1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. شاہد کمال/
  4. میر انیس کا نعتیہ کلام

میر انیس کا نعتیہ کلام

زبان انسانی سماجیات کے قوت اظہار کا سب سے طاقتور وسیلہ ہے۔ اس کے بغیر اس کائنات کے نظام کی تقویم، اس کے مرموزات کی تفہیم و تعبیر اور اس کے ادراکات و انکشافات انسان کے لئے ایک ناگزیر عمل ہے۔ سماج کے اجتماعی شعور کے لائحہ عمل کی تدوین و ترتیب زبان کے ذریعہ ہی عمل پذیر ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کی کوئی بھی زبان ہو، زمانے کے تغیرات کے ساتھ اس کےساختیاتی زاویہ میں بھی تدریجی طور سے تبدیلی کا عمل واقع ہوتارہتا ہے۔ لیکن زبان کے اساسی اندام سرنوشت میں کسی طرح کا تغیر نہیں ہوتا۔ ، لیکن ایک بات واضح ہے کہ، بدلتے ہوئے زمانے کے ساتھ بہت سی اصطلاحات و محاورات کا جنم ہوتا رہتا ہے اور لفظیں بھی اپنے نئے نئے معنی استوار کرتی رہتی ہیں۔ اس لئے سائنس اور ٹکنالوجی کےاس دور میں بھی زبان اپنے عصری تقاضوں کے ساتھ پیش رفت کرتی رہتی ہے، اور بہت سی سائنسی و ٹکنالوجی اصطلاحات کو خود کے لئے وضع بھی کرتی رہتی ہے۔ یہی اس کی کامیابی کی دلیل ہے، اور جو زبان اپنے بدلتے ہوئے زمانے کے ساتھ اپنے اندر بدلاؤ کی صلاحیت نہیں رکھتی، اس زبان کا مستقبل ہمیشہ معرض خطر میں رہتا ہے۔ اس کرہ ارض پر بہت سی زبانوں نے جنم لیا لیکن وہ آج اپنے پورے وجود کے ساتھ تاریخی باقیات کا ایک حصہ بن کر رہ گئیں۔ اس کی خاص وجہ یہی تھی کہ اس زبان میں زمانے کے ساتھ قدم سے قدم ملاکر چلنے کی صلاحیت نہیں تھی۔

لیکن ہمارے اردو زبان و ادب کا معاملہ اس سے قدر مختلف ہے۔ چونکہ اردو زبان ایک وسعت پذیر زبان ہے اور اس زبان میں عہد بہ عہد اپنے اندر جذب و قبول کی کیفیت پائی جاتی رہی ہے، اوراس جدید سائنس اور ٹکنالوجی کے زمانے میں بھی اپنی جدید سے جدیدتر اصطلاحات، تراکیب اور نئی نئی لفظیات کے ساتھ اس زمانے کی برق روی کے ساتھ شانہ باشانہ دکھائی دے رہی ہے۔ اس کی یہی خوبی اس زبان کے مستقل مزاج اور خوش آیند مستقبل کی بشارت ہے۔ اردو زبان کا ادبی کینویس بہت وسیع ہے۔ جس میں ہرطرح کے رنگ کی آمیزش پائی جاتی ہے، اور یہ زبان بلا تفریق ہر مسلک و مذہب اور قوم و ملت کی نمائندگی بڑی خوش اسلوبی کے ساتھ کرتی رہی ہے۔ اسکے ادبی اثاثہ میں ہر طرح کے جواہر پارے موجود ہیں۔ جس کی افادیت اور معنویت میں آفاقی عناصر پائے جاتے ہیں۔ اس زبان کے اجتماعی ادبی ذخائر میں منجملہ اصناف سخن کی اپنی اپنی ایک الگ شناخت ہے۔ جس کے ذریعہ وہ اپنے اساسی موضوعات کی نمائندگی کرتی ہے۔ اردوزبان میں جہاں دیگر اصناف سخن اپنی منفرد پہچان رکھتی ہیں اس میں رثائی ادب کی ایک اہم صنف سخن مرثیہ بھی ہے۔ مرثیہ اپنی مقبولیت اور اپنی معنوی تعلیقات اور زرخیزیت کی بنیاد پر کسی طرح کے تعارف کی محتاج نہیں ہے۔ مرثیہ اردو ادب کی ایک ایسی صنف سخن ہے، جس میں اردو ادب کی بیشتر اصناف کا عکس دکھائی دیتا ہے۔ چونکہ میرا موضوع محض مرثیہ نہیں ہے، اس لئے میں اس موضوع پر مزید تفصیلی گفتگو کرنے سے انصراف کرتا ہوں۔ مجھے محض میر انیس کے مرثیہ میں پائے جانے والے نعتیہ عناصر پر گفتگو کرنا مقصود ہے۔ وہ ابھی ایک اختصاص کے ساتھ۔

