انسانی معاشرتی نظام میں تاریخ کی اپنی الگ اہمیت ہوتی ہے۔ جس سے کبھی انکار نہیں کیا جاسکتا ہے۔ اگر ہمارے درمیان سے تاریخ کو ہٹا دیا جائے تو ہمارے درمیان ایک ایسا زمانی اور مکانی خلا واقع ہوجائے گا جسے ایک نسل کادوسری نسل سے رابطہ منقطع ہوجائے گا۔ ایسی صورت میں حال سے مستقبل کے درمیان کی مسافت طے کرنا ایک ناگزیر عمل ثابت ہوسکتا ہے۔ چونکہ انسان اپنے ماضی کے آثار و باقیات کے خط مستقیم سے ہی حال اور مستقبل کی مسافت کا تعین کرتا ہے۔ خاص کر جب کوئی شخص کسی مذہب یا قوم کی تہذیب و ثقافت کا تجزیہ کرنا چاہتا ہے تو وہ سب سے پہلے اس قوم اورمذہب کے اتحاس کا ہی جائزہ لیتا ہے۔ اس لئے کہ اس کے بغیر کوئی شخص کسی حتمی نتیجہ تک نہیں پہنچ سکتا ہے اور نہ اس کی سچائی و حقیقت کا ادارک کرسکتا ہے۔ لہذا اس زمین پر آباد ہونے والی قوموں کی سب بڑی ورثت ان کے ماضی کی تہذیب و ثقافت ہی ہوتی ہے۔ اگر کسی قوم یا مذہب کے وجود کو ختم کرنا مقصود ہوتو اس کے ماضی کے تمام آثار کو ختم کردیا جائے تو وہ قوم خو دبخود اپنی شناخت سے محروم ہوجاے گی۔
اسلام کی سب سے بڑی شناخت اس کے ماضی کی تاریخ کے دامن موجود اس کے آثارو باقیات ہیں، جس کی وجہ سے آج عالمی سطح پر اسلام کی اپنی ایک الگ شناخت ہے۔ عالمی استعمار کی سب سے بڑی کوشش یہی ہے کہ اسلام کی اس عظیم الشان تاریخ کو اس طریقہ سے مسخ کردیا جائے کی آنے والی نسلیں اپنی اصل پہچان سے محروم ہوجائیں۔ موجودہ عہد میں مشرق اوسطیٰ میں برپا ہونے والی جنگ استعماری طاقتوں کے مختلف سیاسی و سماجی مقاصد کے حصول کے اہداف میں سے ایک ہدف یہ بھی ہے کہ اسلام کے مقدس آثار و شعائر کو ختم کردیا جائے۔ اسلام دشمنوں طاقتوں کا یہ وہ دیرینہ خواب ہے جسے وہ کسی بھی صورت میں شرمندہ تعبیر کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن انھیں اپنے مقاصد کے حصول میں مستقل شکست آمیز ذلت سے دوچار ہونا پڑرہا ہے۔
لیکن اسلام کے ساتھ سب سے بڑا المیہ یہی رہا ہے کہ ابتدائے اسلام سے ہی مسلمان سامراجی طاقتوں کا الہ کار بنا رہا، اور ان استعماری طاقتوں نے مسلمانوں کو اسلام کے خلاف لا کھڑا کردیا، اور اسلام اور مسلمان دونوں ایک دوسرے سے ہمیشہ مزاحم رہے، اور یہ کشمکش صدر اسلام سے لے کر آج تک جاری ہے۔ لیکن موجودہ عہد میں اس فتنہ میں اہم رول آل سعود کی حکومت نے ادا کیا۔ جب آل سعود برطانیہ حکومت کی مدد سے مکہ اور مدینہ پر اپنا تسط قائم کیا تو اس نے سب سے پہلے سرزمین نزول وحی و قرآن حجاز ومکہ کے نام کو تبدیل کرکے اپنے نااہل باپ سعود کے نام پر سعودیہ رکھ دیا، اس نام کی تبدیلی کے پیچھے یہودیت اور عیسایت کی ایک بڑی سازش کارفرما رہی ہے۔ دوسرے سب سے بڑے فتنہ نے عبدالوہاب کے نام سے جنم لیا جس نے اسلام میں ایک ایسے نظریہ کی بنیاد ڈالی جس نے عالم اسلام کوزیر و زبر کرکے رکھ دیا۔ 1160 ھ میں محمد بن عبدالوہاب نے ’’درعیہـ‘‘ پر حکومت کررہے ابن سعود سے ایک معاہد کیا جس میں یہ طے قرار پایا کہ نجد کے تمام دیہی علاقے تمہارے زیر تسلط رہیں گے۔ اور وہاں سے اکٹھا ہونے والے ٹیکسیز اور جنگی غنائم تم اصول کروگے۔ لیکن اس شرط کے ساتھ کہ مجھے (ابن عبد الواہب) اپنے نظریات کی ترویج کا مکمل اختیار ہوگا۔ اس بات پر ابن سعود راضی ہوگیا لیکن اس نے کہا کہ اگر میں درعیہ کے عوام پر ٹیکس جاری کروں تو مجھے اس بات کا خوف ہے، کہ تم کہیں انہیں منع نہ کردو اس پر محمد بن عبدالوہاب نے اسے مطمین رہنے کے لئے کہا۔ اس کے بعد عبدالوہاب نجدی نے ابن سعود کی مالی کفالت کے ذریعہ اسلام میں ایسی بدعتیں ایجاد کی جس نے عالم اسلام کے اتحاد کو پارہ پارہ کردیا اور کفر وشرک کے نام سے مسلمانوں کے خون کا دریا بہا یا دیا۔ بعض تاریخ نویسوںکے مطابق اگر محمدبن عبدالوہاب ابن تیمیہ کے افکار کو ترویج نہ دیتا تو ابن تیمیہ اور اس کے شاگرد ابن قیم کی موت کے بعد اپنے نظریات کے ساتھ ہمیشہ کے لئے ختم ہوجاتااور پھر تکفیری دہشت گردوں کا وجود نہ ہوتا۔
اسلام میں اس فتنہ میں مزید استحکام تب پید اہواجب عبدالوہاب کی بیٹی کی شادی ابن سعود کے بیٹے عبدالعزیز سے ہوگئی، اس کے بعد دونوں کے درمیان اور مضبوط روابط قائم ہوگئے۔ عبدالعزیز نے عبدالوہاب کے نظریات کو فروغ دینے کے لئے مکہ، جدہ اور مدینہ میں موجود تماشعائری اسلامی کو شرک و بدعت کے نام پر منہدم کرنے کا کام شروع کردیا۔ اس نے سب سے پہلے ۸؍شوال ۱۳۴۴ ھ کو مدینہ کی سب سے مقدس اور پاکیزہ جگہ جسے جنت البقیع کہا جاتا ہے۔ اسے منہدم کردیا۔ مورخین کے مطابق یہ مدینہ منور میں واقع ایک ایسا قبرستان ہے۔ جس میں حضور اکرم کے دس ہزار سے زیادہ صحابہ کرم کی قبریں موجود ہیں، امہات المومنین، آنحضرت کے فرزند محمد بن ابراہیم ان کے چچا عبداللہ ابن عباس کی بھی قبر ہے، جن کی نقل کی ہوئی احادیث سے عالم اسلام کی کتابیں بھری پڑی ہیں۔ حضور اکرم کی پھوہھی صفیہ بنت عبدالمطلب، اور ان کی چچی فاطمہ بنت اسد کی بھی قبر ہے۔ جنھوں نے حضور اکرم کی پروش وپرداخت بچپن میں کی تھی، اور عالم اسلام کی مشہور شخصیت دائی حلیمہ بھی اسی قبرستان میں مدفون ہیں۔ اور رسول خدا کے مشہور صحابی جناب عثمان بن مذعون کی بھی قبر ہے اور ان کے ایک اور مشہور صحابی سعید بن خدری اور یہاں تک کے مسلمانوں کے عظیم محدث اور صحابی رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم جناب ہریرہ کی بھی قبر ہے، اس کے ساتھ رسول اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی چہیتی بیٹی جناب سیدہ صلواۃ اللہ علیھا کی قبر بھی وہیں پر واقع ہے۔ ان کے ساتھ خانواوہ اہلبیت کے محترم ہستی نواسہ رسول ص جناب امام حسن علیہ السلام اور امام جعفر صادق علیہ السلام کی بھی قبر مطہر بھی اسی جنت البقیع میں واقع ہے۔ جنت البقیع مدینہ کا ایک ایسا مشہور قبرستان تھاجب لوگ حج کے فرائض انجام دینے کے لئے وہاں تشریف لے جاتے تو حج سے فراغ ہونے کے بعد روضہ رسول خدا صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی زیارت کرنے کے بعد جنت البقیع میں زیارت کے لئے حاضری دیتے اور بڑے عزت احترام کے ساتھ وہاں پر فاتحہ خوانی کرتے اور وہاں پر مدفون شخصیات پر دردو سلام کا نذرانہ پیش فرماتے، اور اپنے لئے دعا اور توسل کے ساتھ ان معزز ہستیوں کے وسیلے سے اپنے لئے استغفار و مناجات بھی کرتے۔
