1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. سید محمد زاہد/
  4. فردوس گم گشتہ

فردوس گم گشتہ

اس شہر کا نام تھا، فردوس بریں۔ سائنسی ترقی کے سامنے دنیا بھر کی مشکلات سرنگوں ہوئیں تو انسان کی سب خواہشات بھی پوری ہوگئیں۔ چمکتا سورج اور روشن نیلا صاف آسمان، عالی عمارتیں، لوازم شاہانہ سے آراستہ اور ان کے شیشے جیسی شفاف رنگت کے سٹیل کے مینار، ابدیت کا استعارہ تھے۔ ان کے سامنے طاق کسریٰ و قصرِ نعمان سب ہیچ، دولت بے زوال کا احوال بیان سے باہر۔ باغات پھولوں سے لدے، آب و ہوا وہاں کی ایسی خوش گوار جیسے دائمی بہار۔ دن عید اور راتیں شب برات کی تجلی کو شرماتی تھیں۔

نیر اعظم جیسی کافوری شمعوں سے روشن قدیم سہانی گلیوں میں رات کو بھی میلہ لگا رہتا تھا، شب قدر کو وہاں قدر نہ تھی۔ عود سوز اور روشن لخلخوں کی بدولت فضا ہمیشہ معطر رہتی۔ دامن دولت کے زیر سایہ اس ترقی نے انسانیت کو صحت و تندرستی کا ایسا جامہ عنایت کیا کہ نہ پھٹے نہ میلا ہو۔ پر سکون چہرے کندھوں پر سجائے روشن طبع اور صاحب سلیقہ لوگ، اطمینان کی مکمل تصویر۔ انسان تو اپنے آغاز سے ہی اشرف المخلوقات ہے سائنسی فکر و سوچ اس کی ہم رکاب ہوئی تو وہ ایسے ایسے کام کر گیا کہ فرشتوں کی مجال نہیں۔

ہمیشہ جواں اور صحتمند رہنے والے یہ انسان نینو ٹیکنالوجی اور بائیو میڈیسن سے مستفیض ہو کر خوشگوار زندگی گزار رہے تھے۔ فکر و تردد سے ان کا دور دور تک واسطہ نہیں تھا۔ جنیاتی تبدیلیوں سے پیدا ہونے والا ہر انسان ناموری کی خواہش اور مال و دولت کے لالچ سے مستغنیٰ تھا۔ اس نے بیماریوں اور موت سے لڑتے ہوئے کچھ ایسے وصف بھی پیدا کر لیے جن کے سبب وہ ہمیشہ ہمیشہ زندہ رہنے پر قادر ہوگیا۔ قسمت بد پچھاڑ دی گئی، بیماری اور بڑھاپے سے اس نے جنگ جیتی، جرم پر چاروں قل پڑھ کر گناہ و ثواب کی تجہیز و تکفین کر دی اور تشدد و دشمنی کے بیج کا بھی ناس کر دیا۔

فردوس بریں میں یگ یگ سے جیوت لوگوں میں کوئی ایسا فرد نہیں تھا جس نے انسانیت کی وہ تذلیل دیکھی ہو جب انسان ناحق دند مچا کر ہزاروں کو قتل کر دیتا تھا، جب لوگ چھوٹے سے مفاد کے لیے پورے معاشرے کو تباہ کرنے پر تل جاتے تھے۔ بلکہ اکاس وہ اکلوتا شخص تھا جس نے کسی انسان کو بہت پہلے، اپنے بچپن میں، مرتے دیکھ تھا۔ اس کے علاوہ فردوس بریں میں کسی نے موت کا دیدار بھی نہیں کیا تھا۔

فردوس بریں کا سب سے بوڑھا یہ شخص جسے بوڑھا کہنا مناسب نہیں، شہر باسیوں کا مقبول ہیرو تھا۔

دائمی تجدید کی ٹیکنالوجی کی وجہ سے چار صد سالہ اکاس تیس کی دہائی کے اوائل میں دکھائی دیتا تھا۔ اس کے سیاہ بال، کنپٹیوں پر جھلکتی چاندی کے ہلکے اشارے کے ساتھ، ہمیشہ صفائی سے تراشے ہوئے رہتے تھے۔ رنگ سانولا تھا گویا جسم میں نمک بھرا ہو۔ کالی سیاہ آنکھیں ان صدیوں کا پتا دیتی تھیں جن کا اس نے مشاہدہ کیا، بہت تبدیلیاں دیکھی تھیں۔ دونوں اس تھکن سے بھری تھیں جسے کوئی نئی امید ہی مٹا سکتی تھی۔

وہ صاحب دانا خوب تاریخ دان اور جہاں دیدہ تھا۔ اس نے فردوس بریں کی بنیادیں استوار ہوتے دیکھیں۔ اب وہ شہر پائیدار عروج کے اس دور میں موجود تھا جس میں ترقیِ انسان کو کمال حاصل ہوگیا تھا، انسان کی سب خواہشات بن مانگے پوری ہو جاتی تھیں۔

