[email protected]
۔۔۔۔۔۔۔اردو میں نوحہ کا آغاز دکن سے ہی ہوا ہے، ولی دکنی کے کلام میں رثائی کلام پائے جاتے ہیں ، لیکن مرثیہ کی تاریخ کے محققین اور مولفین نے ان کے اس رثائی کلام کو مرثیہ کے ہی زمرے میں رکھا ہے جب کہ میرے نظریہ کے مطابق یہ درست نہیں ہے، اس لئے کہ مرثیہ کے محققین نے دکن کے شعرا کے جن کلام کو مرثیہ سے تعبیر کیا ہے دراصل وہ مرثیہ نہیں نوحہ ہی ہے چونکہ ان کلام کو اگر موجودہ رثائی ادب کی صنف نوحہ سے تقابلی جائزہ کریں گے تو وہ نوحہ کے تمام تلازمات کی ہی عکاسی کرتے ہیںلیکن بدلتے ہوئے زمانے کے ساتھ مرثیہ کی ہیت میں تبدیلی واقع ہوئی ہے اور معاصر عہد میں مرثیہ کے تلازمات اور اس کے ہیت متعین ہوچکی ہے، لہذا اس بنیاد پر ان تمام کلام کو جو ابتدائے اردو عہد کی اساسی دور میںجسے مرثیہ سے تعبیر کیا وہ دراصل نوحہ ہی ہے۔ محققین مرثیہ نے ، مرثیہ کے باضابطہ جس عہد کی نشاندہی کی ہے وہ 1503عیسوی میں شاہ اشرف بیابانی کی’’ نوسرہار‘‘ میں موجود رثائی کلام کو مرثیہ کہا ہے اور برہان الدین جانم کے کلام کو بھی مرثیہ کہا ہے،حالانکہ وہ مرثیہ نہیں نوحہ ہے۔اسی طرح سے مرزا برہانپوری اور ہاشمی وغیرہ نے بھی بڑے پر اثر نوحہ تخلیق کئے ہیں۔لیکن ان سب میں قلی قطب شاہ (۹۷۳ھ تا ۱۰۲۰ھ) کو ان تمام نوحہ گو شعرا کا سرخیل کہا جاتا ہے۔لیکن نصیر الدین ہاشمی نے اس بات کااعتراف کیا ہے کہ ’’شیخ اشرف‘‘ نے ’’دہ مجلس‘‘ کے عنوان سے ایک بہت ہی مفصل نظم لکھی ہے جس میں 1800؍اشعار موجود ہیں ،ان اشعار میں بڑے تفصیل کے ساتھ واقعات کربلا کو نظم کیا گیا ،مثال کے طور پر چند اشعار ملاحظہ کریں۔
دوجگ اماماں دکھ تھے سب جیو کر تے زاری وائے وائے
تن روں کی لکڑیاں جال کر کرتی ہیں خواری وائے وائے
ساتوگگن آٹھو جنت ، ساتو دریا ، ساتو دھرتی
ایک سے تھے ایک آپس میں آپ دکھ کرتے کاری وائے وائے
(دکن میں اردو :ص ۲۷۳)
لیکن جب ہم تاریخ کا باریک بینی سے جائزہ لیں تو بیشتر محققین و مولفین مرثیہ کی اصل تاریخ کو لے کر تذبذنہ رویہ کے شکار نظر آتے ہیں ،اس لئے کوئی حتمی فیصلہ کرنے سے قاصر نظر آتے ہیں ۔ یہ اقتباس ملاحظہ کریں۔
’’ہندوستان میں شاعری کی ابتدا ولی ؔسے ہوئی ولیؔنے اگرچہ کربلا کے حالات میں ایک خاص مثنوی لکھی لیکن اس کے کلام میں مرثیہ کا پتہ نہیں لگتا یہ معلوم نہیں کہ مرثیہ کی ابتدا کس نے کی۔۔۔۔‘‘
