ایجنسیز بھی لوگوں کے لاپتہ کرنے میں ملوث پائی گئی ہیں اور اس کے لئے بلا جواز آی ایس آئی اور ایم آئی کو مورد الزام ٹھہرایا جاتا ہے۔ اس میں یہ واضح نہیں کیا کہ وہ ملک دشمن ایجنسیز ہمارے اپنی ملکی ہیں یا غیرملکی۔ یہ عجب سی بات معلوم ہوتی ہے چند سوالات اٹھتے ہیں جو شائد اہم نہ ہوں لیکن پھر بھی سوچنا چاہیے۔ اگرملکی ہیں تو وہ کیوں ہیں اور کس کی ناکامی ہے؟ اگر وہ بندے غائب کر رہی ہیں اور ہمارے علم میں بھی ہے تو پکڑا کیوں نہیں گیا ؟
لیکن اگر وہ ملک دشمن ایجنسیز غیرملکی ہیں اور ہمارے ملک سے بندے لاپتہ کرکے اس کا الزام ہماری قابل فخر اور محب وطن ایجنسیز پہ لگا رہے ہیں۔ اس سازش کا ہم سب کو مل کہ مقابلہ کرنا چاہیے۔ لیکن سمجھ نہیں آرہی کہ اس سازش کی کامیابی پہ سوال کس سے کریں۔ وہ کون سی ایجنسی یا ادارہ ہے جس سے سوال کیا جائے کہ غیرملکی ہمارے ملک سے بندے کیسے اٹھا کے لے جا رہے ہیں۔ اور وہ ادارے ناکام کیوں ہیں۔ ان کی ناکامی کا سارا بوجھ آئی ایس آئی اور ایم آئی جیسے معروف اور مصروف ادارے کو اٹھانا پڑرہا ہے۔