لہذا میر انیس کے کلام میں پائے جانے والے نعتیہ کلام پر کچھ ضبط تحریر کرنے سے پہلے ضروری سمجھتاہوں کہ میں اپنے قارئین کی خدمت میں یہ بات عرض کرتا چلوں کہ اصل میں نعت کے مبادیات کو سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ سب سے پہلے ہم اردو کے معروض وجود میں آنے کے اسباب و علل پر بھی تھوڑا توجہ دیں۔ ایسا کرنے سے ہمیں اردو ادب میں ’’نعت‘‘جیسی مقدس صنف سخن کو سمجھنے میں آسانی ہوگی۔ ہندوستان ابتدا سے ہی کثیر اللسانی ملک رہا ہے۔ جس میں سیکڑوں طرح کی رنگا رنگ کی زبانیں مروج عام تھیں۔ ہندوستان پر آرین کے تسلط سے قبل یہاں پر مختلف زبانیں بولیں جاتی تھیں۔ جیسے ’’تامل‘‘’’اوڑیا‘‘تلگو‘‘وغیرہ لیکن ہندوستان پر آریائی قبیلوں کے تسلط سے یہاں پر ’’سنسکرت‘‘ جیسی زبان کو فروغ ہوا، لیکن سنسکرت خواص کی زبان تھی لہذا مختلف زبانوں کے اختلاط سے ایک جدید زبان نے جنم لیا جو ’’پراکرت‘‘زبان کے نام سے متعارف ہوئی۔

چھٹی صدی عیسوی تک ’’پراکرت‘‘ زبان بھی علاقائی زبانوں سے مختلم ہوئی اور ان میں سے پانچ بڑی علاقی زبانیں پیدا ہوئیں۔ ’’سورسینی‘‘’’مگدھی‘‘’’پالی‘‘’’جینی ‘‘’’مہارشٹری‘‘ان زبانوں نے اپنی نشوو نما کا تعین کیا۔ لیکن ان زبانوں میں سب سے زیادہ بولی جانی والی زبان ’’سورسینی‘‘اور برج بھاشا ‘‘ تھی چونکہ اس کے فروغ اور نشوونما کا جغرافیائی علاقہ سندھ سے بہار، لاہور سے مالوہ تک پھیلا ہوا تھا اور ادھر بنگال سے پنجاب، سندھ، کشمیر گجرات، راجپوتانہ اور شمالی ہندو نیپال سے لے کر مہارشٹرتک اس زبان کا دائرہ استوار ہو چکا تھا۔ اس کا تفصیلی تذکرہ نیچے دیے گئے حوالے سے دریافت کیا جاسکتا ہے۔ (دی ہسٹری اینڈ کلچرآف دی انڈین پیپل، جلد5؍صفحہ 351)

مذکورہ زبانیں 700؍ سے 1000 عیسوی تک یہ زبان عوام کے معاشرتی و سیاسی مذہبی و ملی اساطیری و نیم اساطیری اور روزمرہ کی ترجمانی کرتی رہی۔ انھیں زبانوں کے باہمی اختلاط سے شورسینی روپ سے ’’اپ بھرنش ‘‘بھاشا کی تقدیم ہوئی اور یہی ’’اپ بھرنش‘‘ بھاشا آرائی زبان کی حیثیت سے بین الاقوامی زبان کی حیثیت سے عوام کی ترجمان بنی۔ اور انھیں دوزبانوں کے درمیان سے ایک جدید زبان نے اپنے نین و نقش سنوارے اور اپنی ہیت کی قبائیں تراشیں اور ایک نئی شکل وصورت کے ساتھ ظہور پذیر ہوئی جسے آج اردو زبان کہاجاتا ہے۔ جس کا تفصیلی تذکرہ ایک جینی بزرگ عالم’’ جین ہیم چندر‘‘ جی نے اپنی کتاب’’سدہ بیم چندر شیدانوشاسن‘‘ میں تفصیل کے ساتھ کیا ہے۔

ہندوستان میں اسلام کی آمد سے قبل اردو زبان اپنے تدریجی مراحل سے گزررہی تھی لیکن جب ہندوستان میں اسلام کا سورج باضابط طلوع ہوا تو اس کے ساتھ ساتھ اردو زبان میں بھی ایک انقلابی تبدیلی اندرونی طور سے رونما ہوئی اور اِس زبان نے اپنے پاؤں پسارنے شروع کردیےاس کے فروغ میں صوفیائے کرام کا اہم تعاون رہا ہے۔ جیسا کی ملک محمد جائسی نے اپنی تصنیف ’’اکھروتی‘‘ میں کیا ہے۔ وہ اقتباس ملاحظ کریں۔

’’وقولہم نکند کہ اولیا اللہ بغیر از زبان عربی تکلم نہ کردہ، زیرا کہ جملہ اولیااللہ در ملک عرب مخصوص نہ بودہ بس بہر ملک کہ کہ بودہ زباں آں ملک رابکار بردہ اند، وگمان نکند کہ ہیچ اولیا اللہ۔ ۔ ۔ بزبان ہندی تکلم نہ کردہ زیراکہ اول از جمیع اولیا اللہ قطب الاقطاب خواجہ بزرگ معین الحق و الملۃ والدین قدس اللہہہ سرہٗ (حضرت خواجہ گنج شکر) درزبان ہندی و پنجابی مصطفیٰ از اشعار نظم فرمودہ چنانکہ در مردم مشہور اند۔ اشعار از دوہرہ و سورہ امثال آں نظم نمودہ ہمچنان ہر یکے از اولیا بدیں لسان تکلم می فرمودند تاکہ عہدخلافت ایشاں محقق مدقق رسید و ولے دریں زباں بسپارے از مصنفات از رسائل و مطولات تصنیف فرمودہ یکے از مصنفات دے اکھروتی است‘‘