اس اقتباس سے آپ خود اندازہ کرسکتے ہیں کہ مرثیہ کی تاریخ کی دریافت میں کوئی یقینی امکان کی صورت نظر نہیں آتی۔لیکن نوحہ کی باضابطہ تاریخ اردو شاعری کے ابتدائی نقوش میں بہت واضح دکھائی دیتی ہے۔لہذا ابتدائے اردو شاعری کو نوحہ کی ابتدائی تاریخ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا۔اسی طرح سے جیسے جیسے اردو زبان اپنے مرحلہ وار ارتقائی سفر طے کرتی رہی اسی طرح نوحہ بھی مرحلہ وار اپنی تاریخ امکان کی پیش روی کے امکانی صورت میں اپنا سفر طے کرتا رہا۔اور یہ سلسلہ محض اردو زبان تک ہی محدود نہیں رہا بلکہ عربی زبان میں بھی نوحہ اسی طرح غیر افہامی صورت میں اپنا سفر طے کرتا رہا۔لیکن فارسی زبان میں اردو زبان ہی کی طرح نوحہ غیر مجہول تحقیقی رویہ کا شکار رہا ہے، اور جو اشعار فارسی میں کربلا کے عنوان سے کہے گئے رثائی اشعار بغیر کسی تحقیقی امتیاز کے مرثیہ کے ضمن میں ہی رکھا گیا۔
فارسی ادب کی تاریخ بہت قدیم ہے ، جس کا تفصیلی ذکر موضوع کی نزاکت کے منافی ہے ۔لیکن فارسی ادب میں نوحہ کے ارتقا کا اہم دور مامون رشید کے عہد کے اس زمانے کو تصور کیا جاتا ہے جب مامون رشید نے خراسان کی زمام حکومت 205 ہجری میں ایران کی ’’طاہریہ ‘‘خاندان کے سپرد کی یہ وہ دور تھا جب فارسی زبان وادب کا ارتقائی دور تصور کیا جاتا ہے ،اسی عہد میں باضابطہ خانوادہ رعصمت و طہارت کی مدح و ستائش کو فارسی شاعری کا ایک اہم حصہ تصور کیا جانے لگا۔لہذا ایسے حالات میں کربلا کے واقعات کے اظہار میں شاعروں نے بڑے فراخ دلی کا مظاہر کیا ،اور یہیں سے نوحہ گوئی اور نوحہ خوانی کوعمومی حیثیت حاصل ہوئی۔
اور فارسی کے بیشترشعرا نے اس صنف میں طبع آزمائی کی یہاں تک مولانا روم کی غزلیات کا مجموعہ ’’شمس تبریز‘‘ میں کچھ اشعار ایسے بھی ملتے ہیں جسے نوحہ کے ضمن میں رکھا جاسکتا ہے وہ اشعار ملاحظہ فرمائیں۔
کجائید ای شہیدان خدائی
بلا جویان دشت کربلائی
کجائید ای سبک روحان عاشق
پرندہ تر زمرغان ہوائی
کجائید ای شہان آسمانی
بدانستہ فلک را در کشائی
کجائید ای در زندان شکستہ
بدادہ و مداران رہائی
کجائید ای در مخزن گشادہ
کجائید ای نوای بی نوائی
دلم کف کرد، کاین نقش سخن شد
بہل نقش و بہ دل رو گر زمائی
بہل نقش و بہ دل رو گر زمائی
کہ اصلِ اصلِ اصلِ ہر ضیائی
فارسی ادب میں مرثیہ کو لے کر محققین میں اختلاف رائے مولانا شبلی نعمانی نے ’’شعرا لعجم‘‘ میں سب سے پہلا مرثیہ گو ملا محتشم کاشانی کوبتایا ہے۔ لیکن پروفیسر مسعود حسن رضوی نے اس سے اختلاف کیا ہے ان کی تحقیق کے مطابق فارسی کا سب سے پہلا مرثیہ گو شاعر ’’آذری‘‘ ہے۔لیکن میں ان محققین کی سے اتفاق نہیں رکھتا،اس لئے کہ پروفیسر مسعود حسن رضوی نے ’’آذری‘‘ کی انتقال کی تاریخ 886 ھجری لکھی ہےجوسن عیسوی کے اعتبار سے 1461 ہوتی ہے، اور ملا محتشم کاشانی کی کا دور 1527 عیسوی ہے، لیکن مولانا روم کا عہد (30 September 1207 – 17 December 1273) ہے۔