’’ مخاطب ‘‘ کے زیر اہتمام ’’ایک شام کیفی آعظمی کے نام ‘‘ لیوانا سویٹ واقع مدن موہن مالویہ روذ پر منعقد کیا گیا۔ اس پروگرام کی صدارت جناب ابھیشک شکلا جی نے کی اور بطورمہمان خصوصی جناب سید حسین تاج رضوی نے شرکت کی۔ اس موقع پر’مخاطب ‘کی صدر عائشہ ایوب نے مدعو شعرا اور دانشوروں کا تعارف پیش کیا۔
کیفی آعظمی کی زندگی اور ان کی ادبی سرگرمیوں پر جناب شاہدکمال نے کلیدی خطبہ دیا، انھوں نے کیفی آعظمی کی زندگی کے مختلف نشیب وفراز پر سیر حاصل گفتگو کرتے ہوئے اپنے بیان میں اس بات کا ذکر کیا کہ کیفی آعظمی آعظم گڑھ کے مضافاتی علاقے کے ایک چھوٹے سے گاؤں مجھواں میں ۱۹۲۳ میں پیدا ہوئے، ان کے والدین نے ان کا نام سید اطہر حسین رضوی رکھا، ان کی ابتدائی تعلیم گھر پر ہی ہوئی بعد میں اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لئے ہندوستان کے مشہور ادارے سلطان المدارس لکھنؤ میں ان کا نام لکھوا دیا گیا۔ لیکن ان کے تخلیقی نظریات اور مذہبی پیچیدگیاں بہت جلد ایک دوسرے سے باہم دست وگریباں ہوگئیں جس کی وجہ سے انھیں سلطان المدارس چھوڑنا پڑا، بعد میں بحیثیت شاعر ترقی پسند تحریک سے وابستہ ہوگئے۔ ترقی پسند تحریک کے نظریاتی منشور اور مارکس ازم کے نظریاتی فضا نے ان کے اندر کے تخلیق کار کو ایک نیا رنگ و روپ عطا کیا۔ ایک زمیندار گھرانے سے تعلق رکھنے کے باوجود انھوں نے سرمایہ داری نظام کے خلاف کھل کر آواز بلند کی، اور انھوں نے غریبوں، کمزوروں، مزدوروں، اور پسماندہ طبقہ سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے حق میں کھل کر آواز بلند کی۔ جس کا اندازہ ان کی احتجاجی اور انقلابی شاعری کے ذریعہ لگایا جاسکتا ہے۔ سید اطہر حسین رضوی سے کیفی آعظمی بننے کے سفر میں انھوں نے زندگی کی بہت سی مشقتوں اور صعوبتوں کا سامنا کیا، لیکن ان کے حوصلے اور جذبے میں کوئی کمی نہیں آئی بلکہ ہر آنے والے وقت کے ساتھ ان کے عزم و استقلال میں مزید اضافہ ہوتا گیا۔ کیفی آعظمی نے فلمی دنیا میں بھی اپنی ذہنی اور خلاقانہ صلاحیتوں سے ایک بلند مقام حاصل کیا، اور ایک سے بڑھ کر ایک فلمی نغمے لکھے جو آج بھی زباں زد عوام و خواص ہے۔ فلمی دنیا میں ان کا نام ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا۔ سید حسین تاج رضوی نے بھی مہمان خصوصی کی حیثیت سے کیفی آعظمی کے فکرو فن پر گفتگو کرتے ہوئے بہت سے اہم نکات واشگاف کئے۔
پروگرام کا آغاز مشہور گلوکارہ مالویکا ہری اوم نے کیفی آعظمی کے لکھے ہوئے نغموں سے کیا انھوں نے اپنی بہترین آواز کے ذریعہ سامعین کو کافی محظوظ کیا۔ اس کے بعد ’’محفل سخن‘‘ کا یہ سلسلہ قمر عباس قمر کی نظامت میں بڑی خوش اسلوبی کے ساتھ اختتام پذیر ہوا۔ کچھ شعرا کے منتخب اشعار۔
میں سوچتا ہوں بہت زندگی کے بارے میں
یہ زندگی بھی مجھے سوچ کر نہ رہ جائے
ابھیشک شکلا
ایک سراب آرزو جو دسترس پر منحصر
ہاتھ آئے تو مکمل چھوٹ جائے زندگی
ڈاکٹرایاز
اس کے قصے میں تو پریاں بھی نہیں آتی ہیں
جس کہانی سے پھر اک بار بہلنا ہے مجھے
میں گنہگار ہی اچھی ہوں برائے محفل
یہ جو تم بیچتے پھرتے ہوخدا رکھ لو تم
گوہر لکھنوی
ہر بات سربزم بھلا کرتا ہے کوئی
کیوںاپنے ہی جذبات کی عریانی کرو ہو
اسری رضوی
کسے خبر تھی ترا ہجر مری آنکھوں میں
بس انتظار کے سارے عذاب رکھ دے گا
قمر عباس قمر
ہنس کے ہر بوجھ زمانے کا اٹھا لیتا ہوں
میں ہوں مزدور مجھے اتنی حقارت سے نہ دیکھ
شاہدکمال
میری آنکھوں میں اترنا نیند کا
اور اس کے خواب آنا ہائے ہائے
عفیف سراج
ابھی ہواؤں میں بو ہے بارود کی جوانوں
ابھی محبت کے گیت گانے کی رُت نہیں ہے
دیدار اکبر پوری
جناب ابھیشک شکلا، جناب حسین تارج رضوی محترمہ اسرارضوی، جناب سلمان خیال، جناب علی ساقی، ڈاکٹر ایاز، جناب وکرم سریواستو، جناب انکت بھدوریا، جناب دیدار اکبرپوری، محترمہ عائشہ ایوب گوہر لکھنؤی، جناب ہتیش شرما، جناب شیوندرا، جناب زبیر عالم، جناب احمد صغیر، مخاطب کے اس پروگرام میں شریک ہونے والے ان نوجوان شعرا نے بھی کھل کر اپنی غزلیں اور نظموں سے ایک سما باندھ دیا۔