مرزا اسد اللہ خاں غالب ؔ کے شعر کا یہ مصرعہ بہت مفہوم خیز ہے، غالبؔ نے اپنے عہد میں مسلمانوں کی ذہنی پسماندگی اور اہل مغرب کی علمی و سائینسی ایجادات اور ان کی سیاسی دور اندیشی کے ساتھ ان کی معاشرتی تہذیب کا پھیلاؤ ایک رجحان کی شکل میں تما م شرق و غرب میں پھیلے ہوئے دیگر ادیان عالم کو صر ف متوجہ ہی نہیں کررکھا تھا بلکہ اسے رفتہ رفتہ اپنے حلقہ اثر میں لینا شروع کردیا تھا۔ دنیا کا ہر پڑھا لکھا شخص اہل مغرب کی تہذیب کو دنیا کی بہترین تہذیب تصور کرنے لگا( آج بھی روشن خیالی کا یہ چلن عام ہے)۔ لہذا غالب نے اپنے اس شعر میں اہل کلیسا کی انھیں ترقیات کے پیش نظر یہ شعر تخلیق کیا۔
اس بات سے انکار بھی نہیں کیا جاسکتا، مادی ترقیات میں اہل مغرب نے انتہائی ترقی حاصل کی۔ لیکن اپنی اسی ترقی کو اپنے جدید ترین وسائل کے ذریعہ اپنی تہذیب کو پوری دنیا پر مسلط کرنے کا کام بڑی تندہی سے شروع کردیا۔ آج اکیسویں صدی میں، پوری دنیا میں جو ہنگامہ آرائی، اور قتل و غارت گری کا بازار گرم ہے۔ اس کا اصل پیش خیمہ مختلف مذاہب و ادیان کی تہذیبی و معاشرتی نظریات کی یلغار ہے۔ جو ایک دوسرے سے متصادم ہیں۔ اسی تصادم کی آگ میں آج پوری دنیا جل رہی ہے۔ یہ تہذیبی تصادم تشددآج ایک بھیانک روپ اختیار کرچکا ہے۔ جسے مذہبی یا مسلکی نظریات سے جوڑ کر ایک دوسرے پر جبریہ ملسط کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ موجودہ عہد میں ہر ملک اسی بے چینی اور کیفیت سے دوچار نظر آرہا ہے، یہاں تک کہ جمہوری ممالک میں یہ ذہنی بیماری ایک وبائی شکل اختیار کرچکی ہے، ملک میں رہنے والے اقلیتی طبقوں پر بالا دستہ حاصل کرنے کے لئے اُن پر اپنے نظریات کو زبردستی تھوپنے کے لئے تشد د او ر زیادتی کے مختلف حربے استعمال کئے جارہے ہیں۔ جو صرف آئین کے ہی خلاف نہیں بلکہ انسانیت کے بھی خلاف ہے۔ پوری دنیا میں خود کو سب سے زیادہ مہذب اور تہذیب یافتہ سمجھنے والے جمہوری ممالک بھی خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ انسانیت کی اس تذلیل پر ان کی خاموشی اس آگ کو مزید ہوا دینے کا کام کررہی ہے۔
موجودہ عہد میںمشرق وسطیٰ اس کی ایک زندہ مثال ہے، جس سے دنیا کے تمام ممالک کو سبق لینے کی ضرورت ہے، اس لئے کہ کسی بھی مسئلہ کا حل جنگ نہیں ہوتا۔ لیکن دنیا کی بڑی تخریبی طاقتیں اس منصوبے کو تکمیل تک پہنچانے کے لئے زیادہ تر مسلم ممالک کو اپنا تختہ مشق بنا رکھا ہے۔ اپنے انھیں حواریوں کے ذریعہ دنیامیں نئے نئے انداز سے اپنے جرائم کی رونمائی کرتے ہیں۔ جس کے نتیجہ میں ساری دنیا میں مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی طاقت کو لگام کرنے کی ایک کوشش ہے، جس میں یہ طاقتیں کسی حد تک کامیاب نظر آرہی ہیں۔ مشرق وسطیٰ میں گزشتہ عشرے میں رونما ہونے والے سیاسی واقعات کے منطقی تجزیہ سے یہ بات سامنے نکل کر آتی ہیں۔
امریکی صدر ڈونالڈٹرمپ کا یروشلم سے متعلق دیا جانے والا بیان تخریبی سیاست کا ایک بہت بڑا حربہ تھا دنیا کے تمام مسلمانوں کے خلاف، یہ الگ بات ہے کہ لوگوں نے اکثریت کے ساتھ ڈونالڈ ٹرمپ کے اس غیر منظقی بیان کو مستردکردیا۔ لیکن اس بیان کا سیاق و سباق بڑ دلچسپ ہے۔ جب یہ معاملہ اقوام متحدہ میں پیش کیا گیا تو دنیا کے ۲۸، اٹھائیس ممالک نے ڈونالڈ ٹرمپ کے اس بیان کو یک نشست میں مسترد کردیا۔ ان اٹھائیس ممالک میں ہندوستان بھی شامل رہا۔ ۳۵ ممالک نے اس بیان کے خلاف کوئی فیصلہ نہیں لیا، اور ۹، ممالک نے ڈونالڈ ٹرمپ کے اس موقف کی تائید کی۔ لیکن سب سے مضحکہ خیز معاملہ یہ تھا کہ امریکی صدارت کی طرف سے دیئے جانے والے بیان کو مسترد کرنے والے ممالک کو یہ دھمکی دی تھی کہ اگر اس بیان کو جن ممالک نے مسترد کیا اس کی مالی امداد بند کردی جائے گی۔ اس بات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ امریکی صدارت مسلمان سے متعلق کتنی ہمدرد ہے۔ افسوس تو ان اسلامی ممالک پر ہے جو امریکہ کو اپنا سب سے بڑا ہمدرد تصور کرتے ہیں۔ جن کی وجہ سے آج پوردی دنیا میں مسلمان بدترین صورت حال کا شکار ہیں۔ ا س ناعاقبت اندیشی کا انجام بہت جلد اپنے منطقی انجام کی صورت میں ظہور پذیر ہونے والا ہے۔ فلسطین، یمن، بحرین، کی موجودہ صورت حال مذہب و مسلک سے کہیں زیادہ اہل مغرب کی تہذیبی نظریاتی پالیسی کا ایک اہم حصہ ہے۔ جسے مسلکی نظریات کا نام دے کر مسلمانوں کو باہم دست وگریباں کردیا گیا ہے۔ حالانکہ اس جنگ کے ظاہری منظر نامہ مسلمانوں کے ہاتھوں مسلمانوںکے قتل خون سے عبارت ہے۔ لیکن اس کا پس منظر اس کے منظر نامے کے بالکل برعکس ہے۔ اہل کلیسا کی اس تخریبی سیاست کو تمام مسلمانوں کو سمجھنے کی کوشش کرنی چاہئے، ورنہ وہ دن دور نہیں کہ قبلہ اول کو یہودیوں کی ملکیت کا قرارد دینے والے ممالک خانہ کعبہ کو بھی اپنا ہدف بنا سکتے ہیں۔ اس لئے کہ مسلمانوں کے عدم اتحاد اور ان کی پراگندہ ہوتی ہوئی طاقت کے خلاسے یہ دجالی طاقتیں ایک بار پھر اپنی بھر پور توانائی کے ساتھ مسلمانوں پر حملہ آوار ہوسکتی ہیں، اور شعائر اسلامی اور مسلمانوں کے مذہبی مقدسات کو اپنا نشانہ بنا سکتی ہیں۔ اس بار یہ فتنہ اتنی قوت کے ساتھ نمو پذیر ہوگا کہ جس کا سد باب مسلمانوں کے لئے بہت ہی مشکل ہوگا، جس میں صرف مسلمانوں کے جان و مال کا نقصان ہی نہیں بلکہ اسلامی میراث کا تحفظ بھی مسلمانوں کے لئے ایک بڑا مسئلہ بن سکتا ہے۔ لہذا یہ وقت اس بات کا متقاضی ہے کہ جو اسلامی ممالک جنگی یورشوں کے شکار ہیں، ان کے مسائل کا جلد از جلد تدارک کیا جائے۔ خاص کرریاض حکومت کو اپنی خارجہ پالیسی پر از سر نو غور کرنے کی سخت ضرورت ہے۔ امریکہ اور اسرائیل کی پشت پناہی سے دست برداری میں ہی عافیت کا امکان ہے، ریاض حکومت کو خاص کر یمن اور بحرین کے مسلمانوں پر مسلط کی جانے والی جنگ سے خود کو باز رکھنے کی ضرورت ہے، ورنہ یمن و بحرین میں مسلمانوں پر ہورہی ظلم و زیادتی اور مظلوموں کے آنکھوں سے بہنے والا آنسو رفتہ رفتہ ایک سیلاب کی صورت اختیار کرنے لگا ہے، جس کا بہاؤ ریاض حکومت کے تخت و تاج کو اپنے ساتھ بہا لے جائے گا، اور اس جنگ کے تماشائیوں کا بھی انجام بھی بڑا عبرتناک ثابت ہوگا۔
امریکہ و اسرائیل نے مشرق وسطیٰ میں جس جنگ کا آغاز کیا تھا اور جس کی زمین سازی کی تھی آج اس کی بساط اسلامی مزاحمی قوتوں نے کافی حدتک لپیٹ دی ہے، اور ان کے بنائے ہوئے تمام منصوبوں کوخاک میں ملا دیا ہے، جس کا اندازہ امریکہ و اسرائیل کی بوکھلاہٹ اور ان کی جھنجھلاہٹ سے صاف واضح ہوتا ہے، کہ انھیں اس محاذ پر بری طرح شکست سے دوچار ہونا پڑا ہے، جس کی رہی سہی کسر یمن، فلسطین اور بحرین پر مسلط کی جانے والی جنگ کے آنے والے نتیجے سے بہت جلد ساری دنیا کے سامنے کھل کر آجائے گا۔ اس لیے کہ اللہ کا وعدہ ہے، کہ ’’عنقریب ظالموں کو زیر و زبر کردیا جائے گا۔ فہم و فراست رکھنے والے افراد اس تہذیبی نظریات کی جنگ کو مذہبی ومسلکی رنگ دینے والوں کو اچھی طرح سے پہچان چکے ہیں۔ اور ان نام نہاد اسلامی ممالک کو بھی دیکھ رہے ہیں جو ان دجالی طاقتوں کے چشم و ابرو کے اشارے پر رقص کر رہے ہیں، اور ان کی طرف سے صاد ر کئے جانے والے فرمان پر سراپا تسلیم نظر آتے ہیں، یہ ان کے لئے ایک تباہی کا مآل کار کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔ لہذا اس حساس مسئلہ پر کوئی اقدام کرنے سے پہلے موجودہ صورت حال کا باریک بینی سے جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ جس کی طرف غالب جیسے عظیم شاعر نے اشارہ کیا تھا۔
ایماں مجھے روکے ہے تو کھینچے ہے مجھے کفر