1. ہوم
  2. کالمز
  3. سید حسین عباس
  4. بھارت میں نئی تحریک آزادی

بھارت میں نئی تحریک آزادی

2019 کے الیکشن میں جب الیکٹرانک ووٹنگ مشین (ای وی ایم) کا استعمال کرکے بھارتی عوام کے مینڈیٹ پر ڈاکہ مارا گیا توعوام نے احتجاج کیا۔ اس وجہ سے بہت سی باتیں سامنے آئیں۔ کہ بھارت کا میڈیا بھی سرکار کے گن گاتا رہتا ہے۔ اللہ رب العزت کا شکر گزار ہونا چاہیے کہ دبے ہوئے لوگوں کو سوشل میڈیا کے ذریعے آواز مل گئی اور اپنی بات دوسروں تک پہنچانا آسان ہوگیا۔ بہرحال میرے لیے یہ بات بہت حیران کن ہے کہ بھارت کی آبادی کا 85% فیصد غریب عوام ہے اور ساڑھے تین فیصد براہمن ہے۔

مسلمان 12% فیصد۔ باقی عِیسائی اور دیگر مذاہب کے لوگ ہیں۔ اس براہمن نے ساڑھے تین فیصد ہونے کے باوجود 85% کواپنا غلام بنا رکھا ہے۔ براہمن دو ہزار سال پہلے آریائی (نسل) شناخت کیساتھ بھارت میں داخل ہوئے۔ انہوں نے بھارت کی سادہ اور معصوم عوام کو بیوقوف بنا کر غلام بنا لیا۔ انہوں نے پچاسی فیصد آبادی کے کوڈ آف لائف اپنی مرضی اور فائدے کیلئےمقرر کیئے۔ کیونکہ یہ بیچارے سادہ لوح افراد تھے۔

برہمن راجہ بن گیا اور یہ غریب لوگ پرجا (محکوم) قرار پائے برہمن نے انکو ہندو کا نام دیا جبکہ برہمن مذھب کی کتابوں میں ہندو کا لفظ ہی نہیں ہے۔ یہ لوگ گوتم بدھ کے ماننے والے تھے۔ برہمنوں نے ان پر قبضہ کرکے اپنا راج پاٹ سجا لیا اور انہی کے ذریعہ سےبودھوں پر حملہ کرا کر انکو بھارت سے نکال دیا اور یہ ان پڑھ لوگ براہمن کی غلامی کو انجوائے کرنے لگے۔ کیونکہ انکی زندگی کھانے پینے اور سونے(نیند) شائد مرد عورت کے فطری تقاضوں کے علاوہ کچھ نہ تھی۔

برہمن نے (Divide and rule) بانٹو اور حکومت کرو۔ کے مطابق اس عوام الناس کو چھ ہزار ذاتوں میں بانٹ دیا۔ کیونکہ چھوٹے گروپوں کوآپس میں لڑوانا اور کنٹرول کرنا آ سان ہوتا ہے۔ اوپر کی چار ذاتوں کو برہمن نے اس طرح بتایا۔ براہمن (حکمران) چھتری (فوجی) ویش (تاجر) شودر (نچلے درجہ کے کام کرنے والے۔ جھاڑو اور گندگی سے نمٹنے والے) جب انگریز آیا تو انہوں نے یہ تعارف دیا کہ ایک قوم مسلمان ہے اور دوسری ہندو (برہمن اور انکے غلام) دو ہی قومیں آباد ہیں۔

