فوج ایک تربیت یافتہ ادارہ ہوتا ہے۔ یہاں ناخواندگی کا کوئی سوال نہیں پیدا ہوتا تمام متعلقہ افراد علمی استعداد کے ساتھ ساتھ ذھنی اور جسمانی نشو نما بھی مثالی رکھتے ہیں۔ زمانہ جنگ میں جسطرح مستعد اور ہوش مندی کے حامل ہوتے ہیں اسی طرح زمانہ امن کی ضروریات کو سمجھتے ہیں اور ہنگامی حالات میں مشکلات سے نمٹنے کی اعلیٰ صلاحیت رکھتے ہیں سیلاب ہویا زلزلہ ہم نے ان کو خدمت کرتے دیکھا اور اکثر اپنی جان کی قربانی سے بھی دریغ نہیں کرتے۔ ۔
پاسنگ آئوٹ پریڈ میں یہ حلف اٹھاتے ہیں کہ ملک کو درپیش ہر خطرے میں یہ حفاظت کیلئے سینہ سپر ہو جائیں گے۔ خواہ خطرہ یا حملے بیرونی ہو یا اندرونی۔ آج کی دنیا بڑی مختلف ہے حکومتیں اپنی دشمنیاں چوری چھپے نمٹاتی ہیں اور دوسرے ممالک میں اپنے ایجنٹ بھیج کر تباہی اور بربادی کا سامان کرتے رہتے ہیں اسمیں چاق و چوبند حکومتی اداروں میں فوج اور اس سے منسلک ادارے ہی مقابلہ کرتے نظرآتے ہیں۔
دشمنوں کی کوشش ہوتی ہے کہ دشمن ملک کے افراد کو خرید لیں اور اندرونی طور پر سہولت کاروں کو پیدا کریں۔ بعض ممالک ایسے بھی ہوسکتے ہیں جہاں قیادتیں شہریت اور دولت کے وعدوں پر پورا ملک دینے کو تیار ہوجاتی ہیں۔ عوام الناس انکی نظر میں بھیڑ بکری سے زیادہ نہیں ہوتے لہذا کسی ناگہانی آفت یا بیماری آزاری سے مرنے والے لوگوں کا تذکرہ ہی کیا۔
صوبوں میں سالہا سال سے بچوں کی اموات قحط سالی پانی کا ناپید ہونا انکے لئے قطعی فکرمندی کی بات نہیں ہوتی۔ پارلیمنٹ میں اکثر ممالک مثال کے طور پر ملیشیا، انڈونیشیا اگر چہ کہ یہ مغرب کے ترقی یافتہ ممالک کے برابر نہیں ہیں مگر انمیں لیڈران ہمیشہ بہت پڑھے لکھے اور پی ایچ ڈی افراد ہوتے ہیں۔
اس دنیا میں ویت نام ایک ایسے مثال ہے جسنے 36 سال سے زیادہ آزادی کیلئے جنگوں کا سامنا کیا۔ پہلے فرانس قابض ہوا پھر فرانس سے آزادی دلوانے کیلئے روس آگیا پھر روس سے آزاد کرانے کیلئے، امریکہ سرکار نے چھلانگ ماردی اور فرانسیسی افواج سے لڑنے والے ویت کانگ نے زمین میں سرنگیں کھودکر پورا شہر زیر زمین کردیا اور ایک مستقل حکمت عملی کے مطابق اسکول ہسپتال قائم کئے گئے بچے اسکولوں میں پڑھتے بھی رہے مائیں بچوں کو جنم دیتی رہیں اور سامراج نے ابتر مظالم کی انتہا کردی۔ مگر جہد مسلسل سے آخر کار آج ویت نام ایک آزاد ملک ہے جب سامراج آیا تو محب وطن افرادسیسہ پلائی دیوار کی طرح ڈٹ گئے اور سامراجی تسلط کو روک دیا اور ویت نام شمالی اور جنوبی میں تقسیم ہوگیا۔ جنوبی میں خوف و لالچ سے ملک کے اندر ہی سہولت کاروجود میں آئے مگر شمالی ویت نام نے اپنے ہم وطنوں سے بھی مقابلہ کیا اورآخر دشمن کو شکست دی اور ویت نام شمالی اور جنوبی صرف ویت نام ہوگیا۔
دشمن کی یہی حکمت عملی کوریا میں ہوئی اور محب وطن افراد نے یہاں بھی دیوارکھڑی کردی اور شمالی اور جنوبی کوریا نے جنم لیا۔ آج شمالی کوریا اتنا طاقتور ہوگیا ہے کہ وہ کسی سے ڈرتا نہیں اور اپنی سوچ سے کام لیتا ہے۔
جرمنی بھی دیوارِ برلن سے تقسیم تھا آخر انہوں نے بھی دشمن پر قابو پالیا۔
مگر دنیا میں ایسے ممالک بھی ہیں جہاں فوجی قیادت کو مطعون کیا جاتا ہے اور انکی پارلیمنٹ کا کوئی معیار نہیں ہے جمہوریت کے مقدس قانوں کے تحت احمقوں اور انپڑھوں کے عیش ہیں پیسوں کے زور پر الیکشن جیتتے ہیں اور انکے ووٹر بھی اکثریت میں جاہل ہیں اپنے تھوڑے سے ذاتی فائدہ کے لئے ملک بیجنے پر آمادہ۔ (اپنی بوٹی کہ لیے دوسرےکابکرا ماردیتے ہیں)۔ سیاسی لیڈر کی بصارت کا یہ عالم ہے کہ وہ سمجھتا ہے کہ یہ ملک چلنے والا نہیں ہے لہذا اپنا نقصان کیوں کرو جوبھی مل سکے اٹھالے جائو بعد میں اپنی اولاد ہی کے کام آئے گا۔
