1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. شاہد کمال/
  4. نعت کا تاریخی پس منظر 1

نعت کا تاریخی پس منظر 1




لکھنو، انڈیا


نعت عربی زبان کا ایک برگزیدہ لفظ ہے۔ اس لفظ کا سہ حرفی اشتقاق بااعتبار جنس مونث ہے۔ اور اس کا پہلا حرف مفتوح ہے اور بعد کے دونوں حروف ساکن ہیں ۔عربی لسانیات میں اس کا استعمال صفت کے مترادفات میں ہوتا ہے ،اوریہ ایک نحوی اصطلاح ہے،اور لغوی اعتبار سے اس کا استعمال کسی کی مدح و ستائش کے لئے کیا جاتا ہے۔لیکن اس لفظ کے لغوی واصطلاحی معنی حضرت خاتم الانبیا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذکر وثنا سے مختص ہے اور عمومی اصطلا ح میں اسے شاعری کی مقدس ترین صنف سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔جس کا قرآنی تقدس بلا شرکت غیر حضور ختمی مرتبت کی شان جلالت مآب سے ایک نسبت خاص رکھتا ہے۔


فارسی واردو لغات میں بھی لفظ ’’نعت‘‘ کا استعمال بطور صنف شاعری مطلقاً حضور ختمی مرتبت کی تعریف و توصیف سے متعلق ہے۔ ’’لغات کشوری‘‘ جامع اللغات‘‘ ،’’فرہنگ عامرہ‘‘ ’’غیاث اللغات‘‘’’ مہذب اللغات‘‘ فیرو ز واللغات ‘‘ وغیرہ


صاحب ’’غیاث اللغات ’’نعت ‘‘کی تعریف کرتے ہوئے یہ لکھتے ہیں کہ۔


’’ اگرچہ لفظ نعت بمعنی مطلق وصف است لیکن اکثر استعمال ایں لفظ بمعنی مطلق ستائش و ثنائے رسول ؐ آمدہ است۔‘‘


’’فرہنگ آصفیہ‘‘ نے لفظ نعت کی تعریف یوں کی گئی ہے۔


’’نعت (ع)اسم مونث ، تعریف و توصیف،مدح وثنا،مجازاً خاص حضرت سید المرسلین ،رحمت اللعالمین ؐکی توصیف‘‘


نوراللغات کے مطابق۔


’’یہ لفظ نعت بمعنی مطلق وصف ہے،لیکن اس کا استعمال آنحضورؐکی ستائش و ثنا کے لئے مخصوص ہے۔‘‘


علمائے ادب نے اس لفظ کی عصمت و نجابت کے پیش نظر بااعتبار صنف اس کی مختلف توضیحات و تشریحات پیش کی ہیں۔ ،جن کی روشنی میں اس لفظ کی حقیقی تفہیم اور اس کے تمام تر معنوی امکانات کے ادراک کی کوشش کریں گے۔اس لئے کہ ’’نعت ‘‘کے مبادیاتی محاسن اوراس کے ارتقائی پہلو ؤں کا مکمل جائزہ محض کسی فرد واحد کے ذاتی صواب دید کی بنیاد پر ممکن نہیں۔ اصل میں اس صنف کی تعین قدر کے لئے ضروری ہے، کہ دانشوروں کے نظریات کی تدوین اور اس کی تاریخی تطبیق منطقی اعتبار سے کی جائے۔


’’نعت‘‘ سے متعلق بابا سید رفیق عزیزی کا اقتباس ملاحظہ کریں۔


’’حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اوصاف ، احوال ، کردار ،افکار ، اشغال ، عادات ، معاملات ، سخاوت ، عفوو در گزر کے حوالے سے جو شاعری کی جاتی رہی ہے اور کی جارہی ،اس صنف سخن کا نام ’’نعت‘‘ طے پاچکا ہے ، ناقدین ادب نے نعت شریف کے اسالیب اور انداز بیان پر سیر حاصل گفتگو کی ہے۔‘‘ (خزینہ نعت ،ص ۷مرتب صدیقی عبد الروف ، ٹریڈ کر انیکل نئی چالی کراچی، ۱۹۹۸)