(اردو کی ابتدائی نشو نما میں صوفیائے کرم کا کام‘‘

اردو زبان کی ترویج میں صوفیا کا ایک اہم کارنامہ رہا ہے۔ جن کی خدمات سے صرف نظر نہیں کیا جاسکتا۔ اس لئے کے تصوف و طریقت کے تمام سلاسل اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے متعلق سیرت کے مکمل ماخذ چاہئے وہ منثور ہو یا منظوم اس کا زیادہ تر حصہ عربی و فارسی زبان میں ہی دستیاب تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری نعتیاتی موضوعات کا ارتباط و انسلاک اور اس کا سارا خام مواد انھیں دوزبانوں میں وافر مقدار میںموجود تھا۔ اس لئے جب ہم نعت کی بات کرتے ہیں تو نعت کی تمام تر موضوعاتی ہیتی تمثیلات عربی اور فارسی زبان سے ہی معکوس نظرآتی ہیں۔ ہندوستان جیسے زرخیز ملک میں ہمارے جو صوفیا کرام گزرے ہیں وہ اردو، فارسی اور عربی زبان میں مہارت رکھتے تھے۔ لیکن عوام تک اپنے خیالات کی رسائی کے لئے انھوں نے عوام کی ہی زبان کا استعمال کیا، سید میران جی شمس العشاق نے عربی اور فارسی زبان سے ہٹ کر دکنی اردو میں نعت کہنے کاایک کامیاب تجربہ کیا۔ ان کی مشہور کتاب ’’شہادت التحقیق‘‘ میں موجود ان کے نعتیہ اشعار سے اس بات اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔ لیکن میں یہاں پر ان کی نعت کے اشعار کی جگہ ان کی زبان کی ساخت کی مثال کے لئے کچھ اشعار پیش کر رہا ہوں۔

ہیں عربی بول کیسرے

اور فارسے بھوتیرے

یہ ہندی بولوں سب

اس ارتوں کے سبب

یہ بھاکا بھلسو بولی

پن اس کا بھاوت کھولی

یوں گر مکہ پند پایا

تو ایسے بول چلایا

وے عربی بول نہ جانے

نہ فارسی پچھانے

یہ ان کو بجپت ہیت

پن معنی میں پنتھول

یا

جسے مغز میٹھا لاگے

تو کیوں من اس تھی بھاگے

پتول اس میں ارت پنچ

سب قرآن کرے بیچ

وہ مغز معنی لیو

سب چھال چھوڑ دیو

یا وہ دیکھے چھارا

اس ماٹی کا پسارا

ناماٹی اس کو ہان

وہ راکھے سمیٹ آن

یہ چھان سونا لیوے

اور بعضے ناکے دیوے

پتوں بھاکا ماٹی جانوں

زر معنی دل میں آنوں

تو جس کو بھاوے جوڑ

ناجسی یہ گن چھوڑ

ہے کڑواں کیر اہیرا

گھوڑا اوپر پڑیا سہیرا

کوئی سبحان بھاگو ں پاوے

تو کیوں نالیہ اچاوے

گھر بھاکا چھوڑ دیجئے

چن چن معنی لیجئے

اردو زبان کی سب سے پہلی منظوم کتاب ’’ملا داود‘‘ کی مثنوی ’’چندائن‘‘ ہے، جس کی ادبی و لسانی حیثیت کا اعتراف کیا گیا ہے، ’’ملا داود‘‘ شمالی ہند کے ایک معروف قرعہ ’’ڈلمئو‘‘ کے رہنے والے تھے۔ جو موجودہ وقت میں رائے بریلی میں واقع ہے۔ یہ کتاب اودھی زبان میں لکھی گئی ہے۔ چونکہ لکھنو اور اسے کے اطراف واکناف میں واقع تمام علاقوں کی زبان قدر اختلاف کے ساتھ اردو ہی کہی جاتی ہے۔ ’’ملاداود‘‘ کی مثنوی’’ چندائین‘‘ فخرالدین نظامی کی مشہور مثنوی’’کدم راواور پدم راو ‘‘ کی ہی لسانی طرز پر لکھی گئی ہے۔ جس کی لسانیاتی اساس عربی اور فارسی زبان کے بجائے سنسکرت اور ’’پراکرت‘‘ اور دیگر علاقائ زبانوں کی آمیزش سے تیار کی گئی ہے۔ اس میں اسی زبان کا استعمال کیا گیا ہے۔ جس زبان میں ملک محمد جائسی نے ’’پدماوت‘‘ لکھی ہے اور اس کے حوالے سے مولوی کریم الدین نے اپنی مشہور کتاب’’طبقات الشعرا ‘‘میں پدماوت کی لسانی بنیاد کو اردو زبان ہی قرار دیا ہے۔

