شرک ایک ایسا گناہ ہے جس کی معافی نہیں ہے اللہ تعالی قرآن میں فرماتا ہے (سورہ لقمان) اَئے بیٹے اللہ کے ساتھ کبھی شریک نہ کرنا۔ کہ شرک بہت بڑا ظلم ہے۔ شرک سے بچنے کا عمل جب ہی ہوسکتا ہے جب ہمیں اسکی پوری سمجھ ہو۔ ہم مسلمان ہیں، نماز، روزہ، حج، زکواۃ، کو عمل میں لاتے ہیں لیکن جہاں ہمارا واسطہ روز مرّہ کی زندگی میں سماجی اور معاشرتی معاملات سے پڑتا ہے۔ ہم ان مسائل میں اللہ کی مرضی کے خلاف عمل کرتے ہیں۔ ہمارے دل میں اللہ کے حکم کےمتوازی برادری کے احکام (رسم و رواج) پر بڑی سختی سے عمل کیا جا تا ہے۔ اللہ رب العزت کے حکم کے ساتھ کسی کو شامل کرنے کا عمل یا اس پر کسی اور رواج یا برادری کے حکم کو اہمیت دینا ہی تو شرک ہے۔ اللہ کے سوا کسی کا حکم ماننے کے لائق نھیں ہے۔ اللہ فرماتا ہے۔ (لوگواپنے پروردگار سے ڈرو جس نے تم کو ایک شخص سے پیدا کیا (یعنی اوّل) اس سے اسکا جوڑا بنایا، پھر ان دونوں سے کثرت سے مرد اور عورت پیدا کیئے۔ اور زمین پر پھیلا دیئے)۔ سب انسان برابر ہیں، کسی کو کسی پر فوقیت نہیں ہے۔ تم میں عزّت والا صرف وہ ہے جو اللہ سے ڈرتا ہے۔ آئے دن ہم سنتے ہیں کہ دو میاں بیوی کو انکے گھر میں قتل کر دیا گیا۔ بعد میں معلوم ہوتا ہے کہ محبّت کی شادی تھی۔ دونوں خاندانوں کی مرضی کے خلاف تھی غیرت کے نام پر قتل میں بھی عزّت کا سوال بتایا جاتا ہے۔ اگرچہ کے انہوں نے شادی ہی کی ہو۔ ہم اللہ کے ساتھ ساتھ دل کے اندر اللہ کی وحدانیت کے علاوہ بھی بہت سے بت رکھے ہوئے ہوتے ہیں اور معاشرتی اور سماجی معاملات کے فیصلے کرتے وقت ہم اللہ کے حکم کو پسِ پشت ڈالدیتے ہیں (نعوذبااللہ)۔ اور برادری میں اپنی عزّت بچانے کیلئے قتل جیسے گناہ کے مرتکب ہو جاتے ہیں۔ اب آپ ہی بتائیے کہ اس قسم کی سوچ رکھنے والا مسلمان کب رہا؟ اور جان بوجھ کر اللہ کے حکم کو نہ ماننا آدمی کو مرتد نہیں بنادیتا؟۔
اسی طرح ذات پات کی بنیاد پر انسانوں میں تفریق پیدا کرنا بھی بہت بڑا جرم ہے۔ اللہ فرماتا ہے کہ جس نے ایک انسان کاقتل کیا اس نے ساری انسانیت کا قتل کر دیا۔ ذات پات قَبیلے اور نسل اللہ نے اتنی بڑی آبادی میں شناخت کیلئے بنائی نہ کہ عزّت اور اونچ نیچ کیلئے۔ سب سے زیادہ عزّت صرف اللہ کی اطاعت میں ہے۔
جن معاشروں میں انسانوں کا احترام نہیں ہوتا اللہ ان کو باقی نہیں رکھتا اور وہ تباہی کے کنارے پہنچ جاتے ہیں۔ ہمارے ہاں عوام کی اکثریت غربت کی سطح سے نیچے ہے اسکی وجہ کیا ہے؟ بھارت میں پچّاسی فیصد آبادی غربت کی سطح سے نیچے ہے اور ذات (جاتی) پات کا چکّر چلا کر براہمن نے انہیں غلام بنا رکھّاہے اور ہندو کے نام پر دہشتگردی کرتے ہیں کہ غیر ہندوؤں کو روز قتل کر دیتے ہیں۔
مسلمانوں کیلئے یہ لمحہ فکریہ ہونا چاہئیے کہ اسلام میں پورے کے پورے داخل ہو جائیں۔ اور جن باتوں کو اللہ نے منع کیا ہے ان سے بچیں۔ ذات برادری کی بنیاد پر جھوٹی شان کیلئے قتل سے باز رہیں۔ کیا انھیں روز آخرت پر یقین نہیں ہے۔ ان کے ان اعمال پر اللہ انکے ساتھ کیا کرے گا۔ ہر بالغ مرد اور عورت کو اپنے جیون ساتھی کے انتخاب کا حق اللہ نے دیا ہے۔ مسلمان کیلئے جیون ساتھی مسلمان ہونا ضروری ہے۔
جہاں اس ملک میں دولت کی کرپشن نے ہمیں تباہ کیا ہے۔ سماجی اور معاشرتی معاملات میں بھی ہماری زیادتی اور بے ایمانی ہماری اخلاقی برائیوں کا سبب ہے۔ جسکی وجہ سے ملک کا یہ حال ہے۔
ہمارا تو مزاج ہی اور ہے۔ چوری کی حرام کمائی پر لوگ عزّت دار ہو جاتے ہیں۔ افسوس یہ کہ ان کیساتھ ارباب اختیار و اقتدار بھی نرم خوئی سے پیش آتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دونوں بڑے چور ڈھیٹ بنے ہوئے ہیں۔ دوسروں کو نا لائق اور نا اہل کہتے ہیں اپنے آپ کو چور نہیں کہتے۔ جس آدمی کو روز آخرت پر یقین ہو وہ تو لرز جایئگا۔ کیونکہ سفر آخرت کے شروع ہونے میں اب کتنا وقت رہ گیا ہے۔ مگر ان کو آنکھ بند ہونے کا یقین نہیں ہے۔
مسلمانوں اللہ کی رسّی کو مضبوط پکڑو اور (آپس میں جڑے رہو) متفرّق نہ ہو جائو۔