حال ہی میں اختتام پذیر ہونے والے ڈیپارٹمنٹل ون ڈے کپ 2017/18 میں یو بی ایل کی ٹیم نے فتح حاصل کی ہے، انہوں نے فائنل میں واپڈا کی ٹیم کو ہرایا۔ یوبی ایل نے بائولنگ اور بیٹنگ دونوں میں اپنی برتری ثابت کی۔ ان کے 2 بائولرز بائولنگ چارٹ میں ٹاپ پر ہیں جنہوں نے یوبی ایل کی جیت میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
عمران خالد 15 وکٹوں اور 21.67 اوریج کےساتھ پانچویں نمبر پر ہیں-میر حمزہ 15 وکٹوں سے ساتھ چوتھے نمبر پر ہیں۔ انہوں نے یہ وکٹیں 8 میچوں میں 20.80 کی ایوریج سے حاصل کیں۔ لیفٹ آرم سپنر محمداصغر 17 وکٹوں اور 20.29 اوریج کےساتھ تیسرے نمبر پر ہیں۔ جبکہ سوئی سدرن گیس کے فاسٹ بائولر احمد جمال 17 وکٹوں کےساتھ 17.81 کی ایوریج سے دوسرے نمبر پر ہیں۔
کے آر ایل کے فاسٹ بائولر صدف حسین، 18 وکٹیں لے کر بائولنگ چارٹ کے ٹاپ پر ہیں۔ انہوں نے یہ وکٹیں 20 کی اوسط سے لی ہیں۔ پچھلے 4 سال میں یہ تیسری دفعہ ہے کہ صدف حسین نے ٹاپ کیا ہے۔ - بائیں ہاتھ سے بائولنگ کرنے والا باصلاحیت بائولر سب سے زیادہ وکٹیں لینے والا بائولر بنا۔ اس کے علاوہ حالیہ قائد اعظم ٹرافی میں 9 میچوں میں صدف حسین نے 47 وکٹیں لیں۔ ایوریج رہی 15.02۔
اس باصالاحیت کھلاڑی سے روا رکھے جانے والے سلوک سے پی سی بی کی سلیکشن پالیسی سمجھ سے بالا تر معلوم ہوتی ہے، کہ اگر صدف حسین ڈومیسٹک میں مسلسل پرفارم کرکے پاکستان ٹیم جگہ نہیں بنا سکتا تو پھر وہ کون سا ذریعہ ہے کہ جس سے وہ ٹیم میں آ سکتا ہے؟ اگر پی سی بی پاکستان کے پریمیئر ون ڈے ٹورنامنٹ میں پرفارم کرنے والوں کو چانس نہیں دے گی، تو پھر اس ٹورنامنٹ کا حاصل کیا ہے؟ اتنے بڑے ٹورنامنٹ جس پر کروڑوں روپے خرچ ہو رہے ہیں کا کیا فائدہ اگر آپ نے اس میں کارکردگی دکھانے والے کھلاڑیوں کو آگے نہیں لانا، پوری دنیا میں ڈومیسٹک کرکٹ کھلاڑی ڈھونڈنے کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ ہمارے ہاں اپنے گھوڑے آگے بھگانے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ کوئی کھلاڑی کیریئر میں ایک دفعہ 5 وکٹیں حاصل کر لے تو وہ انٹرنیشنل کرکٹ کھیل جاتا ہے۔ اور کوئی 5 وکٹیں لینے کو عادت بنا لے تو بھی صدف حسین کی طرح، تابش خان کی طرح صرف کیمپ کی کال کا انتظار کرتا ہے۔
اگر پی سی بی کے خیال میں ان کے ون ڈے ٹورنامنٹ میں پرفارم کرنے والے کھلاڑی اس قابل نہیں کہ انہیں انٹرنیشنل کرکٹ کھلائی جائے تو پھر پی سی بی کو اپنا سسٹم تبدیل کرنا ہوگا۔ کوالٹی لانی ہوگی۔ کیوں کہ پرفارمرز کو چانس دے کے وہ خود اس بات کا اعتراف کر رہے ہیں کہ ان کے سسٹم میں کمتر کھلاڑی بھی ٹاپ کر سکتا ہے۔ حالانکہ اس سسٹم میں سب سے بہتر کھلاڑی کو ٹاپ کرنا چاہیے۔
یہ ہر سال کروڑوں روپے کا ضیان ہے۔ اس سے کہیں بہتر ہے کہ ڈسٹرکٹ ایسوسی ایشن کی سلیکشن والا دلچسپ طریقہ استعمال کیا جائے۔ ایسوسی ایشن کے کرتا دھرتا ایس ایم ایس کے ذریعے اپنے کلبز، اور پلیئر کو ٹرائلز سے آگاہ کرتے ہیں۔ اور تین گھنٹوں کے ٹرائلز میں 100 /150 بچوں کی قسمت کا فیصلہ ہو جا تاہے۔ کہ ان میں کون کون شعیب اختر، سعید اجمل اور محمد یوسف ہے۔ سارا سال کھیلے گئے میچز میں پرفارمنس، ساری لیگز (اگر ہوئی ہیں تو) بھاڑ میں جائیں۔ ہم ان سلیکٹرز کی چھٹی حس پہ انحصار کرنے پہ مجبور ہیں، جن کی پانچوں حسیں صحیح کام نہیں کرتیں۔ لیکن پھر بھی شاید اس طرح سے صدف حسین، تابش خان کو چانس مل جائے کہ ڈومیسٹک میں کارکردگی دکھا دکھا کر وہ تھک چکے ہیں، شاید یہ سسٹم ہی تھکا ہوا ہے۔