تاریخ کا مطالعہ ہمیں ماضی کے تجربات سے سیکھنے کا مو قع دیتا ہے اور ہم ماضی کی غلطیوں سے سیکھ کر حال اور مستقبل میں محفوظ رہنے کی تدبیر کر سکتے ہیں اگر چہ کہ تاریخ کے اوراق بھی جانبداری اور تعصب یا سیاسی مصالحت کا شکار نظر آتے ہیں۔ بہرحال میں تو ایسی تاریخ کا تذکرہ کرنے چلا ہوں جس کا عینی شاہد بھی میں خود ہوں اور آج ساٹھ سال بعد میں خود ہی اس کا تجزیہ کرنا چاہتا ہوں پاکستان کب کیوں اور کیسے بنا یہ ایک متازعہ مسئلہ ہو سکتا ہے مگر میں 1958 کی اس رات کا تذکرہ کرنا چاہتا ہوں کہ جب شہر کراچی میں ناظم آباد کے ایک پارک میں جسے آج انوبھائی پارک بھی کہتے ہیں۔ مرحوم حضرت مولانا مودودی صاحب نے خطاب کیا تھا میری عمر اس وقت کوئی تیرہ برس تھی مولانا مرحوم کی تقریر کا لب لباب یہ تھا کہ ہم ایک ایسی بس میں سوار ہیں جس کا ڈرائیور نہایت نا اہل ہے اور بس دشوار گزارپہاڑی راستے پر ہے اندیشہ ہے کہ یہ بس کو کسی کھائی میں نہ گرادے لہذا اپنی سلامتی کے لئے یہ ضروری ہے کہ اس ڈرائیور سے نجات حاصل کی جائے۔ جلسے میں موجود سامعین تو اتنی استطاعت نہیں رکھتے تھے کہ ڈرائیورکی سیٹ سنبھال لیں۔
اسکندر مرزا کا دور تھا اور انگریزوں کے پروردہ بیورو کریٹس بہت عام تھے وہ کسی مصلحت کے تحت ملک کا نظام اس طرح چلا رہے تھے کہ لگتا تھا کہ ملک تباہ کرنے کے ایجنڈے پر کام کر رہے ہوں کیوں کے ہندوستان جس طرح تقسیم ہوا اور پاکستان آنے والے جس قتل و غارت گری بے سرو سامانی سے گزرے سب جانتے ہیں اب شاید اس پاکستان کے ختم کرنے کے لئے اسکندر مرزا جیسا آدمی صدارت پر براجمان تھا مولانا مرحوم اپنی بصیرت سےجو دیکھ رہے تھے اس سے عوام کو با خبر کر دیا تھا۔ بہرحال عوام الناس تو اس قابل نہ تھے کہ کچھ کرتے مگراس کی دوسری صبح جنرل محمد ایوب خان مرحوم نے اسکندر مرزا کے ساتھ مارشل لا لگادیا اور دو دن بعد اسکندر مرزا بھی پکڑے گئے اور ان کو بھی دوڑا دیا گیا۔ اسمگلنگ کا دور دورہ تھا قاسم بھٹی نامی ایک مچھیرا سونا اسمگلنگ کا کاروبار کرتا تھا۔ بے حساب سونا پکڑا گیا اور اسمگلنگ کا سامان بھی جنرل محمد ایوب خان صاحب مرحوم نے سیا ست دانوں کو "ایبڈو"کے قانون کے تحت دس سال تک سیاست سے باہر کر دیا آج کے سیاست دانوں کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے پاکستان میں سیاست دان سوائے چند کے ہمیشہ سے جاہل اور ناا ہل تھے حکومت اور پرچون کی دکان انکی نظر میں برابرتھی نیز ان کی نا اہلی ایسی تھی کہ یہ پرچون کی دکان بھی نہیں چلاسکتے تھے۔ جیسے آج کے سیاست دان دکان کی ہر چیز بیچ کے اپنے کھاتے میں ڈال رہے ہیں اور دکان کو دیوالیہ تک پہنچا دیا ہے اور ان کو پورا یقین ہے کہ پکڑنے والا کوئی نہیں ہے اگر کوئی چوکیدار اور گارڈ کی بات کرے تو کہتے ہیں کہ اس میں اس کا کیا دخل ہے ان کی نظر میں گارڈ انکا ملازم ہے اور اسکو اپنی نوکری تک رہنا چاہیئے۔ جنرل محمد ایوب خان صاحب مرحوم اپنے آپ کو وطن کا محافظ سمجھتے تھے اور اس میں کسی سے کمپرومائز کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ پہلے بھی انہوں نے ملک کے مفاد میں اگر تلہ سازش اور تری پورا کے معاملے میں اپنی وفا داری ثابت کردی تھی لہذا اسی جذبے کے تحت ان سے برداشت نہ ہوا کہ پاکستان کی گاڑی کو کوئی ڈرائیور کھائی میں گرادے اگر حقیقت کی نظر سے دیکھا جائے تو جنرل محمد ایوب خان صاحب مرحوم نے بطور صدر اس ملک کو اسقدر ترقی دی اور اس کا وقار بلند کیا کہ پاکستان کے آج تک قائم رہنے میں انہی کوششوں کا ثمرہ ہے۔ ملک کا وقار دیکھنا ہو تو وہ ویڈیو کلپ دیکھیں جس میں ایوب خاں نے امریکہ کا دورہ کیا ہے جس میں کہ امریکہ کے صدر‘‘جان ایف کینیڈی’’ ان کو جہاز سے اتر نے والی سیڑھی پر اُپر آکر ہاتھ ملا کر انکا استقبال کر رہا ہے۔ شاید جان ایف کینیڈی کی یہ گرم جوشی "سی آئی اے" کو پسند نہ آئی اور انہوں نے اس کو زیادہ دن برداشت نہ کیا۔
کراچی میں نئی بستیاں جنرل محمد ایوب خان مرحوم کی مرہون منت ہیں لانڈھی، کورنگی، ملیر، سعودآ باد، قائدہ آباد، کوکھراپار۔ کراچی انڈسٹریل ایریا (سائٹ) یہ سب مرحوم ایوب خان کی کوششوں کا نتیجہ ہے۔
مغربی پاکستان کے دوسرے شہروں میں بھی بہت ترقی ہوئی مشرقی پاکستان میں بھی اسی طرح ترقی دیکھنے میں آئی۔ سیلابوں کی تباہ کاریوں میں ان کے دور کے فوجی عوام کے شانہ بہ شانہ نظر آئے خصو صاََ جنرل اعظم خان جن کو بنگالی آ ج بھی نہیں بھولے فوج سے عوام کی محبت اسی دور کی نشانی ہے بھٹو دور میں فوج کی حیثیت کو گرانے کی کوشش کی گئی اور مرحوم ایوب خان کو خود ساختہ فیلڈ مارشل کہا گیا فی الحقیقت انہوں نے 65 کی جنگ میں اپنا فیلڈ مارشل ہونا ثابت بھی کردیا تھا اور ملک ترقی کی منزلوں پر گامزن تھا کہ امریکہ کو یہ اچھا نہ لگا اور اس نے صدر ایوب خان کی کابینہ میں ایک سنڈی کو متعارف کرادیا اور یہ وائرس زرداری کی شکل میں آج بھی پاکستان کوکھو کھلا کر رہا ہے۔
صدر ایوب خان مرحوم کو اپنی حکومت کا دس سالہ جشن (ڈیکارامہ) راس نہ آیا اور دشمنوں نے عوام کو گمراہ کرتے ہوئے صدر محمد ایوب خان مرحوم کیخلاف کھڑا کر دیا۔ اب اندازا ہوا یہ سب سیا ست کےدائو اور پیچ ہیں جن میں عوام کو استعمال کیا جاتا ہے ورنہ ان بےچاروں کی کیا حیثیت ہے۔ آج ہی دیکھ لیجئے کہ مہنگائی کا طوفان ہے بجلی پانی گیس پہلے تو غائب اور مل بھی رہی ہے تو بجلی تیس فیصد اضافہ سے۔ گیس کا بھی یہی عالم ہے۔ پانی تو اختیا ر سے باہر ہے پھر بھی کراچی مافیہ نے پانی سے بھی خوب کمایا۔ منی لانڈرنگ کا کیا کہنا کسی گھر سے پانچ ارب کسی کی لانچ سے دو ارب اور ایان علی سے لاکھوں ڈالر نکلے مگر ابھی تک فرد جرم عائد نہ ہوئی سزا تو بہت دور ہے۔