وہ جدید نسلوں کے لیڈر، مفکر اور صاحب بصیرت افراد کا ہم نشیں تھا۔ سب سائنس کی طرف سے دی گئی ابدی زندگی کی تعریف کرتے پھر بھی وہ ایک ایسا خلا محسوس کرتا جسے کوئی نام نہیں دے سکا تھا۔ اس کے لئے لافانیت سستی و کاہلی کی علامت بن گئی تھی۔ امرت کی دھن سے سجی اس زندگی میں کوئی خلل، کوئی افزوں نہیں تھا جس وجہ سے لامتناہی دنوں کی یکسانیت اس کے لیے بے مقصدیت سے بھرپور تھی۔

اپنے گھر کی تنہائی میں، گزرے ہوئے زمانے کے آثار سے گھرا ہوا، اکاس اکثر اپنی زندگی کی وسعتوں پر غور کرتا۔ اس کی دیوار پر لگی قدیم گھڑی جس کی ٹک ٹک کبھی اس کے دل میں امید کی جوت جلاتی تھی اب کسی نرپھل درخت کی طرح بے ثمر محسوس ہوتی۔

اس کی لائبریری میں موجود موٹی موٹی کتابیں جن میں ماضی کے ادیان اور حال کی تسخیر کائنات کے سارے علم جمع تھے، جنہیں وہ بار بار پڑھ کر لطف اندوز ہوتا رہا تھا، اب ان میں مستقبل کی کوئی نئی راہ سجھائی نہیں دیتی تھی۔ اس نے پڑھا تھا کہ بڑھاپے میں انسان قنوطیت کا شکار ہو جاتا ہے۔ سارے عیش تلخ ہو جاتے ہیں۔ وہ بوڑھا نہیں ہوا تھا شاید صدیوں کی زندگی اور جوانی کو بڑھاپا کہا بھی نہیں جاسکتا۔ زندگی سے لطف اندوز ہونے کی صلاحیت جوان تھی بس اس کے اعصاب اضمحلال کا شکار ہو گئے تھے۔ اسباب عیش و طرب اور تقار خانے کے ٹھاٹھ اس کا دل نہیں بھلاتے تھے۔

اکاس ایک شام اپنی بالکونی میں بیٹھا شہر کی رونق سے لطف اندوز ہو رہا تھا۔ بالکونی پر بہت خوب اور موافق ہوا چل رہی تھی۔ اس کے مکان کے سامنے مانند سلسبیل بہتے دھارے میں کوسوں تلک پھیلے لالہ نافرمان اور نرگس و گلاب کی پھلائی سے معطر فضا رات کو روشن کر رہی تھی۔ اس رات کے ہونٹوں کو سرخی بخش رہا تھا اس کی نئی محبوبہ جیا کا بادہ ارغوانی وجود۔ وہ جس کی جوانی اور اٹھان کو کواعب اترابا، کہا جاتا ہے، اس صاحب جمال کی موجودگی پرسکون رات کو راحت دیتی تھی۔

مرد کسی بھی زمانے کا ہو یا زمان و مکان کی حدود سے آزاد، اس کی زندگی عورت سے شروع ہوتی ہے اور اس کے بدن کا پلو تھام کر ہی پروان چڑھتی ہے۔ وہ ہی اسے دشت جنوں کی گتھیوں سے نکال کر دشت جاں کے نخلستانوں کی ٹھنڈی سرائے تک پہنچاتی ہے۔ وہی اس کو مستقبل بینی سکھاتی ہے۔ نئی نئی امنگیں جگاتی ہے۔ جیا کی موجودگی میں اس کی خستگی و ماندگی رفع ہو جاتی۔ وہ اس کی آرزو و امید تھی۔

اسے الجھا پا کر سامنے چنے سامان عیش کی طرف اشارہ کرکے پوچھنے لگی۔

"اکاس تم اس دنیا کی رغبتوں سے لطف اندوز ہونے کی بجائے الجھے الجھے کیوں رہنے لگے ہوَ؟"

اکاس گہری سانس لے کر اس کی طرف دیکھتا ہے۔ جیا کے بدن کی جمالیات اسے ہمیشہ ایک کنواری کائنات سے روشن کرواتی تھی لیکن اب اس کا دل کہیں اور الجھا ہوا تھا۔