ملا داود کی مثنوی ’’چندائن ‘‘ میں اردو نعت گوئی کے اولین نقش پائے جاتے ہیں۔ مثال کے لئے اس مذکورہ مثنوی کے چند اشعار یہاں پر ضرور نقل کرنا چاہتا ہوں، تاکہ اردو نعت کی ابتدائی ہیت و مضامین اور اس کے معنوی ترفع کا درست اندازہ لگا یا جاسکے۔ بطور امثال اشعار حاضر خدمت ہیں۔

پرشو اک سِرجَس اجیارا

ناؤں محمد جگت پیارا

جہہ لگ سمے پر تھمی میری

ادتہ ناؤں منادی پھیری

جہہ جہوا وہوناؤں نہ لیجا

درسرکاٹ اگن مکھ دیجا

دوسر ٹھاؤں ولی یوں کنیھا

وچن سنائی پنتھ کے دنیا

پاپ پن کی تریکالی یوں برے تمہار

ولی لکھا سب ماگھوں دہر کے ہم بھار

(ملا داود، چندائن صفحہ؍5۔ 6؍بند نمبر 6)

دکن میں بھی اردو کے ابتدائی عہد میں جو شعرا گزرے ہیں ان کے یہاں بھی کثرت کے ساتھ نعتیہ اشعار کے نقوش پائے جاتے ہیں۔ دکن کے پہلے شاعر خواجہ بندہ نواز گیسودراز کے شعری سرمایہ میں نعتیہ کلام موجود ہیں مثال کے لئے ان کے چند اشعار یہاں پر نقل کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔

اے محمد ہجلو جم جم جلوہ تیرا

ذات تجلی ہویگی سین سیورنہ سیرا

واحد اپنی آپ تھا اپیں آپ نجھایا

برکہ جلوے کا رخ الف میم ہو آیا

عشقوں جلوہ دینے کو کاف نون بسایا پر کٹھ

اردو زبان و ادب کے ابتدائی عہد میں پائی جانے والی دیگر اصناف سخن کے مقابل مثنویوں میں سب سے زیادہ نعتیہ اشعار پائے جاتے ہیں، اردوادب کی مشہور ترین مثنویوں میں نعتیہ اشعار کے آثار آج بھی موجود ہیں۔ ۹۰۹ ہجری میں شاہ اشرف بیابانی کی مشہور مثنوی ’’نوسرہار‘‘ میں اکیس ابیات پر مشتمل نعتیہ کلام موجود ہے۔ جس کا انداز سخن بہت ہی نرالہ ہے، جس کو پڑھنے کے بعد ایک عجیب جذب وکیف کی وجدنی حالت روح پر طاری ہونے لگتی ہے۔ شاہ اشرف بیابانی کی ایک اور مشہور تصنیف ’’۔ ۔ ۔ لازم المبتدی ‘‘ بھی ہے جس میں نعتیہ اشعار کثرت سے موجود ہیں، اور شاہ اشرف بیابانی نے اپنے روزمرہ کے اعتبار سے اشعار تخلیق کیے ہیں، اور خاص کر جہاں پر نعتیہ اشعار ہیں اس میں یہ اہتما م کیا ہے کہ انھوں نے قرآن شریف کی آیات، احادیث، روایات اور سیرت حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو بڑے ہنر مندی کے ساتھ نظم کیا ہے۔ شاہ اشرف بیابانی کے ایک معاصر شاعر جو غیر معروف ہیں ان کا نام کتابوں میں ’’خوب محمد چشتی گجراتی ‘‘ بتایا گیا ہے، ان کا ایک اور کارنامہ ہے کہ انھوں نے ۶۸۹ ہجری میں شیخ کمال محمد کے اقوال ’’معارف محمدیہ ‘‘ کو منظوم کیا ہے اور اس کا نام انھوں نے’’ خوب ترنگ ‘‘ رکھا اس مثنوی میں بھی نعتیہ اشعار کثرت سے پائے جاتے ہیں۔ ان کی زبان میں کافی سلاست پائی جاتی ہے، جو ’’از دل خیزد بر دل ریزد ‘‘کی بہترین مثال ہیں۔ یہاں ان کے چند نعتیہ اشعار ضرور نقل کئے جارہے ہیں۔