سیلز ٹیکس ود ہولڈنگ ٹیکس یہ سب عوام کو لوٹنے اور برباد کرنے کا ایجنڈا ہے۔ جو لوگ بیرون ملک کام کرتے ہیں ان کے جانے پر ائرپورٹ ٹیکس بڑھادیا گیا ان کے آنے پر ٹیکس لگا دیا گیا، موبائل پر ٪25 اور بڑھنے کی اطلاع تھی جوکہ چیف جسٹس کے حکم پر کم کر دیا گیا ہے، مگر عوام کہاں ہیں کیوں کہ کوئی ان کی لیڈری کرنے پر آمادہ نہیں۔ ہوشیار یہ سوچتے ہیں کہ حکومت گرانے سے کیا فائدہ ہوگا موجودہ صورتحال تو مال کمانے کے لیے تو بہت ساز گار ہے ایوب خان مرحوم کے بعد جو طوفان مچا ملک دو لخت ہو گیا آخر کار فوجی حکمران ہی نے ایک بار پھر ضیاالحق مرحوم کے نام سے ملک کو سنبھالا دیا مرحوم دین دار آدمی تھے انہوں نے پاکستان اور اس کے اسلامی تشخص کے لئے بہت کام کیا مگر سیاست دانوں کے فریب میں آ کر دیر کرتے رہے اور اب اسلامی نظام نہ لاسکے۔ اب بہت دیر ہوگئی تھی دشمن ایک بار پھر حاوی ہوگیا۔ کیوں کہ دشمن کواسلام دشمنی کی وجہ سےپاکستان کی ترقی اور استحکام گوارہ نا تھا۔
پاکستان کیوں اور کیسے بنا اور کون خوش تھا اور کون نا خوش یہ سب زیر بحث لانا بے کار۔ یہ تو نظر آ رہا ہے کہ ایک غیر مرئی قوت پاکستان کی تباہی کے درپہ ہے اس کو فوج ہی ایک قوت نظر آتی ہے جو ہر مرتبہ پاکستان کو بچانے کے لئے سینہ سپر ہو جاتی ہے لہذا اب اس قوت کے آلہ کار فوج کو بد نام کر نے کے لئے کوئی موقع ضائع نہیں کرتے، پارلیمنٹ میں فوج کیخلاف زہر الود تقاریر کس کو یاد نہیں یہ تو حقیقت ہے کہ دشمنون کو پاکستان کا وجود ہی پسند نہیں ہے، پھر اسلامی پاکستان تو ہرگز قبول نہیں ہے۔ بقول فیصل رضا عابدی یہ گھس بیٹھئے را کے ایجنڈ پاکستان کی تباہی کے لئے ہما وقت کوشاں ہے۔
چوہدری نثار نے پاکستان کی سیکیورٹی کے لئے دہشت گردی کیخلاف تمام تدابیر کا ذکر کیا مگر گڈ گورننس کے لئے ان گھس بیٹھیوں کے لئے کچھ نہ بولے یہ اپنی طرف سے پاکستان میں خانہ جنگی کا طوفان پیداکرنے کی حکمت عملی پر پوری طرح کوشاں ہیں قوانین کی بے انصافی (اربوں روپے کی گیس چوری پر یہ کہا گیا کہ ان پر کوئی قانون لاگو نہیں ہے) بھاری ٹیکسوں کا نفاذ یہ وہ حکمت عملی ہےجس سے عوام کو کشت خون کے لئے با ہر لانا آسان ہے جب یہ سنامی اُٹھ جائے گا تو کوئی طاقت اسے روک نہیں سکتی جوبھی قانون بنایا جاتا ہے مجرموں کو تحفظ ملتا ہے بے قصور پکڑا جاتا ہے رشوت کا بازار گرم ہے ایک طرف کسی کی چالیس کھانوں سے ضیافت ہے اور اسی شہر میں پانچ بچوں کی ماں فاقہ زدگی سے مجبور ہو کر اجتماعی خودکشی کر لیتی ہے۔ ماسٹر مائنڈ اپنی حکمت عملی سے پرندوں تک کو حملہ آ ور بنا دیتا ہے شاید الفرڈ ہیچکاک کی فلم دی برڈآپ کو یاد ہوگی۔ ایک طبقہ پاکستان کو تباہ کرنا چاہتا ہے اور عوام پر اتنا بوجھ ڈال رہا ہے کہ وہ کسی بھی راست اقدام کی طرف چل پڑے۔
اسمبلی میں حلف برداری کی تقریب ہو چکی ہے ابھی وزیراعظم کا انتخاب ہونا باقی ہے۔ جس کسی کے ہاتھ میں اختیار اور طاقت ہو ان سے دست بستہ عرض ہے کہ گڈ گورننس نافذ کریں انصاف دیں بھاری ٹیکسوں سے نجات دلائیں۔ اور خصوصی طور پر ملک اور قوم کو آئی ایم ایف کی دست برد سے محفوظ رکھیں۔ مرحوم ضیاالحق نے بھی اسلامی نظام نافذ کرنے میں بہت دیر کر دی تھی آ پ سے گزارش ہے کہ خدارا کچھ کیجئے۔ ایسا نہ ہو کہ پھر دیر ہوجائے۔