مجید امجد، نعت کے حوالے سے یوں اظہار خیال فرماتے ہیں۔


’’حقیقت یہ ہے کہ جناب رسالتمآب کی تعریف میں ذرا سی لغزش نعت گو کو حدود کفر میں داخل کر سکتی ہے۔ذرا سی کوتاہی مدح کو قدح میں بدل سکتی ہے ،ذرا سا شاعرانہ غلو ضلالت کے زمرے میں آسکتا ہے ذرا سی عجز بیانی اہانت کا باعث بن سکتی ہے۔‘‘ (’’بام عرش ‘‘صفحہ نمبر ۴ )


پروفیسر ابوالخیر کشفی تحریر فرماتے ہیں۔


’’بارگاہ مصطفیٰ محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم میں جنیدؔ و بایزیدؔ ہی نہیں الفاظ بھی نفس گم کردہ نظر آتے ہیں شرط صرف یہ ہے کہ یہ شعور کامل جسے نفس گم کردگی سے تعبیر کیا گیا ہے ،شاعر کی ذات میں موجود ہو۔‘‘ (ورفعنالک ذکرک صفحہ نمبر ۲ )


ڈاکٹر شوکت زریں چغتائی بااعتبار صنف اس لفظ کی تفہیم اس انداز میں کرتی ہیں۔


’’ یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ نعت صدیوں کا سفر کرتی ہوئی آج انتہائی عروج پر ہے ۔آج کا دور اپنی مادیت پسندی کے باوجود امن رحمت میں پناہ ڈھونڈ رہا ہے ۔یہ عہد حاضر کی مجبوری نہیں بلکہ افتخار ہے کہ اس نے اپنے تشخص کا احساس نعت کے حوالے سے پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ کامیاب کوشش۔‘‘ (’’اردو نعت کے جدید رجحانات ، صفحہ نمبر ۱۴،بزم تخلیق ادب پاکستان ، کراچی ۲۰۱۱ )


پروفیسر عنوان چشتی اس صنف سے متعلق تحریر فرماتے ہیں۔


’’نعت کا فن بظاہر آسان مگر بہ باطن مشکل ترین ہے ، ایک طرف و ہ ذات گرامی ہے ہے جس کی مدح رب العالمین نے خود کی ہے اور اس کو ’’نور‘‘ اور ’’مثل بشر‘‘ کہا ہے اور دوسری طرف زبان اور شاعری کے جمالیاتی تقاضے ہیں ۔‘‘


(ورفعنالک ذکرک ص ۴)


ابواللیث صدیقی کا یہ نظریہ ہے کہ:


’’ نعت کے موضوع سے عہدہ برآ ہونا آسان نہیں ، موضوع کے احترام ،کلام کی بے کیفی و بے رونقی کی پردوہ پوشی کرتا ہے، نقاد کو نعت گو سے باز پرس کرنے میں تامل ہوتا ہے ،دوسری طرف نعت گو کو اپنی فنی کمزوری چپھانے کے لئے نعت کا پردہ بھی بہت آسانی سے مل جاتا ،شاعر ہر مرحلہ پر اپنے معتقدات کی آڑ پکڑتا ہے اور نقاد جہاں کا تہاں رہ جاتا ہے ،لیکن نعت گوئی کی فضا جتنی وسیع ہے ، اتنی ہی اس میں پرواز مشکل ہے۔‘‘ (لکھنؤ کا دبستان ۔۔۔۔صفحہ ۵۴۴ )


پروفیسر سید محمد یونس گیلانی ’’نعت ‘‘سے متعلق یو ں تحریر فرماتے ہیں۔


’’نعت کا مفہوم اہل لغت کے نزدیک ان اچھی صفات ، عادات و خصائل کا بیان کرنا ہے ، جو خلقتہََ وطبعاً کسی شخص میں پائی جائیں ، یہی وجہ ہے کہ نعت کا لفظ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس کی تعریف و توصیف کے لئے مختص ہوگیا ہے۔ نعت رسول مقبول کا بیان زوز اول سے لے کر آج تک مسلسل و متواتر جاری ہے اور ابد تک یہ سلسلہ جاری و ساری رہے گا۔‘‘ (تذکرہ نعت گویان اردو ،حصہ اول ،صفحہ ۳ )