لہذا اس اعتبار سے سب سے پہلے کربلا کے واقعات سے متعلق جو اشعار کہے ہیں وہ مولانا روم ہیں۔لیکن مولانا روم اور آذری کے مقابلے میں کربلا کے واقعات کے حوالے سے شعر گوئی میں ملا محتشم کاشانی کو زیادہ مقبولیت حاصل ہے۔چونکہ ان کے ہفت بند کوجو شہرت ملی وہ کسی اور کو نصیب نہیں ہوئی۔لیکن بیشتر محققین نے ملا محتشم کاشانی کے ہفت بند کو مرثیہ ہی لکھا ہے ۔ یہ وہی تسامح ہے جو اردو شاعری میں مرثیہ گوئی کی تاریخ کی دریافت میں واقع ہوا ہے۔جس کی وجہ سے نوحہ کی تاریخ سے محققین نے پس اندازی کا رویہ اختیار کیا ہے۔میں یہاں پر ملا محتشم کاشانی کے ہفت بند کے چند اشعار ضرور پیش کرونگا۔
چوں خوں زخلق تشنہ او بر زمیں رسید
جوش از زمیں بہ ذرہ عرش بریں رسید
نخل بلند او چو خساں بر زمیں زدند
طوفاں بہ آسماں ز غبار زمیں رسید
کردایں خیال وہم غلط کار، کن غبار
تادامن جلال جہاں آفریں رسید
ہست ازملا گرچہ بری ذات ذوالجلال
او در دل است و ہیچ ولی نیست بے ملال
(2)
ترسم جزای قاتل او چوں رقم زنند
یکبار بر جریدہ رحمت قلم زنند
ترسم کزیں گناہ شفیعان روز حشر
دارند شرم کزگنہ خلق دم زنند
دست عتاب حق بدر آید ز آستیں
چوں اہل بیت دست بر اہل ستم زنند
آہ از دمیکہ باکفن خوں چکاں زخاک
آل علی چوں شعلہ آتش علم زنند
فریاد از ایں زماں کہ جوانان اہل بیت
گلگوں قدم بہ عرصہ محشر قدم زنند
از صاحب حرم چہ توقع کنند باز
آں ناکساں کہ تیغ بصید حرم زنند
بس بر سناں کنند سری راکہ جبرئیل
شوید غبار گیسویش از آب سلسبیل
(3)
بر حر بگاہ چوں رہِ آں کارواں فتاد
شور نشور واہمہ را در گماں فتاد
ہم بانگ نوحہ غلغلہ درشش جہت فگند
ہم گریہ بر ملائیک ہفت آسماں فتاد
چنداں کہ برتن شہدا چشم کار کرد
بر زخم ہائے کاری تیغ و سناں فتاد
ناگاہ چشم دختر زہرا درایں میان
بر پیکر شریف امام زماںفتاد
بے اختیار نعرہ ہذا حسین زد
سرزد چنانکہ آتش از او درجہاں فتاد
پس بازبان پُر گلہ آں بضعۃ البتول
رودر مدینہ کرد کہ یاایھالرسول
(4)
ایں کشتہ فتادہ بہ ہاموں حسین تست
دیں صید دست و پازدہ در خوں حسین تست
ایں غرفہ محیط شہادت کہ روے دشت
از موجِ خونِ اوشدہ گلگوں حسین تست
ایں خشک لب فتادہ ممنوع از فرات
کز خوں او زمیں شدہ جیحوں حسین تست
ایں شاہ کم سپاہ کہ باخیل اشک وآہ
خرگاہ ازیں جہاں زدہ بیروں حسین تست
ایں قالب تپاں کہ چنیں ماندہ برزمیں
شاہِ شہیدناشدہ مدفوں حسین تست
پس روئے در بقیع بہ زہرا خطاب کرد
و حش زمین و مرغ ہوا را کباب کرد
(5)
کائے مونس شکستہ دلاں حال ماببیں
مارا غریب و بیکس وبے آشنا ببیں
تنہائی کشتگاں ہمہ درخاک و کوں نگر
سرہائی سروراں ،ہمہ بر نیز ہ ببیں
آں سر کہ بود بر سر دوش نبی مدام
یک نیزہ اش زدوش مخالف جداببیں