جوسا آرسی وحدت جان

جسم محمد سے پہچان

ایک عکس اوس ماں جو ہوئے

قطب محمد کا ہے سوئے

ایک عکس پھر ایک عکس جو پائے

یہی ابوالارواح کہلائے

لیکن نعتیہ شاعری کے حوالے سے گیارہویں صدی عیسوی کو نعت گوئی کا زرین عہد کہا جاسکتا ہے۔ ۱۰۰۱ سے ۱۱۰۰ ہجری میں اردو زبان و ادب کے بڑے نامور شعرا پیدا ہوے جنھوں نے اردوشعریات کے لئے ایک اہم کارنامہ انجام دیا۔ جس سے قطعی طور پر صرف نظر نہیں کیا جاسکتا۔ چو نکہ وہ عہد بابائے شاعری محمد قلی قطب شاہ کا تھا اور ان کے معاصرین شعرا میں مولانا وجہی، غواصی وغیر قابل ذکر ہیں۔ اردو ادب میں ملا وجہی کی مشہور مثنوی ’’قطب مشتری‘‘ آج بھی خاصی شہرت رکھتی ہے۔ اس پوری مثنوی میں ساٹھ (۶۰) ابیات پر مشتمل نعتیہ کلام کا ایک نذرانہ موجود ہے۔ جس میں چھبیس(۲۶) ابیات نعت کے مروجہ مضامین کے متعلق ہیں اور چوبیس(۲۴) ابیات نعت کے خاص مضمون ’’معراج النبی ‘‘ سے تعلق رکھتے ہیں۔ جسے بڑی فنی مہارتوں اور زبان کی شائستگی اور سلاست کا خیال رکھتے ہوئے نظم کیا گیا ہے۔ میں یہاں پر اس مثنوی کے صرف دو شعر پیش کرتا ہوں۔

محمد نبی ناؤں تیرا ہے

عرش کے اوپر ناؤں تیرا ہے

کہ چودہ فلک کاتوں سلطان ہے

علی ؑ سا تیرے گھر میں پردھان ہے

ملا وجہی حضور کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے انتہائی عقیدت ومودت رکھتے تھے۔ جس کا احساس ان کے اشعار کی روحانی و معنوی کیفیت انگیز حالت سے کیا جاسکتا ہے، اردو ادب میں یہ ایک ایسا شاعر ہے جو نعت گو شاعر کی حیثیت سےاپنی مثال آپ ہے انھوں نے خاص کر غزل میں نعت گوئی کو فروغ دیا۔ ان کی غزلیہ نعتیں بھی خوب ہیں اورانھوں نے بہتر سے بہتر لکھنے کی کوشش بھی کی ہے اور اس میں کافی حد تک کامیاب بھی ہوئے ہیں۔

اردوادب کا سب پہلا صاحب دیوان شاعر جسے لوگ قلی قطب شاہ کہتے ہیںانھوں نے دیگر اصناف سخن میں طبع آزامائی کرنے کے ساتھ ساتھ نعتیہ کلام پر بھی کافی توجہ دی ہے۔ لہذا نعت گوئی کے حوالے سے بھی انہیں انفرادیت حاصل ہے۔ ان کے دیوان میں پانچ نعتیہ غزلیں بھی موجود ہیں۔ ان کی غزلیہ نعت کے دو شعر حاضر ہیں۔

دیا بندے کو حق نبی کا خطاب

حکم دے دیا فورجوں آفتاب

چاند سورج روشنی پایا تمارے نورتھے

آب کوثر کو شرف ٹھنڈکے پانی پور تھے

اردو شاعری میں نعت گوئی کا رجحان ابتدائے عہد سے ہی تھا، جس کے نقوش آج بھی تاریخ میں موجود ہیں۔ اس لحاظ سے اردو شاعری میں نعت گوئی کا سلسلہ کوئی نیا نہیں ہے۔ جیسے جیسے یہ زبان اپنے ارتقا ئی مراحل طے کرتی گئی اسی تدریج و تواتر کے ساتھ اس زبان میں نعت گوئی کا رجحان بھی عام ہوتا گیا، اردو کے ابتدائی زمانےسے موجودہ دور تک یہ سلسلہ باضابطہ اپنی پوری جلالت و تمکنت کے ساتھ جاری و ساری ہے۔ لیکن نعت گوئی کے میدان میں معدود چند شعرا ہیں جنھیں دیگر اصناف سخن کے ساتھ نعت گوئی میں بھی کافی مقبولیت اور شہرت ملی۔ جس میں ایک بڑا معتبر و مستند نام میر ببر علی انیس کا بھی ہے۔ حالانکہ کی میر انیس کی شہرت و مقبولیت مرثیہ گو شاعر کی حیثیت سے ہوئی۔ اس کے باوجود انھوں اپنے مرثیوں میں کثرت کے ساتھ نعتیہ کلام کہیں ہیں۔ جسے معرض بحث لایا جانا چاہئے۔ اس لئے کہ ان کے نعتیہ کلام کا انداز بہت ہی منفرد ہے، میر انیس نے مرثیہ کہنے کے لئے ایک خاص ہیت کا استعمال کیا جس کی ایجاد میر ضمیر اور سودا وغیرہ نے کی تھی جسے مسدس کہتے ہیں۔ میر انیس نے مرثیہ کی اسی ہیت میں کچھ نعتیں بھی لکھیں جس کا تذکرہ آگے چل کر کیا جائے گا۔ لیکن ان کے نعتیہ کلام پر روشنی ڈالنے سے پہلے میں چاہتا ہوں کہ نعت کے اس موضوع پر ایک سرسری گفتگو کروں جسے میر انیس نے اپنا موضوع سخن قرار دیا ہے۔ میر انیس کے نعتیہ کلام میں و تمام تر خوبیاں پائی جاتی ہیںجو نعت کے لئے اہم تسلیم کی جاتی ہیں۔ انھوں نے اپنے نعتیہ کلام میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی زندگی کے کسی پہلو کو تشنہ مفہوم نہیں رکھا۔ میر انیس نے حضور اکرم کے جملہ ظاہری و باطنی محاسن کو بڑے عارفانہ انداز میں نظم فرمایا ہے۔ جسے پڑھنے کے بعد جناب رسول خدا صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے ان کی روحانی قربت اور ان کی عرفانیاتی پہلو کے بلند مدارج کا بھر پور احساس ہوتا ہے۔ میں یہاں پر میر انیس کے ادبی کوائف اور ان کی زندگی کے مختلف پہلوں پر گفتگو کرنے سے شعوری طور پر انحراف کررہا ہوں۔ چونکہ مضمون کی طوالت اس بات کی متقاضی نہیں ہے۔ لہذامیں ان کے دو نعتیہ کلام کا ایک اجمالی تعارف پیش کرونگا جو مسدس کی ہیت میں ضبط تحریر کئے گئے ہیں۔ اس نعتیہ کلا م کے ابتدائی تین بند ملاحظہ فرمائیں

