کتنے ارمان سجائے رہا ماں باپ کا گھر
اپنے دامن میں چھپائے رہا ماں باپ کا گھر
وہ گلی اور محلہ میرے بچپن کا سکوں
میرے دکھ درد اٹھائے رہا ماں باپ کا گھر
جب بھی مایوس اندھیروں نے مجھے گھیرلیا
آس کا دیپ جلائے رہا ماں باپ کا گھر
وقت کی تیز ہواؤں نے مٹائے جو نقوش
میری تصویر سجائے رہا ماں باپ کا گھر
کون اب شام کے وعدوں کا بھلا پاس کرے
کان آہٹ پے لگائے رہا ماں باپ کا گھر
آ کے مل بیٹھیں گے اک بار سبھی گھر کے مکیں
کتنی امید بندھائے رہا ماں باپ کا گھر