۴۹۵ ھ یعنی پانچویں صدی ہجری کی آخری دہائی تک جنت البقیع میں مدفون اللہ کے برگزیدہ بندوں اور عالم اسلام کی عظیم ہستیوں کے مزارات پر گنبد اور مقبرے تعمیر تھے۔ لیکن جب حجاز کے شریف مکہ کو شکست ہوگئی تو عبداللہ ابن وہاب کے پیروکاروں نے ان مزارات کے گنبدوں کو بلڈوز کردیا۔ جب سعودیہ حکومت نے یہ عمل انجام دیا تو پورے عالم اسلام میں ایک بے چینی کی لہر دوڑ گئی اور لوگوں نے سعودیہ حکومت کے خلاف اپنا احتجاج درج کرایا۔ یہاں تک کہ ہندوستان کے کچھ اکابرین کے وفود خود آل سعود کے یہاں بھیجے گئے، جنھوں نے ہندوستان میں رہنے والے مسلمانوں کی دآلازی کے بات وہاں کی موجودہ حکومت کو گوش گزار کروای۔ کہ مکہ اور مدینہ میں موجود تمام اسلامی باقیات اور آثار کو یہاں کی حکومت تحفظ کرے، اس لئے کہ تمام عالم اسلام کے عقائد ان سے وابستہ ہیں لہذا اس طرح کے ارتکاب دنیا کے تمام مسلمانوں کے لئے مزیددلآزاری کا سبب بنیں گے۔ لیکن تخت و اقتدار اور حکومت کے نشہ میں چور اس حکومت نے کسی کی پروا کئے بغیر اپنے نظریات کے مطابق اس طرح کے اقدمات کرتی رہی۔
موجودہ عہد میں ایک بار پھر دنیا نے آپنی آنکھوں سے یہ دیکھ لیا کہ امریکہ، اسرائیل اور سعودیہ کے ٹکڑوں پر پلنے والی دہشت گرد تنظیموں وہی عمل انجام دے رہی ہیں جو آل سعود نے اپنی حکومت کے قیام کے بعد کیا تھا۔ سیریا اور عرا ق میں موجود عالم اسلام کی بزرگ شخصیتوں کے مقابر اور مزارات کو کس طرح سے داعش اور جبہۃ النصرہ جیسی تنظیموں نے شرک و بدعت کے نام ڈیمولیش کیا، کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ یہاں تک رسول خدا صلی اللہ والہ وسلم کے مشہور صحابی جناب حجر بن عدی کی قبر کو توڑ کر ان کی لاش کے ساتھ بے حرمتی کی، ایسا جرم کوئی قوم اپنے اکابرین اور بزرگ شخصیتوں کے ساتھ نہیں کرسکتی۔ یہاں تک کہ کچھ سلفی دہشت گردوں نے رسول خدا صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے نواسے حضرت امام حسین علیہ السلام کی قبر جو کربلا میں موجود ہے اسے توڑنے کی کوشش کی لیکن، انھیں بری طرح سے ذلت و شکست کا منھ دیکھنا پڑا۔ اس طرح کے غیر اسلامی کام صرف اور صرف امریکہ اور اسرائیل کی خوشنودی میں انجام دئے جارہے ہیں۔ یہ کون سے مسلمان ہیں اور ان کا کیسا اسلام ہے۔ جو اس طرح کے غیر اخلاقی اور غیر اسلامی فعل کو انجام دینے میں ایک لمحہ فروگزاشت نہیں کرتے۔ انھیں دنیاکے دیگر مذاہب سے سبق لینا چاہے کہ وہ اپنے عظیم لوگوں کی یادگار کا کس طرح تحفظ کرتی ہیں، صرف اس لئے کہ آنے والی نسلیں یہ دیکھ کر اپنی قوم پر فخر کرسکیں کہ ان کی قوم میں ان عظیم ہستیوں نے جنم لیا تھا جو آج ہمارے لئے فخر کا مقام ہے۔ اس لئے کہ اگر ساری قومیں اپنے بزرگوں کے آثار اور ان کے کارناموں کو فراموش کردیں گی تو ان کا نام تاریخ سے ہمیشہ کے لئے ختم ہوجائے گا۔ لہذا تمام مسلمانوں کے چاہئے کہ عالم اسلام میں گزرنے والی عظیم شخصیتوں کے آثار وباقیات کا تحفظ کریں، اور ان کے نشانات کو محفوظ کریں جنھیں استعماری طاقتیں مٹانے کی کوشش کر رہی ہیں۔ اگر مسلمانوں نے ایسا نہیں کیا تو آنے والی نسل اپنے ماضی کی ان عظیم باقیات و آثار سے محروم ہوجائیں گی۔