فخر ملک و اشرف آدم ہے محمد

اکلیل سر عرش معظم ہے محمد

حقا کہ خدا وند دو عالم ہے محمد

آخر ہے مگر سب سے مقدم ہے محمد

ایسا کوئی محرم نہیں اسرار احد کا

حال اس سے ہے پوشیدہ ازل کا نہ ابد کا

مختار زمیں باعث افلاک نبی ہے

والا گُہر قلزم لولاک نبی ہے

مصباح حریم حرم پاک نبی ہے

شیرازہ مجموعہ ادراک نبی ہے

عالم میں وہ آیا تھا پہ دل سوئے خدا تھا

حق اس کا رضاجُو وہ رضاجُوئے خدا تھا

آدم ہے وجودِ شہ لولاک سے آدم

عالم سب اسی شاہ کی ہستی سے ہے عالم

سررشتہ مہر اس کا اگر ہوتا نہ محکم

تو ہوتے نہ اضداد عناصر کبھی باہم

کیا کیا کہوں کیا کیا ہے عنایات محمدؐ

ہے باعث ایجاد جہاں ذات محمدؐ

یہ نعتیہ کلام ’’جواہر انیس‘‘ کے نام سے ترتیب دیا گیا ہے جس میں کل بارہ (12) بند ہیں۔ جس کی تدوین (صادق علی دلاوری ) نے فرمائی ہے۔

اس نعتیہ کلام کا مطلع اور اس سے مربوط دونوں بند میں رسول خدا صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے اعلی و ارفع و بلند مدراج کا تذکرہ کیا گیا ہے، اور اس کاروان کائنات کے رنگ و بو کا سرخیل حضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کوہی قرار دیا ہے، جو عین قرآنی نصائص کے مطابق ہے۔ ، وہ تمام مخلوقات خدا میں سب سے افضل و بالاتر ہیں اوریہی علت تکوین کے منبع و مخرج ہیں۔ ان کے وجود کے بغیر کسی چیز کا وجود اور تصور لایعنی ہے۔ اور خدائے قادر مطلق نے انھیں ارض و سماوات کے تمام تر سربستہ مرموزات اور شہود غیاب کے تمام تر حجابات ان کی ذات پر منکشف کردیے ہیں۔ یہی وہ ذات ہے جو آدم و عالم کی تخلیق پر مقدم ہے، یہی بساط کائنات کے ادراک و آگہی کا نکتہ ارتکاز ہیں۔ جس کی جنبش لب کے مضراب تبسم سے آبگینہ ہستی کی آب و تاب کی جولانی اس کائنات کے پیچ و خم کو استوار کرتی ہوئی نظر آرہی ہے۔ جن کے لب و لعلیںسے مس ہونے والے احراف و الفاظ وحی الہی کا درجہ رکھتےہیں۔ جب یہ کلام کرتے ہیں تو قرآن جیسی مقدس کتاب کا نزول ہوتا۔

اس مذکورہ نعتیہ مسدس کے آخری دو بند ملاحظہ فرمائیں۔

جو تیرا محب ہے ہمیں اُس سے ہے محبت

جو تیرا عدو ہے، ہمیں اُس سے ہے عداوت

دی ہم نے تجھے سارے رسولوں سے فضیلت

ہر ایک کی امت ہے بہتر تری امت

نائب کسی مرسل کا نہیںتیرے وصی کا

بیٹی تجھے دی فاطمہؐ سی خویش علیؑ سا

سبطین وہ بخشے تجھے جو ہم کو ہیں پیارے

ہم ان کے رضا جُو وہ رضا جُو ہیں ہمارے

ہیں عرش معلیٰ کے وہ تابندہ ستارے

بخشائیں گے امت کے تری جرم یہ سارے

جو مرتبے تیرے ہیں وہ اوروں کے کہاں ہیں

تو ختم رسل ہے وہ شفیع دو جہاں ہیں

اس نعتیہ مسدس کا اختتام میر انیس نے دعائیہ بند پر کیا ہے، اور اس میں خاص کر رسول خدا صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی امت کو امت خیر سے متصف کیا ہے اور حضور اکرم سے یہ التجاگزاری کی ہے، کہ ہم آپ کی امت میں سے ہیں لیکن ہمارے اعمال ایسے نہیں کہ ہم روز حشر کسی توقع کی امید رکھیں سوائے اس کی کہ آپ ہماری بخشش کے لئے واحد ذریعہ ہیں۔