احسان دانش کا یہ اقتباس ملاحظہ کریں۔


’’صرف الفاظ سے نعت کا حق ادا نہیں ہوتا بلکہ جو جذبہ الفاظ کا جامہ قبول کر کے کاغذ پر قابل اظہار بنتا ہے ، وہی جذبہ ہے ،جسے ثنائے بے نقط کا نام دیا جاسکتا ہے۔ جذبات کا وہ لمحہ ایسا ہوتا ہے کہ کائنات میں دل کی دھڑکن کے سوا کوئی آواز نہیں آتی۔ اگر آنسو بھی گرتا ہے تو پہروں روح میں اس کی جھنکار گونجتی رہتی ہے ۔ اس وقت انسان اور خدا لسانی طور ایک سطح پر آجاتے ہیں ، کیوں کہ جب کوئی دورود پڑھتا ہے تو خدا فرماتا ہے کہ میں بھی درود پڑھتا ہوں ، دوسرے لفظوں میں نعت کو پیرایہ درد بھی کہا جاسکتا ہے۔‘‘ (جلوہ گاہ : حافظ مظہر الدین صفحہ نمبر ۱۳ )


ڈاکٹر سید شمیم گوہر کی مطابق:


’’ عہد رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم سے نعتیہ شاعری کا آغاز ہوا اور بتدریج ارتقائی مراحل طے کرتے ہوئے آج آفاقی عظمت کی حامل بن گئی ، نعتیہ ادب کی خوشبو قیامت تک مہکتی رہے گی۔‘‘ ’ (نعت کے چند شعرائے متقدمین ،ص ۹خانقاہ حلیمیہ ابوالعلائیہ ۔ الہ آباد ،۱۹۸۹ )


راجہ رشید محمدتحریر فرماتے ہیں:


’’تعریف ، مدح و ثنا، تحمید ، توصیف اور نعت کے الفاظ مختلف مقامات پر حضور رسول انام علیہ الصلواۃ و السلام کی مدح میں استعمال کئے گئے ہیں ۔لیکن جو اصطلاح خاص طورسے کثرت کے ساتھ مدح حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے استعمال ہوئی ہے وہ نعت ہے۔‘‘ (پاکستان میں نعت،ص ۱۰ ایجوکیشنل ٹریڈ رز، اردو بازار لاہور ستمبر ۱۹۹۴ )


’الحافظ ابو موسیٰ‘‘ کے مطابق۔


’’النعت وصف الشئی بما فیہ من حسن مالہ الجلیل ولایقال فی المذموم الا بتکلّف فیقول نعت سوء ، فاما الوصف فیقال فیھماای فی المحمود المذموم۔‘‘


’’یعنی نعت وصف محمود کو کہیں گے ۔ اگر بتکلف اس میں وصف مذموم کا مفہوم پیدا کرنا ہو تو ’’نعت سوء‘‘ سے اسے ظاہر کریں گے۔ نعت جب وصف محمود ہے تو وصف کیا ہے؟ وصف کے معنی ہیں کشف اور اظہار ،شاعرانہ اصطلاح میں وصف کسی چیز کے عوارض اور اس کی خصوصیات کو نمایاں کرنے کو کہتے ہیں۔‘‘ (جامع الترمذی ، مطبوعہ ’اصح المطابع ‘لکھنؤ سنہ ۱۳۱۷ ھ ص ۵۶۸ حاشیہ ۳)


’’ابن قدامہ‘‘ ’’الحافظ ابوموسی‘‘ کے ’’وصف محمود‘‘ کی مزید توضیح یوں فرماتے ہیں۔


’’ بہترین وصف شاعر وہ ہے جو اپنے شعر میں ان اوصاف کے اکثر حصہ لائے جن سے موصوف مرکب ہے۔ اس کے بعد وہ اوصاف اس قسم کے ہوں جو موصوف میں زیادہ نمایاں ہیں اور اس کے ساتھ زیادہ خصوصیت رکھتے ہیں ۔‘‘ (شعر الہند حصہ دوم ص ۳۸۹ ’’مولانا عبدالسلام ندوی‘‘ مطبوعہ مطبع معارف اعظم گڈھ)