زندگی کی بے بضاعتی سے ہے خبر ہمیشہ زندہ رہنے کی امید پر ہر چیز کا سودا کرنے کو تیار نام نہاد دانشوروں کی فوج ہے یہ بھی قلم کاری میں اس بات کا خیال رکھتے ہیں کہ عوام کو بتانا ہے کہ حب الوطنی ایک احمقانہ خیال ہے اور تم جس آخرت کی امید میں شرافت کو اختیار کئے ہوئے ہو ایک روز پچھتائوگے۔
طرح طرح کے ڈرامے اور طرح طرح کے ڈرامائی ملبوسات اسی طرح چیزوں پر طرح طرح کا میک آپ ہے، عوام کو گلیمر دکھانے کے لئے تھری پیس سوٹ ہی استعمال کرتے ہیں۔ کسی ادارے کا وجود باقی نہیں رہ گیا سیاسی گروہ میں زیادہ تر جرائم پیشہ خود غرض لوگ چھوٹے لوگوں سے جرائم کرا کر فائدہ بٹورتے رہے۔
اگر فوجی اداروں کی طرف سے پکڑ دھکڑ اور پوچھ گچھ ہوئی تو ناراض کیونکہ دوسرے دھاڑی والے مزدوروں کی طرح فوج کو بھی اپنے آپ سے نیچے دیکھتے ہیں اور فوج سے مطالبہ ہے کہ وہ بیرک میں رہے اور انہیں انکے کام میں نہ روکے۔
مملکت میں ایک حفاظتی دیوار عدلیہ بھی ہوتی رہی ہے اور بد دیانت یا ظالم اشرافیہ کو کٹہرے میں کھڑا کردیا کرتی تھی۔ اسلامی تاریخ میں ایسے ہے شمار واقعات ہیں۔ پس ماندہ ممالک میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کو خوفزدہ کردیا جاتا ہے جتنے لوگ بد دیانتوں کو لگام دینے میں کوشش کرتے ہین انہیں قتل کر دیا جاتا ہےگواہی ناپید ہوجاتی ہے اور کہا جاتا ہے کہ یہ کیسا نطام عمل ہے جہان گواہ میسر نہیں ہے مجرم کیسے پکڑا جائے گا۔
اسلام نے یہ کہہ کر کہ "تمہاری زندگی قصاص میں ہے تاکہ تم ڈرو" گواہ ناپید ہونے اور عدالت کے ساتھ کھڑے ہونے والے افراد کو اسطرح کھڑا کر دیا ہے کہ مجال ہے کسی کی جو عدالتی فیصلے پر دست درازی کرے اور گواہوں کو سرعام قتل کرے۔ عدالت انصاف کا اعلان کردے گی اوراگر قاتل قانون کی گرفت سے باہر ہو تومقتول کے خاندان پر قاتل کا خون جائزقرار دےگی۔ پھر آپ دیکھئے کسی پولیس یا سکیورٹی کے ہجوم کی ضرورت نہیں ہوگی۔ انصاف میں دیر نہیں لگے گی کہ قاتل زمین پر پڑا ہوگا۔ اور یہ خبر بھی نہیں آئے گی اس شخص نے دس اور افراد کو قتل کیا تھا یہی وجہ ہے کہ اشرافیہ اگر مجرموں میں سے ہو تو قصاص کا قانون کیسے پاس ہوسکتا ہے۔
فوج پر ہمیشہ لعن طعن ہوتی ہے مگر ذرا سوچئے کہ ایوب خان صاحب کے مارشل لاء میں قوم نے سکھ کا سانس لیا یہ سب اشرافیہ کا ڈھونگ ہے کہ فوج نے یہ کیا اور وہ کیا جب دشمن نے پاکستان کو آگے بڑھتے دیکھا تو کابینہ میں اپنے سہولت کار داخل کئے اور اسطرح ملک دولخت کرنے میں آسانی ہوئی مگر آج 45 سال بعد یہ الزام بھی فوج پر کہ فوج نے ملک توڑدیا۔
جب سہولت کاری کا کاروبار بڑھاتو چھوٹے بڑے سب نے تنخواہ دار سہولت کاری شروع کردی علامہ اقبال کی دانش وری پر بھی تنقید ہوئی اور انکی جمہوریت مخالفت کو حقارت کی نظر سے دیکھا جانے لگا۔
جبکہ حقیقت یہ ہے کہ فوج نے تو کچھ نہ کچھ کیا ہی ہے روس افغان جنگ میں فوجی حکمت عملی سے ہی یہ ملک سلامت ہے اگر اس وقت کیں سہولت کاروں کی یہ تعداد ہوتی تو ہم آج اس ملک میں آزاد نہ بیٹھے ہوتے۔
اس تمام کے بعد یہ بات اچھی طرح سمجھ میں آجاتی ہے کہ دوسرے کی زبان ثقافت اور طرز حکومت ہمیں ختم کر کے ہی دم لے گی اپنی زبان اپنا طرز حکومت (خلافت) اور اپنی پاکیزہ ثقافت کو اختیار کروگے تو قیامت تک زندہ رہو گے ورنہ تمہاری داستاں بھی نہ ہوگی داستانوں میں۔