لودھراں، این اے 154 میں ہونے والے اس اسمبلی کے آخری ضمنی الیکشن کا حیرت انگیز رزلٹ سامنے آیا ہے۔ جہانگیر ترین، سیکرٹری جنرل پی ٹی آئی کے بیٹے علی ترین 31 ہزار ووٹ سے ہار گئے۔ اور جیتنے والے امیدوار مسلم لیگ کے پیر اقبال شاہ تھے۔ پی ٹی آئی کی شکست اس حلقے سے غیر متوقع تھی۔ ایک تو جہانگیر ترین کی گرفت اس حلقے میں کافی ہے جو انہوں نے آخری ضمنی الیکشن میں ثابت کی۔ دوسرا ان سے زیادہ الیکشن میں پیسہ بھی کوئی نہیں لگا سکتا۔ پھر بھی مسلم لیگ کی کامیابی جہانگیر ترین کے لئے نقصان اور پی ٹی آئی کے لئے لمحہ فکریہ ہے۔
اس شکست کی ایک بڑی وجہ لوگوں کی موروثی سیاست سے نفرت بیان کی جاتی ہے۔ جیسا کہ عمران خان صاحب کا موقف تھا کہ وہ موروثی سیاست کے خلاف جہاد کر رہے ہیں کیوں کہ موروثی سیاست کی وجہ سے ملک تباہی کی طرف جاتا ہے۔ اور پھر علی ترین کو لودھراں سے ٹکٹ دیتے ہوئے موروثی سیاست کی نئی تشریح انہوں نے کی کہ وہ یعنی عمران خان کوئی اپنے رشتہ دار کو ٹکٹ تو نہیں دے رہے۔ (حالانکہ سینیٹ کے انتخابات میں یہ بھی ہو چکا)۔ لیکن سوشل میڈیا سے یہ شور اٹھا کہ لودھراں میں جہانگیر ترین کے بعد سب سے متحرک اور اہل آدمی علی ترین ہی ہے پی ٹی آئی میں ؟ اس سوال کو تسلسل سے پی ایم ایل کے سوشل میڈیا کی جانب سے اٹھایا گیا۔ اور جہانگیر ترین کی سوشل میڈیا ٹیم جو کہ کافی ایکٹو ہے اور مستعار پہ بھی مل جاتی ہے۔ اس کا توڑ نہ کر سکی۔ خان صاحب کی مریم نواز پہ موروثی سیاست کے حوالے سے تنقید کا رخ جب علی ترین کی طرف موڑا گیا تو اخلاقی طور پہ پی ٹی آئی کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔ اور یہ میدان مسلم لیگ کی سوشل میڈیا ٹیم کے ہاتھ رہا۔
لیکن اہم سوال یہ ہے کہ کیا لودھراں کا فیصلہ موروثی سیاست کے خلاف تھا ؟ کیا ہم لوگ موروثی سیاست کے خلاف اس قدر ہو گئے ہیں کہ پی ٹی آئی کی سب سے طاقتور، بااختیار اور دولت مند شخصیت کو موروثی سیاست کی بنیاد پہ پیچھے کر دیں۔ کیا پی ٹی آئی کا ووٹر جس کی زیادہ شہرت عمران خان کے فین کلب کی سی ہے وہ خان کے ویژن سے اس قدر بدظن ہو سکتا ہے کہ اس کے حکم سے سرتابی کرے۔ اور اگر یہ مبینہ "شعور" عوام میں آگیا ہے تو کیا یہ صرف پی ٹی آئی تک محدود ہے کیا این اے 120 کی مسلم لیگی عوام اس سے محروم ہے؟ وہاں نواز شریف کے بعد ان کی اہلیہ کیسے جیت گئیں؟ پاکستانی سیاست میں موروثیت کی اپنی اہمیت ہے اور اس وقت تک اس میں کوئی فرق نہیں پڑا۔ اس وقت پیپلز پارٹی کو غیر مقبولیت کی اتھاہ گہرائیوں سے اعتزاز احسن یا رضا ربانی نہیں صرف بلاول بھٹو اٹھا سکتا ہے۔ عمران خان کا ووٹ بینک ورثے میں کسی نیازی کو مل سکتا ہے اسد عمرکو نہیں۔ نواز شریف کاووٹ بینک صرف کوئی شریف یہ بچا سکتا ہے کوئی اور نہیں۔ یہ تلخ حقیقت ہے اس کو تسلیم کیے بنا کوئی چارہ نہیں۔ اگر کوئی اس سے متفق نہیں تو جلد ہو جائے گا۔
