عرصہ دراز سے ہمارے ملک میں جنسی جرائم کا گراف مستقل بڑھ رہا ہے۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم نے ہمیشہ مغربی ممالک کی دانشوری کو بڑی اہمیت دی ہے۔ انکی شیطانی ذہانت ہمیشہ فطرت کے خلاف ہو تی ہے۔ انکی نام نہاد مہذب دنیا میں آبادی کے اضافے کو روکنا انسانیت کی بڑی خدمت ہے۔ انکا پراپوگینڈا اسقدر پھیلایا گیا ہے کہ ہمارے ہاں بھی زبان زدعام ہے کہ زیادہ بچّے ہونگے تو کھلائو گے کہاں سے؟ آبادی میں اضافے کو روکنے کے بہت سے طریقے ہیں۔ اسمیں سے ایک طریقہ شادی میں تاخیر بھی ہے۔ اس وجہ سے ہمارے ہاں کم عمری کی شادی کو جہالت سمجھا جاتا ہے۔ جبکہ یہ اسلام کے عَین مطابق ہے۔ مغرب میں اللہ پر بھروسے کا کوئی تصوّر نہیں ہے۔ لِہٰذا شادی سے پہلے اسٹیبلش ہونا بہت ضروری ہوتا ہے۔ اور اس میں دیر لگتی ہے اس دوران آدمی جذبات سے مغلوب ہو کرنا جائز تشفّی کے راستے ڈونڈھتا ہے اور اس راہ پر چل پڑتاہے۔ کیونکہ اس راستے پر اسٹیبلش ہونے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ مگر یہ کام انگاروں پے چلنے کے مترادف ہے۔ لِہٰذا جنسی جرائم سرزد ہوتے ہیں اور چھپانے کیلئے زیادتی کے بعد قتل کی نوبت آجاتی ہے۔ اس سانحے کا کیا تدارک کیا جائے۔ حکومت کرنا بھی بہت مشکل کام ہے۔ نجانےکن کن مسائل کا سامنا ہوتا ہے۔ جسکا آدمی کی نجی زندگی میں خیال بھی نہیں آتا۔ بحیثیت مسلمان ہمیں اس کا حل اسلام ہی سے پوچھنا پڑے گا۔
اسلام کا جواب ہے کہ جب لڑکے اور لڑکی کو انکا جسم انکے بالغ ہونے کا سگنل دے دے تو ان کے والدین کو انکی شادی کی فکر کرنی چاہئیے۔ اب حکومتی سطح پر کیا ہونا چاہیئے؟ قانون بنا کر شادی کو آسان بنانا چاہیئے۔ اور نوجوان بچّوں کو عزّت دینااور احترام کرنا چاہیے۔ شادی میں غیرضروری اخراجات کی حوصلہ شکنی کی جانی چاہیئے۔ صحت مند معاشرے کیلئے ایک دوسرے کی عزّت اور احترام بہت ضروری ہے۔ فضول خرچی دکھاوہ اور غرور سے بچنا بہت اہم ہے۔
آج کل بچّوں کے آپس میں ملنے جلنے میں احتیاط نہیں کی جاتی۔ کھلا ڈلا ماحول پسند کیا جاتا ہے۔ اسی طرح بچّے بلوغت میں داخل ہو جاتے ہیں۔ ایک دوسرے میں دلچسپی کے زاویے بدل جاتے ہیں۔ سالہا سال ساتھ اٹھنے بیٹھتے اتنے قریب آجاتے ہیں تو مستقبل بھی پلان کرنے لگتے ہیں۔ یکایک معلوم ہوتا ہےکہ دونوں کے قبیلے اور ذاتیں مختلف ہیں۔ لِہٰذا یہ شادی نہیں ہو سکتی۔ بچّوں میں بھی والدین کی ضد، غرور، اور طَمطراق ہونے کی وجہ سے وہ بغاوت پر آمادہ ہو جاتے ہیں۔ اور چھپ چھپا کر شادی کرلیتے ہیں۔ اب غیرت کے نام پر(کاروکاری) مارنے اور مر جانے پر آمادہ ہو جا تے ہیں۔ یہ خبریں آئے دن میڈیا میں گونج رہی ہو تی ہیں۔
ہمہ وقت سنتے ہیں کہ یہ ملک اسلام کے نام پر بنایا گیا تھا۔ غور سے دیکھےاسمیں رہنےوالے کتنے مسلمان ہیں۔ اللہ کے رسولﷺ نے خطبہ حجۃالوداع میں فر مایا۔ (اے نوع انسان سن رکھو کہ تم سب کا رب ایک ہے۔ اور تم تمام ایک ہی اصل کی شاخیں ہو۔ اسلئے عربی کو عجمی پر اور عجمی کو عربی پر، سرخ کو سیاہ پر، اور سیاہ کو سرخ پر، کوئی فضیلت نہیں، مگر تقویٰ کے سبب) اسکی روشنی میں ذات پات قبیلوں کی برتری، اونچ نیچ، امیری غریبی کا کیا مقام ہے۔ ہماری عزّت کی بنیادصرف یہ ہے کے ہم اللہ سے کتنا ڈرتے ہیں۔ مگر ہم روز خبروں میں دیکھتے ہیں۔ کہ اپنے غرور اور تکبّر کی بنیاد پر پسند کی شادی کرنے والے جوڑوں کو قتل کر دیتے ہیں۔ یہ کیسے مسلمان ہیں اور انکو اللہ کے رسول ﷺسے کتنی مّحبت ہے۔
اگر پاکستان کو جرائم سے پاک کرنا ہے تو اللہ سے ڈرو اور اپنی نفی کر کے اللہ اور اسکے رسولﷺ کے حکم کے سامنے سر جھکادو۔ شادی کو آسان بناؤ۔ اور بچّوں کی شادیوں میں تاخیر نہ کرو۔ انکی مرضی کا خیال کرو۔ اور ہمیں اپنی زندگی اسلام کی روح کے مطابق گذارنی چاہیئے۔ اللہ ہمیں زمانہ کفر کے فخر اور غرور سے محفوظ رکھ۔ اور اسلام میں پورا کا پورا داخل فرما، آمین۔ ہمارے ملک اور معاشرے کوبد کاری اور قتل و غارتگری سے محفوظ رکھ۔