واں تن کہ بود پر درشش درکنار تو
غلطاں بہ خاک معرکہ کربلا ببیں
در خلد بر حجاب دو کوں آستیں فشاں
واند جہاں مصیبت ما برملا ببیں
نے ،نے درآچو،بر خروشاں بکربلا
طغیان سیل فتنہ و موج بلا ببیں
یا بضعۃ البتول !زِ ابن زیاد، داد
کوخاک اہل بیت رسالت بباد داد
ملا محتشم کاشانی کے یہ اشعار نوحیت سے بھر پور ہیں جس کو پڑھنے کے بعد ایک حساس دل ان اشعار کی دلگدازی اور دردانگیزی سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا،ان اشعار میں نوحہ کے تمام معنوی تلازمات پائے جاتے ہیں۔یہ بات اپنے جواز میں منطقی استدلال رکھتی ہے ،یہی وجہ ہے کہ نوحہ عربی زبان کے علاوہ اردوپشتو، ہندی، گجراتی، مراٹھی، کشمیری،پنجابی، تلگو، تامل، بنگالی، بھوجپوری اودھی، ملیالی اور ہندوستان کی دیگر مشرقی زبانوں کے علاوہ فارسی میں بھی کثرت سے نوحے کہے گئے ہیں۔اس کے ساتھ مغربی زبانوں میں بھی انگریزی ،فرانسیسی اور جاپانی زبان میں بھی نوحے کہے گئے ہیں۔ ہندوستان میں نوحہ کا تعلق عمومی طو رپر نسائی جذباتی کی عکاسی کرنے کو کہتے ہیں۔شوکت بلگرامی نے رثائی ادب کی اس صنف سخن کے سلسلے سے اپنے خیالات کا اظہار کچھ اس طرح سے کیا ہے۔
’’ اگر چہ بظا ہر نوحوں میں ایسی بات نہیں معلوم ہوتی جس میں شاعر اپنا زور طبیعت دکھا ئے لیکن در حقیقت ایسا نہیں ہے۔ آخر آخر میں جب میں نے نوحوں کو توجہ سے دیکھا تو معلو م ہوا کہ وہ ایک مختصر اور مسلسل نظم ہونے کی حیثیت سے اظہار خیال کا نہایت عمدہ ذریعہ ہیں۔ دوسرے عورتوں کی زبان جو شاعری کی جان ہے، اردو میں ریختی گو شعرا کی عنایت سے اس قابل نہیں رہی تھی کہ ثقات اسمیں زور طبیعت دکھا ئیں مگر نوحوں کا میدان بھی اس کے لئے کھلا پڑا ہے جس میں ہم بے تکلف اپنی طبیعت کی جولانیاں دکھا سکتے ہیں‘‘۔ (جام شہادت: شوکتؔ بلگرامی: مطبع اثنا عشری دہلی: ۱۳۲۶ھ ص ۶۔۵)
رثائی ادب میں نوحہ میں آہ و بکا کے ساتھ اپنے اندرون کرب کا اظہار کرنا بہت ہی اہم ہوتا ہے ، بغیر رثائی کیفیت کے نوحہ ، نوحہ نہیں کہلا سکتا۔اور اس میں بھی زمانے کے بدلتے ہوئے تقاضوں کو مد نظر رکھنا ضروری ہوتا ہے۔اس ضمن میں پر وفیسر محمد کمال الدین ہمدانی کم یہ اقتباس ملاحظہ کریں۔
’’دیگر اصناف سخن کی طرح نوحہ میںبھی زمانے کے بدلتے ہوئے حالات کے مطابق اور اردو زبان کی ترقی کے ساتھ تبدیلیاں ہوئی ہیں۔ ابتدا میں نوحہ صرف بینیہ اشعار تک محدود رہا اور نوحہ کی زبان بھی بالکل ابتدائی اور سادہ تھی۔ ہندی الفاظ کی آمیزش بھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جیسا کہ ہاشم علی برہانوی کے نوحوں کے دیکھنے سے واضح ہوتا ہے جو علامہ سید سلیمان ندوی نے اپنے ایک ادبی مقالے میں پیش کئے ہیں۔ ملاحظہ ہو ’’نقوش سلیمانی‘‘ اس دور کے بعد زبان،طرز معاشرت اور طرز فکر کے بدلتے ہوئے انداز کے ساتھ نوحہ گوئی کا انداز بھی تبدیل ہوتا رہا دیگر اصناف سخن، خصوصاً مرثیہ کی طرح نوحہ میں بھی وسعت فکراثر انداز ہوئی اور نوحہ میں زبان کی فصاحت و بلاغت اور الفاظ کی شان و شوکت کے اہتمام کے ساتھ نئے نئے مضامین نوحوں میں شامل کئے گئے ۔‘‘ (نجم آفندی کے نوحے: پروفیسر محمد کمال الدین ہمدانی مشمولہ کائنات نجم (حصہ دوم ) مرتبہ ڈاکٹر تقی عابدی: ص ۱۲۱۱)
نوحہ سے متعلق بہت سے غلط فہمیاں لوگوں کے درمیان شکوک کی بنیاد پر راسخ ہوگئیں ہیں مثلا نوحہ کو مسلکی زمرہ بندی کے تحت اس پر استراد ی جواز قائم کرنا ،حالانکہ کی یہ کسی صورت میں درست نہیں ہے، اس لئے کہ یہ رثائی صنف سخن کسی ایک مسلک سے مخصوص نہیں ہے بلکہ اس صنف سخن کے ندام سرنوشت میں گنگاجمنی تہذیب اور مختلف تہذیب و ثقافت کی اساسی وراثت سے متصف ہے۔ناکہ کسی خاص نظریہ کے تحت اس صنف سخن کی کفالت کسی والی ریاست اوراور روسا و امرا نے کی ہے بلکہ یہ ایک عوامی عقائد سے انسلاک رکھنے والی صنف سخن ہے جس کی بنیاد پر اس صنف سخن پر بغیر مذہب ملت کی قید کے مختلف عقائد و نظریات رکھنے والوں نے نوحے کہے ہیں۔ ڈاکٹر عابد حیدری کا یہ اقتباس ملاحظہ فرمائیں۔
’’اردو کا رثائی ادب صرف دکن اور لکھنؤ کے فرمانرواؤں کا رہین منت ہے ۔ اس میں شک نہیں ہے کہ شیعہ اور بعض غیر شیعہ حکومتوں نے وقتی ہمت افزائی کی ہے اور اس ہمت افزائی کی بدولت ان ادوار میں رثائی ادب کا خاطر خواہ ذخیرہ سامنے آیا ہے لیکن یہ سچا ئی بھی شک و شبہ سے بلند ہے کہ رثا ئی ادب کی اصل سر پرستی عوام اور متوسط طبقات نے کی ہے ۔والی حکومت کا مذہب کچھ بھی کیوں نہ رہا ہو۔رثائی ادب کے تخلیق کاروں میں شیعوں ہی کی طرح اہل سنت بھی بلکہ بعض اوقات شیعوں سے بھی زیاہ فعال نظر آتے ہیں۔ اسے گنگا جمنی بنا نے کے لئے کچھ خوش عقیدہ ہندو بھی نظر آتے ہیں ۔یہاں یہ بھی عرض کرنا ضروری ہے کہ ان رثائی تخلیق کاروں کے کارواں کو آگے بڑھانے میں حکومتوں سے زیادہ صوفیائے کرام دکھا ئی دیتے ہیں جن میں خواجہ معین الدین چشتی ؒ، سید اشرف ؒ جہانگیر سمنانی چشتی، خواجہ نظام الدؒین اولیاء کے نام نمایاں نظر آتے ہیں۔‘‘
’’نوحہ کا ارتقائی سفر‘‘
فی الحال مضمون کی طوالت کے پیش نظر اس بحث کو عرفیؔکے اس قول پرختم کرتا ہوں۔
’’نعت ومنقبت کی طرح نوحہ گوئی میں شاعر کو تلوار کی دھا ر پر قدم رکھنے کے مترادف ہے‘‘
اب اس کے بعد اگر مجھ سے کوئی یہ پوچھے کہ نوحہ کیا ہے ؟ تو میں اسے اپنا یہ شعر ضرور سناؤں گا
سن کسی ٹوٹے ہوئے دل کا وہ نوحہ تو نہیں
نغمۂ گل کہ جسے بادِ صبا لکھتی ہے