میر انیس کے دوسرے نعتیہ مسدس کی ابیات انتہائی عارفانہ معنی سے عبارت ہیں۔ اس نعتیہ مسد س میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ولادت اور ان کی معراج کا تفصیل کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے۔ اس مسدس کا مطلع اور ایک بند ملاحظہ کریں۔

واللہ عجب شان شہنشاہ رسل ہے

اس گلشن ایجاد کا پہلا وہی گُل ہے

اس شاہ کے اوصاف کا کونین میں غل ہے

سب جزو کُل اجزائے ہیں اسی کا وہی کل ہے

ہر چند کہ ہے وہ خلف آدم و حوا

پر حق نے کیا ہے شرف آدم و حوا

اس شاہ سے کونین میں بہتر نہیں کوئی

بہتر کا تو کیا ذکر ہے ہمسر نہیں کوئی

حق یہ ہے کہ ایسا تو پیمبر نہیں کوئی

جرارو بہادر نہیں صفدر نہیں کوئی

ادنیٰ سا یہ رتبہ ہے جسے ذکر کیا ہے

بوذر کو شرف اس کی غلامی سے ملا ہے

اس نعتیہ مسدس میں کل چوتیس (34) بند ہیں۔ جس کی ترتیب و تدوین کا، کام محترمہ تلمیذ فاطمہ برنی پاکستان (کراچی) نے فرمائی ہے۔ میں اس نعتیہ مسدس کے بیشتر بند سے قطع نظر کرتے ہوئے محض اس کے ملطع کا تجزیہ کرنا چاہتا ہوں۔ تاکہ قارئین اس مدس کے تمام معنوی تلازمات کا اندازہ اس کے مطلع کے بند سے ہی لگا لیں کہ اس کا معنوی بین السطور کتنی تہہ داری رکھتا ہے۔

اس نعتیہ مسدس کے مطلع کا پہلا مصرعہ ملاحظہ کریں۔

’’واللہ عجب شان شہنشاہ رسل ہے‘‘

اس مرثیہ کے مطلع کا پہلا مصرعہ کا آہنگ بہت پُر زور ہے۔ جس کی قرآت میں ایک عجیب کیفیت کا احساس ہوتا ہے، اور اس مطلع کے ہر مصرعہ میں استعاراتی تلمیحات کا بھر پور استعمال ہواہے۔ مثلا اس بند کے پہلے مصرعہ میں رسول خدا کی شان جلالت اور عظمت و رفعت کا ذکر ہے۔ ایک انفرادی خوبی کے ساتھ کہ میر انیس لفظ’’واللہ‘‘ کے تاکیدی استعمال سے اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ حضور کی فضیلت ان کی اکتسابی فیض سے کہیں زیادہ اللہ تعالی کےفیضان خاص کی وجہ سے ہے، اور لفظ’’ واللہ‘‘ شرعی اعتبار سے ایک ایسی قسم ہے، جس کا استعمال کوئی شخص اگر جھوٹ کے لئے کرے، تو اس پر کفارہ واجب ہوجاتا ہے۔ لہذا میر انیس نے ’’ واللہ ‘‘ کے استعمال سے ہر طرح کے تردد واشکال کی امکانی گنجائش کا پہلے ہی سد باب کردیا ہے۔ تاکہ اس کے معنوی ادراک میں کسی طرح کی قباحت کا امکان باقی نہ رہے۔ اور اس سے یہ بات بھی اپنے قارئین پر واضح کردی کہ اللہ کے اس حبیب کا مرتبہ تمام رسولان ماسلف سے زیادہ ہے، چونکہ یہ سید الاوصیا اور تمام نبیوں کے سردار بھی ہیں۔

اس مطلع کا دوسرا مصرعہ

’’اس گلشن ایجاد کا پہلا وہی گُل ہے "

اس مصرعہ کے لفظی تلازمات اور اس کے معنوی ترفع پر غور فرمائیں۔ کہ میر انیس نے کتنی خوبصورتی کے ساتھ اس رمز کو واشگاف کرنے کی کوشش کی ہے۔ کہ پروردگار عالم نے اس کائنات رنگ و بو کی تخلیق صرف اور صرف محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی محبت کی بنیاد پر کی ہے۔ جس کا تذکرہ حدیث قدسی میں کچھ اس انداز سے کیا گیا ہے۔ ’