مولانا سید عبدالقدوس ہاشمی ندوی نے نعت کی تعریف یوں فرمائی ہے۔


’’نعت عربی زبان کا ایک مادہ ہے۔نعت میں اس کے معنی ہیں ،اچھی اور قابل تعریف صفات کا کسی شخص میںپایاجانا اور ان صفات کا بیان کرنا۔‘‘ (’’ورفعنالک ذکرک‘‘صفحہ ۱۵)


’’نعت ‘‘کے لغوی اور اصطلاحی معنی کے ضمن میں دانشوروں کی مذکورہ توضیحات و تشریحات سے اس بات کا وضح انکشاف ہوتا ہے کہ ـ’’نعت‘‘ بحیثیت صنف شاعری اپنا ایک انفرادی موضوع رکھتی ہے ۔اس صنف سخن کی موضوعاتی یکتائیت اور اس کا استمرار ہی اس کا انفرادی تشخص ہے ۔غالباً اس کا یہی انفرادی اختصاص اسے شاعری کی دیگر اصناف سخن سے اسے ممتازکرتا ہے۔


سید مرتضی الزبیدی کے مطابق ابتدامیں یہ لفظ (نعت) وصف کے مترادف ضرور سمجھا گیا ۔لیکن بعد میں یہ لفظ ’’نعت‘‘ اپنے جملہ مترادفات سے الگ اپنی ایک انفرادی حیثیت سے متعارف ہوا۔جیسا کہ ’’ابن اثیر نے ’’النہایہ فی غریب الحدیث‘‘ میں اس لفظ ’’نعت‘‘ کی توضیح کچھ اس اندا زمیں پیش کی ۔


’’ یہ لفظ(نعت ) کسی شخص یا کسی چیز کے حُسن و اوصاف بیان کرنے کے لئے ،مختص ہے۔ نہ کہ کسی شخص کے قبح و معائب بیان کرنے کے لئے وضع کیا گیا ہے۔ اگر اس لفظ کے توسط سے کسی کی برائی کا تذکرہ مقصود ہو تواُسے اصطلاحاً’’نعت سو‘‘ یا نعت مکروہ ‘‘ سے تعبیر کیاجاتاہے‘‘۔ ( تاج العروس جلد اول )


لیکن’’ ابن سیدہ‘‘ کے مطابق لفظ ’’نعت‘‘ اپنے معنوی حُسن کی بنیاد پر ایک بہترین لفظ ہی نہیں ،بلکہ اس لفظ کو ایک تجددآمیزمبالغہ اظہار بیان سے بھی تعبیر کیا جاتاہے۔


’’ابن رثیق ‘‘ نے نعت کے حوالے سے وصف کی نہایت بلیغ توضیح کی ہے ان کا یہ قول ہے کہ۔


’’ ابلغ الوصف ماقلب السمع بصراً‘‘


’’ بلیغ ترین وصف اسے کہتے ہیں جو کان کو آنکھ بنا کر پیش کرے۔‘‘


اس ضمن میںعرب کے ایک مشہور ماہر لسانیات ’’ابن عربی ‘‘ کا اس لفظ ’’نعت‘‘ سے متعلق نظریے سے صرف نظر نہیں کیا جاسکتا۔ وہ فرماتے ہیں کہ لفظ’’نعت ‘‘ کا معنوی وصف کسی شکیل و جمیل حسین و خوب رو شخص کی توصیف کے لئے مستعمل ہے۔لیکن ایک بنیادی شرط کے ساتھ کہ اس لفظ کا معنوی تعین کسی انسان کے ظاہری خواص یعنی اس کے قدو قامت ،حُسن و رعنائی یا حلیہ وغیرہ کی تعریف و توصیف سے ہی اتصاف ہے۔لیکن اس کے برعکس کسی شخص یا شئے کے معنوی حسن کے بیان کو اس دائرے سے باہر رکھا گیاہے۔‘‘