پچاسی فیصد غریب عوام کی تو کوئی آواز ہی نہیں تھی حلانکہ بھارت کے آئین میں پہلے ہی صفحے پر پہلی لائن میں لکھا ہے انڈیا یعنی بھارت۔ اسکا نام ہندوستان تو باہرسے آنے والے ایرانیوں نے دیا مورخین کا کہنا ہے کہ یہ نام وہ بطور گالی استعمال کرتے تھے۔ ساڑھے تین فیصد برہمن نے مردم شماری میں عوام الناس کو اپنی طرف سے مذہب کے کالم میں (عوام الناس کی مرضی کے بغیر) ہندو لکھ دیا۔ انکے ایک بڑے لیڈرڈاکٹر وامن میشرام کا کہنا ہے کہ جب 14 اگست 1947 میں بھارت کا بٹوارہ ہوا تو انگریز بدیسی (غیر ملکی) چلا گیا اور برہمن بدیسی نے اپنا قبضہ قائم رکھا اور ہم پچاسی فیصد دھرتی کے سپوت تو اب بھی غلام ہیں۔

ڈاکٹروامن میشرام کا کہنا ہےکہ برہمن کا ڈی این اے بھارتی نہیں ہے اور ظلم یہ ہے کہ ساڑھے تین فیصد کا بدیسی پچاسی فیصد (Son of soil) پر حکومت کر رہا ہے۔ اسمبلی میں ہمارے آدمی الیکٹ ہو کر جاتے ہیں مگر انکو اسمبلی میں بولنے کا اختیار نہیں ہے۔

ہمارے بچوں کو پڑھنے نہیں دیتے اور اگر وہ اپنے پیسوں سے پڑھ لکھ کر قابل ہو جائیں تو نوکری نہیں دیتے موجودہ حکومت نے جانوروں کی شمار تو کی ہے لیکن عوام کی مردم شماری پر آمادہ نہیں ہے وجہ یہ ہے کہ پچاسی فیصد عوام مردم شماری کی تعداد میں بڑھ بھی سکتی ہے یہ پچاسی فیصد عوام پر اپنا کلچر مذہب تھوپتے ہیں۔ بھارت میں جو بھی دنگے اور فساد ہوتے ہیں برہمن کا ہاتھ ہوتا ہے۔ یہ اصل میں یہودی ہے۔ ابراھیمؑ کے حوالے سے اپنے آپ کو براہمن کہتا ہے۔ DNA اپنی جگہ۔ عادات، چالاکی اور مکروفریب کی وجہ سے بھی اسکی نسلی شناخت ہو سکتی ہے۔

ڈاکٹر وامن میشرام کی صدارت میں (بہوجن مکتی مورچہ) بھارت کی تمام شناختوں کو یکجا کیا ہےاسمیں بھارت کی تمام ذاتوں بشمول مسلمان سکھ عیِسائی اور دیگر مذاہب کے افراد شامل ہیں اور اس طرح وہ اپنے مشترکہ دشمن سے نمٹ سکتے ہیں۔ بھارت سے پاکستان کی علیحدگی کے وقت براہمن نے سکھوں کو بھی ہندووں کے ایک فرقہ کی شناخت دی تھی اور انہوں نے ہی مسلمانوں کے قتل عام پر آمادہ کیا تھا۔ ساڑھے تین فیصدبراہمنوں کی سیاست میں چار بڑی پارٹیاں ہیں۔

پچاسی فیصد عوام ان کے کہنے پر ہمہ وقت خون خرابہ کیلئے تیّار رہتی ہے۔ ڈاکٹر وامن میشرام کہتے ہیں کہ ہندو کہنے پر براہمن طاقتور ہوتا ہے۔ جبکہ جنکو براہمن ہندو کہتا ہے وہ ہزاروں سال سے براہمن کی غلامی میں برباد ہیں۔ بہوجن مکتی مورچہ ان سب کو سمجھا رہا ہے۔ کہ حقائق کیا ہیں۔ یہ مسلمان بھی ہمارے بھائی ہیں جو براہمن جاتی کے ظلم اور ذلّت سے تنگ آ کر اسلام کی پناہ میں چلےگئے۔ دنیا میں کسی ہندو دھرم کا وجودنہیں ہے۔

