ہمارے ملک میں بہت سی باتیں بڑی عجیب ہیں۔ پاکستان اسلام کے نام پر بنا تھا۔ جبکہ اربابِ اختیار و اقتدار کی ہمیشہ کوشش یہ ہوتی ہے۔ کہ اسکے قوانین میں کچھ اس طرح ردوبدل کیا جائے۔ کہ اسلامی تشخّص ختم کر کے قانون کو پروگریسیو بنا دیا جائے۔ ابھی عدالت کا ایک تازہ فیصلہ آیا ہے کہ مرد کو ایک اور شادی کیلئے بیوی سے اجازت کا پابند کیا گیا تھا (عائلی قوانین) اب مزید اضافہ یہ ہے کہ اگر بیوی اجازت دے بھی دے تب مصالحتی کونسل سے بھی اجازت لینی ہوگی بصورتِ دیگر پانچ ہزار روپے جرمانہ اور ایک ماہ کی قید بھی بھگتنی پڑے گی۔ اب سوچیئے کہ یہ عدالتی فیصلہ قرآن اور سنّت سے متصادم ہے یا نہیں؟ اگر کوئی قانون قرآن کے متوازی ہو تو شرک اور اگر متصادم ہو تو ارتداد۔ اسرائیل بھی ایک نظریاتی ملک کے طور پر قائم ہوا تو اسکے پہلے وزیر آعظم سے پوچھا گیا کہ اس ملک کا قانون کیا ہو گا۔ اسنے جواب دیا کہ ہمیں توراۃ کی موجودگی میں کسی قانون اور آئین کی ضرورت نہیں ہے۔ ہم مسلمان ہیں اور ہمارے ہاں آئین کی ضرورت پڑ گئی۔ اور ایک پر مذاق اضافہ یہ کیا گیا کہ کوئی قانون جو قرآن و سنّت سے متصادم ہو اسکی کوئی حیثیت نہیں ہوگی۔ ذرا مطالعہ تو کریں کہ کتنے قوانین اس زمرے میں آتے ہیں؟ عدالت کا حالیہ فیصلہ کس روشنی میں کیا گیا؟ اسی قسم کی ضرورت کی بنیاد پر تسلیمہ نسرین نے قرآن کے دوبارہ لکھنے کا مطالبہ کیا تھا۔ جس پر دنیائے اسلام میں طوفان آ گیا تھا اور تسلیمہ نسرین کو چھپنے کی جگہ نہیں تھی آخر کار وہ بھارت چلی گئی۔ کیا عدالت اپنے اس فیصلے پر مطمئن ہے، اور اس بات پر قائم ہے کہ قرآن کی موجودگی میں اس طرح کی ترمیم کی ضرورت تھی۔ عدالت کس قسم کے جرم کی مرتکب ہوئی ہے فاضل قانون دانوں کو اس پر آواز اٹھانا چاہیئے۔
شادی کرنےکا عمل صرف جنسی آسودگی حاصل کرنے کیلئے نہیں ہوتا۔ بلکہ اس کا مقصد ایک دوسرے کو سہارا دینا اور معاشرے کو بگاڑ سے محفوظ رکھنا ہوتا ہے۔ اور درود شریف کی دعا کیمطابق اولاد میں برکت کا حصول بھی اسکا بڑا مقصد ہوتا ہے۔ جب قرآن میں اللہ تعالیٰ نے شادیاں کرنے کی ترغیب دی ہے۔ تو اسپر کوئی اور قانون لانا کیا معنٰی رکھتا ہے۔
ایک طرف وزیرِاعظم صاحب ریاست مدینہ کی بات کرتے ہیں۔ دوسری طرف عدالت کے اس فیصلے پر خاموشی ہے۔ اس معاملے پر کس کس کی منافقت کو اجاگر کیا جائے۔
۱۹۷۶ میں تنزانیہ میں ایک حدیث کی روشنی میں (زنا سے روزی کم ہو جاتی ہے) تنزانیہ کی پارلیمان نے یہ فیصلہ کیا کہ تمام غیر شادی شدہ افراد کی شادی کا ایک وقت دے دیا گیا۔ اور جو افراد خود شادی نہ کر سکیں گے حکومت انکی شادی اپنے طور پر اپنی صوابدید کے مطابق کر دے گی۔ ان دنوں میں تنزانیہ میں بوہری مسلمانوں کی بڑی تعداد تھی۔ وہ یہ پریشان تھے کہ اگر انکی بیٹی کوبوہری دولہا میسَر نہ آیا تو حکومت کسی بھی افریقی سے شادی کردے گی لِہٰذا انہوں نے اپنے لوگوں کی تین تین اور چارچار عورتوں سے شادیاں کر دیں۔ حتٰی کہ بیواؤں کی بھی شادیاں کردی گئیں۔
ہماری حکومت کو سوچنا چاہیئے۔ کہ ہماری اقتصادی بد حالی ہمارے ہاں کے جنسی جرائم کا شاخسانہ تو نہیں۔ نہ کہ ہمارے ہاں شادی میں رکاوٹ ڈالنے کیلئےعدالت کو میدان میں آنا پڑا۔
دراصل ہماری سوچ عظمت کے میناروں کو نہیں چھو سکتی بلکہ ہمیشہ گندگی ہے اور گھٹیا پن ہمارا میعار ہے۔ اگر شادی آسان اور گناہ مشکل ہو تو ہمیں خوشحالی سے کوئی نہیں روک سکتا۔ ہماری حکومت کےارکان کو محتاط رہنا چاہیئے۔ اپنی سیاست سے کام رکھیں۔ اور دین میں زبر، زیر، پیش، نہ بڑھانے کی کوشش کریں نہ گھٹانے کی جرات کریں۔ مغرب سے عقل کا ادھار لینا بھی تباہی کا سبب ہوگا۔
ہماری پارلیمنٹ شائد دنیا کی انوکھی پارلیمنٹ ہوگی جس میں تعلیم کا کوئی معیار نہیں ہے۔ اور ہماری عدالتیں اس مسئلہ میں کوئی سو موٹو نہیں لیتیں کہ قوم کی قسمت کا فیصلہ جاہلوں کے ہاتھ میں نہیں دیا جا سکتا۔ باوجود اسکے کہ ہم اچھّی طرح جانتے ہیں کہ مغربی دنیا نے اسلامی ملکوں کو کس طرح برباد کیا ہے۔ اور آگے ان کا ٹارگٹ پاکستان ہے۔ یہ تو اللہ رب العزّت کا احسان ہے کہ ہم ابھی تک محفوظ ہیں۔
مغرب کی بیہودہ عقل کی وجہ سے بھارت میں مردوں کی تعداد زیادہ ہے اور عورتیں کم ہیں۔ (یہ الٹرا ساؤنڈ کا کمال ہے، کوئی نہیں چاہتا کہ اسکے گھر لڑکی پیدا ہو) اسی وجہ سے جتنے جنسی جرائم بھارت میں ہوتے ہیں شائد ہی کہیں اور ایسا ہوتا ہو۔
انسان کو اپنی عقل نہیں لڑانی چاہیئے۔ اللہ کے کام اللہ ہی جانے اللہ اپنے ہر کام میں بہتر توازن رکھنے والا ہے۔
ایک روز انشااللہ ضرور آئے گا جب عوام جاہلوں کو پارلیمان سے نکال باہر کریں گے۔ اور اللہ کے احکام کا بول بالا ہو گا۔ اور انشااللہ خوشحالی ہمارا مقدّر ہو گا۔