عمران خان صاحب نے این اے 120 کے الیکشن کو عوامی عدالت قرار دیا تھا اور کہا تھا کہ 120 کی عوام عدالتی فیصلے پہ مہر ثبت کر کے ثابت کرے گی کہ عوام چوروں سے نفرت کرتی ہے۔ لیکن ایسا نہ ہو سکا اور بقول خان صاحب کے عوامی عدالت نے سپریم کورٹ کے فیصلے کی توثیق نہ کی۔ لیکن کیا ہم کہ سکتے ہیں کہ اب عوام نے جہانگیر ترین کو ناکام کرکے سپریم کورٹ کے فیصلے کی توثیق کر دی ہے اور مہر ثبت کی ہے کہ جہانگیر ترین ایک بے ایمان اور چور ہے؟ خان صاحب کو سمجھنا چاہیے کہ عوامی عدالت کا اپنا قانون اور اپنے دلائل ہیں۔ وہ کسی ادارے کی عزت کا واسطہ دے کہ سیاست نہیں کر سکتے۔ اور بڑے سیاستدان اداروں کا سہارا نہیں لیا کرتے۔ جو ایسا کرتے ہیں ان کو اپنے الفاظ واپس چبانے پڑتے ہیں۔ بلکہ سوشل میڈیا کی بے لگام آزادی میں تو وہ الفاظ واپس آپ کے منہ میں گھسا دئیے جاتے ہیں۔ بہت جلد خان صاحب کو اس سوال کا جواب دینا پڑے گا کہ کیا عوام نے جہانگیر ترین کے چور ہونے پہ مہر ثبت کر دی ہے؟
مسلم لیگ کی کامیابی کی سب سے اہم وجہ ان کی فیصلہ سازی اور اپنے دھڑوں کے درمیان اتحاد قائم رکھنے میں کامیابی ہے۔ انہوں نے حیرت انگیز طور پہ نیا امیدوار لا کر ایک بہت مضبوط فیصلہ کیا۔ پچھلی دو دفعہ کے امیدواروں کو ٹکٹ نہ دینا ایک مشکل مرحلہ تھا کیونکہ ٹکٹ کے بغیر دھڑوں کو ایک دوسرے کی مدد کے لئے تیار کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ لیکن مسلم لیگ نے یہ فیصلہ کیا اور پھر اس کو جیت میں بدلا۔ جو یقینا ایک میچور سیاسی قیادت ہونے کا ثبوت دینے کے ساتھ ساتھ بطور پارٹی مضبوط ہونے کا بھی عندیہ دیتی ہے۔ اگرچہ حکومت میں ہونے کی وجہ سے ضمنی الیکشن آسان کہے جا سکتے ہیں لیکن اس سے قبل ضمنی الیکشن مسلم لیگ ہار چکی ہے اور اسٹیبلشمنٹ کے عتاب کا بھی شکار ہے۔ اس کے باوجود اس حکمت عملی سے الیکشن جیتنا مسلم لیگ کے لئے اطمینان کا باعث اور پی ٹی آئی کے لئے ایک بہت بڑا جھٹکا ہے۔
اسٹیبلشمنٹ کے لئے لمحہ فکریہ بھی ہے کہ نواز شریف نے جھکنے سے انکار کر کے جس سفر کا آغاز کیا تھا اورسول بالادستی کی جس جدو جہد کا آغاز کیا تھا۔ وہ لوگوں کے دلوں میں جگہ پا رہی ہے۔ ایک ہی پارٹی پہ کرم نوازی اور قومی حکومت کی بتی کے پیچھے لگے بابے رحمتے کے لئے بھی یہ لمحہ فکریہ ہے کہ ان کی تمام تر کوششوں کے باوجود مسلم لیگ اپنے خیالات کو عوام میں اب تک پذیرائی دلانے میں کامیاب رہی ہے۔ اور جوں جوں وقت گزرے گا اندرونی اور بیرونی دونوں طرف سے دباو بڑھے گا کہ سیاسی میدان میں توازن خراب کرنے کو پوری دنیا میں اچھا نہیں سمجھا جاتا۔ اور وقت کے ساتھ ساتھ مسلم لیگ یہ اسٹیبلیش کرتی جا رہی ہے۔
پاکستان کے مستقبل کےلئے یہ سوال بہت اہم ہے کہ نواز شریف نے جس بغاوت کا آغاز کیا ہے۔ اب اس کی پذیرائی کے بعد دوسری پارٹی بیرکوں میں واپس جاتی ہے یا بساط لپیٹنے کا سوچتی ہے۔ لیکن ایک بات طے ہے کہ نواز شریف کا مقابلہ عمران خان سے بہر حال نہیں ہے اس کی حیثیت جنگ میں قائم ایک پوسٹ کی سی ہے۔