ڈاکٹروامن میشرام کے بہو مت مکتی مورچہ کے ساتھ مولانا خلیل سجّاد نعمانی پاپوفرنٹ آف انڈیا اورنگ آباد سے کہہ رہے تھے کہ آج ہم براہمن کیخلاف متحد ہو گئے ہیں اور جان گئے ہیں کہ ساڑھے تین فیصد براہمن اقلیّت میں ہے اور ہم اکثریت میں ہیں اور ہمارا عزم ہے کہ ہم اپنی جنتا (عوام) کو بھوک اور خوف سے آزاد کرکے رہیں گے۔ بلا شبہ دو ہزار سالوں سے اس براہمن جاتی نے بھارت کی سادہ آبادی کو بیوقوف بنایا اور بہت ظلم کیااور آج تک جاری ہے۔

بابا صاحب امبیڈکرنچلی ذات کے پچاسی فیصد افراد کے ایک بڑے لیڈر تھے اور بھارت کا آئین انہوں نے ہی لکھا تھا۔ 1932-1933 میں تیسری راونڈ ٹیبل کانفرنس میں انہوں نےبڑی طویل تقریر کی تھی اور برطانیہ نےمان لیا تھا کہ جنکو براہمن نچلی ذات کہتے ہیں وہ ہندو نہیں ہیں۔

باباصاحب امبیڈکرنے جب یہ منوا لیا تھا کہ یہ پچاسی فیصد

(SC/ST/OBC) Schedule Cast/ Schedule Tribes/Other Backward Class (ہندو نہیں ہیں بلکہ انکی قومیت ہندوئوں سے الگ ہے۔ تو دوسری راونڈ ٹیبل کانفرنس سے پہلےگاندھی نے مسلم لیگی قائدین کو ایک سادہ کاغذ پر دستخط کرکے دیا اور کہا کہ تم اپنے جو مطالبات جوچاہو لکھ لومگر کل کی کانفرنس میں ذات پات کی اونچ نیچ کی نفی نہ کرنا۔ موؒلانا محمّد علی جوہر اور دیگر نے بہ بانگ دہل کہا کہ اسلام میں سب انسان برابر ہیں اور ہم تمہارا ساتھ نہیں دے سکتے۔

ابھی کے الیکشن میں نریندر مودی نے EVM کے ذریعہ جو ڈاکہ ڈالا ہے اسکی کوئی مثال نہیں ملتی۔ حلانکہ نریندرمودی خود بھی(OBC) بیکورڈ کلاس کا تیلی ہےمگر اپنوں کے ساتھ اس کی زیادتی۔ بھارت کی کہانی بہت طویل ہے۔ انشااللہ پھر کبھی لکھوں گا۔ فی الحال تو سب اس کوشش میں ہیں کہ الیکشن دوبارہ ہوں مگر بغیر ای وی ایم کے۔ بیلٹ پیپر کے ذریعہ۔ اللہ ان کو کامیاب کرے۔ اگر کسی نے لکھا ہے کہ نریندر مودی بھارت کو توڑنے والا ہے تو کوئی سبب ضرور ہے۔ ڈاکٹروامن میشرام کا ایک لنک دے رہا ہوں کہ آپ پیچیدگی سمجھ سکیں۔ https: //youtu.be/O1iAfwgGCOg

سید حسین عباس

Syed Haseen Abbas

سید حَسین عبّاس مدنی تعلیم ۔ایم ۔اے۔ اسلامیات۔ الیکٹرانکس ٹیلیکام ،سابق ریڈیو آفیسر عرصہ پچیس سال سمندر نوردی میں گذارا، دنیا کے گرد تین چکر لگائے امام شامل چیچنیا کے مشہور مجاہد کی زندگی پر ایک کتاب روزنامہ ’امّت‘ کیلیئے ترجمہ کی جو سنہ ۲۰۰۰ اگست سے اکتوبر ۲۰۰۰ تک ۹۰ اقساط میں چھپی۔