’لولاک لما خلقت الافلاک‘‘اے میرے حبیب اگر تجھے پیدا کرنا مقصود نہ ہوتا تو میں ان افلاک کو نہ پیدا کرتا‘‘اور اس مصرعہ کی ایک خاص خوبی یہ بھی ہے کہ میرانیس نے اس مصرعہ میں ’’اس حدیث قدسی ‘‘کی طرف بھی اشارہ کیا ہے۔ جس میں یہ ارشاد ہوا ہے کہ۔ ــ’’اول ما خلق اللہ نوری‘‘کہ اللہ تعالی نے سب سے پہلے میرے نور کو خلق کیا ہے ‘‘یعنی جب یہ ارض و سماوات لوح وقلم انسان و جنات چرندو پرند، جمادات ونباتات، حور و قصور، کوثر و سلسبیل، ملک وملکوت کو خلق نہیں کیا گیا تھا۔ اس سے کہیں پہلے اللہ تعالی نے نور محمدی کو تخلیق کیا تھا، اور یہ نور اللہ کی عندیت میں تھا اور اپنے خالق کی تسبیح و تمحیدو تمجید کرتا رہا۔ جب اللہ تعالی نے اس ’’گلشن کائنات‘‘ کو بنایا تو سب سے پہلے ’’گل محمدی ‘‘ کی خوشبو سے اس کائنات کی مشام جاں کو معطر ومنور کیا۔

اس بند کا تیسرا مصرعہ

’’اس شاہ کے اوصاف کا کونین میں غل ہے‘‘

اس مصرعہ کا تعلق اوپر کے دونوں مصرعوں سے ایک ارتباط خاص رکھتا ہے۔ اس میں باالخصوص میر انیس نے لفظ’’شاہ‘‘ کا استعمال حضورگرامی قدر کی ذات بابرکت کے لئے کیا ہے۔ جو اس بات کی طرف اشارہ ہے۔ کہ ذات محمدی ہی ایک ایسی ذات ہے۔ جس کے ظہور کا ہمہمہ اوران کے اوصاف و خوبیوں کا تذکرہ ان کی آمد سے پہلے ہی اس دنیا میں بھیجے جانے والے نبیوں کا وردزباں تھااور آسماں میں بزم ملکوت کی بزم کی رونق تھا۔

اس بند کا چوتھا مصرعہ

’’سب جزو کُل اجزائے ہیں اسی کا وہی کل ہے‘‘

اس مصرعہ کی ساخت پر غور کریں یہ مصرعہ اپنے ماقبل کے مصرعوں سے معنوی طور انضباط رکھنے کے باوجود ایک انفرادی حیثیت رکھتا ہے اور فنی اعتبار سے استخوان بندی کی ایک خوبصورت ترین مثال بھی ہے۔ اس مصرعہ میں دو اہم لفظ ہیں ایک ’’جزو‘‘ دوسرا ’’کل‘‘ ان دونوں لفظوں کے اتصال سے ایک بڑے معنی کی تخلیق کا عمل انجام پذیر ہورہا ہے۔ یعنی یہ ساری کائنات اور اس کائنات میں موجود تمام اشیا ایک ’’جزو‘‘ کی حیثیت رکھتی ہے، اور منطقی نکتہ نظر سے ہر جز کے لئے ایک ’’کل‘‘ کا ہونا ضروری ہوتا ہے۔ اس مصرعہ میں اسی فلسفہ کی طرف اشارہ ہے کہ اس کائنات میں ذات محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم ’’کل ‘‘ کی حیثیت رکھتی ہے، او رجب اس کل کے اجزا کو منتشر کیا گیا۔ تو سارے کونین کی خلقت ہوئی۔ یعنی اگر اس کائنات سے ذات محمدی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو درمیان سے ہٹا دیا جائے تو یہ دنیا ایک بے معنی شے کی حیثیت کے علاوہ اور کچھ نہیں رہ جاتی۔ لہذا، اس دنیا کے قیام کے لئے ذات محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا ہونا ضروری ہے۔

اس بند کی بیت ملاحظہ فرمائیں

ہر چند کہ ہے وہ خلف آدم و حوا

پر حق نے کیا ہے شرف آدم و حوا

مطلع کے اس بند میں یہ بات بالکل واضح کردی ہے کہ یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام اس دنیا میں سب سے پہلے اللہ کی طرف نبی بنا کر مبعوث کئے گئے جب انسانوں کا کوئی وجود نہیں تھا۔ اور رسول خدا صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو ایک لاکھ چوبیس ہزار نبیوں میں سب سے آخر میں بھیجا گیا جو ہمارے نبی آخر الزماں ’’خلف آدم‘‘ ہیں یعنی جناب آدم کے بعد تشریف لائے لیکن اس کے باوجود جناب آدم و حوا کے لئے ہمارے نبی خاتم صلی اللہ علیہ والہ وسلم شرف ومنزلت اور باعث افتخار ہیں۔ چونکہ یہ تمام نبیوں کے سردار ہیں، اور روز محشر تمام رسولوں کے کار رسالت کی گواہی دینے والے ہیں۔

اس مدس کے اگر سارے بند کی توضیح و تشریح کی جائے تو یہ مضمون بہت طویل ہوجائے گا لہذا مضمون کی طوالت کے پیش نظر مذکورہ مسدس کے اس بند پر اپنی بات کا اختتام چاہتا ہوں۔

جب آئے جہاں میں قدم احمد مختار

تاثیر گئی سحر کی کاہن ہوئے بیکار

اوندھے ہوئے بت خوف سے لرزاں ہوئے کفار

ہر جا سے تشہد کی صدا آتی تھی ہر بار

یہ معجزہ مابین سماوات ہے مشہور

کسرا کا محل گر پڑا یہ بات ہے مشہور