لیکن ’’نعت ‘‘ سے متعلق اہل عجم ’’ابن عربی‘‘کی اس مشروط تعریف کے متحمل نہیں ہیں ۔چونکہ اہل عجم کے نزدیک ’’نعت‘‘ ایک ایسا وحدہ لاشریک لفظ ہے۔ جس کے تمام ظاہری و معنوی امکانات کا مرکز و محور محض ذات پیغمبر ؐ اسلام ہے۔لہذا اس سے ہٹ کر ’’نعت ‘‘ کا تصور لایعنی ہے۔


’’نعت ‘‘ سے متعلق ڈاکٹر ریاض مجیدکا یہ اقتباس ملاحظہ فرمائیں۔


’’یہ لفظ’’نعت‘‘ خلقتاً عمدہ صفات کے مالک کے لئے استعمال ہوتا ہے، یعنی اس شخص کے لئے جو پیدائشی طور پر خوبصورت ہو ، عمدہ خصلتوں اور اچھے اخلاق والا ہو ،اور یہ لفظ ’’نعت‘‘ اوصاف کے انتہائی درجے کے مفہوم میں آتا ہے۔‘‘ (نعت کالغوی مفہوم)


انور احمد میرٹھی نے’’نعت‘‘ کو شاعر کے عجز بیان سے تعبیر کیا ہے ۔یہ اقتباس ملاحظہ کریں۔


’’نعت‘‘ عربی کا لفظ ہے ۔ اس کے معنی تعریف و وصف بیان کرنے کے ہیں اگر چہ عربی میں مدح کا لفظ بھی اس مقصد کے لئے مستعمل ہے لیکن ادبیات میں نعت آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے اوصاف و محاسن اور بیان سیرت کے اظہار کے لئے مختض ہے اور یہی وہ صنف سخن ہے جس میں شاعر کا عجز نعت کی خصوصیات کا حصہ ہے چاہے وہ کسی بھی زبان میں ہو۔عربی شاعری میں اس کی مثال حضرت علی کے ایک شعر سے ملتی ہے وہ شعر ملاحظہ کریں۔


اللہ یعلم شانہ


وَھو العلیم بیانہ


اللہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان جانتا ہے اور وہ آپ ۔۔۔۔۔کے بیان سے باخبر ہے۔‘‘ (بہر زماں بہر زماں صفحہ نمبر ۴۳)


لفظ ’’نعت‘‘ کی ان جملہ توضیحات وتشریحات سے الگ ’’مفتی غلام حسین رامپوری کا اپنا خیال ہے کہ لفظ ’’نعت‘‘ کو اہل بیت علیھم السلام اور صحابہ کرام کے لئے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔‘‘


مفتی غلام کی حسین کی یہ توضیح درست نہیں ہے ۔اس لئے کہ ’’نعت‘‘ کا انطباق محض حضورا کرم کے محامد و محاسن کے بیان پر ہی ہوتا ہے۔اور اہل بیت علیھم السلام کی اور صحابہ کرام کی مدح کے لئے باضابطہ شاعری میں ’’منقبت‘‘ جیسی صنف مروج ہے۔


غالباً مفتی غلام حسین رامپوری نے صنف’’نعت‘‘ میں جو اہل بیت علیھم السلام اور صحابہ کرام کے ذکر کو شامل کیا ہے ۔اس کی خاص وجہ یہ ہے کہ زمانہ رسالتمابؐ اور عہدتابعین وتبع تابعین کے بعض نعت گو شعرا نے خصوصیت کے ساتھ اہل بیت علیھم السلام اور صحابہ کرام کا تذکرہ اپنے نعتیہ قصائد میں ضمنی طور پر کیا ہے ۔ جن میںجناب حسان بن ثابت کے علاوہ مشہور نعت گو شاعر جناب عبداللہ شرف الدین محمد بن ابوالبوصیر (جن کے تذکرہ آگے چل کر تفصیل سے کیا جائے گا)ان کے نعتیہ قصائد میں اہل بیت علیھم السلام کے حوالے سے بیشتر اشعار موجود ہیں


جاری۔۔۔