"جیا، میں کب سے جی رہا ہوں؟ میں تو بھول ہی گیا ہوں۔ جب بھی حساب کرتا ہوں تو سوچ کا سفر راستے میں ساقط ہو جاتا ہے کیونکہ ہر سال ہر دن ایک جیسا ہی دکھتا ہے۔ یہ حسن، یہ جوانی نئی ہے لیکن بالکل پرانی جیسی۔ میں نے قدیم متون کہانیوں میں پڑھا ہے کہ ماضی بعید کے انسانوں کی زندگی میں رومانیت تھی، خواب تھے، جنوں تھا، جذبہ تھا جسے وہ عشق کہتے تھے۔ یہ سب ہمارے دور میں عنقا ہوگیا۔ فردوس بریں کے مکینوں کی زندگی کے تین ہی مقاصد ہیں، مے نوشی، مردانگی کا مظاہرہ اور بدن کی بلا خیزیاں روندنا۔ تم میری کون سی محبوبہ ہو، میں گنتے گنتے بھول جاتا ہوں۔ یہاں انسان کی جب سالانہ ذہنی و جسمانی ری پروگرامنگ ہوتی ہے تو اس کے دماغ کی چپ سے پچھلا سب کچھ مٹا کر متھن کی نئی تانترک ودیائیں بھر دی جاتی ہیں۔

ہر اوور آل کے بعد انسان پھر نیا۔ ہر محبوبہ نئے عاشق کے پاس، بلکہ ہمیشہ جوان اور باکرہ۔ جیا! تمہیں کیسے سمجھاؤں! عشق تو پرانا پن تھا، کنوار پن کا الٹ"۔

جیا آنکھیں جھپکائے بغیر اسے دیکھے جا رہی تھی۔

"عشق تو جنون پیشہ تھا، ہر وقت ستم گر کی تلاش میں سر گرداں۔ اب تو سکون ہی سکون ہے۔ یہ حیات جاوداں ہم سے سب کچھ چھین کر لے گئی، دوستی رہی نہ دشمنی، بہبود و بقا کی جدوجہد ہی ختم ہوگئی۔ حیات و موت کی جنگ کیا ختم ہوئی نئی نئی منزلوں کے سراغ ہی مٹ گئے"۔

جیا حیرانی سے اس کی باتیں سن رہی تھی پوچھنے لگی، "یہ موت کیا ہے؟ میں نے پہلے بھی کچھ لوگوں سے اس کے بارے میں سنا ہے۔ کچھ پڑھ بھی چکی ہوں"۔

"فردوس بریں کے اکثر مکیں اس کے بارے میں کچھ نہیں جانتے، اس شہر میں اس کا ذکر ممنوع ہے"۔

"میرے کچھ دوست جنگ اور موت کے بارے میں متجسس ہیں۔ ہم نے ماضی کی تاریخ پڑھنی شروع کی جس میں تشدد، جنگ اور انسانی تباہی کا ذکر تھا۔ فردوس بریں کا یہ دور اس تباہی اور افراتفری سے بہت افضل ہے"۔

اکاس خاموشی سے سر ہلانے لگا۔ محسوس ہوتا تھا کہ وہ بھی ان مصائب کے بارے میں سوچ کر کچھ پریشان ہوگیا تھا۔ پھر ایک تلخ مسکراہٹ اس کے ہونٹوں پر چھا گئی۔

"اس شہر کے باسی سمجھتے ہیں کہ ہم نے سب کچھ پا لیا لیکن وہ نہیں جانتے کہ انہوں نے کیا کھویا ہے؟ ہمارے آبا و اجداد بہتر مستقبل کے لیے لڑے اور مر گئے۔ ان کی جدوجہد اور ان کی موت نے زندگی کو نئی معنی بخشے۔ یہ جاننا کہ ہم فانی ہیں ہمارا پاس محدود وقت ہے، ہمیں زیادہ سوچنے اور محنت کرنے پر مجبور کرتا ہے۔ ہم زندگی کو موت کے اندھیروں سے نکال کر فردوس بریں تک لے آئے لیکن اس لافانی شہر میں ہم بے مقصد بھٹکتے ہوئے وہ بھوت ہیں جو عظمت کی پہنائی میں کرم شب تاب کی مانند اپنی دم کے ساتھ دیا باندھ کر راستہ ڈھونڈ رہا ہو"۔

دونوں خاموشی سے ایک دوسرے کو دیکھنے لگتے ہیں۔

اس پرسکوں رات کا درد اکاس اور جیا کو انسانی تاریخ کے اس دور میں لے جاتا ہے جب انسان جنگ اور نسل کشی کے سبب تباہی کے دہانے پر پہنچ چکا تھا۔ قومیں اپنی جھوٹی عظمت کے بوجھ تلے انہدام کا شکار تھیں، لوگ دولت کی چاہت میں ناقابل تسخیر موہوم خواب پلکوں پر سجائے مایوسی کے عالم میں اپنی زندگیاں تباہ کر رہے تھے۔

جیا موٹی موٹی آنکھیں مٹکا کر اسے دیکھ رہی تھی۔ زندگی سے بھرپور نیلی آنکھیں جن میں دل دھڑکتا تھا۔ اکاس نے انہیں اپنی انگلیوں سے مس کیا، وہ جھرنوں میں تبدیل ہوگئیں۔ جھرنوں میں اس کے رخسار نہانے لگے تو بولی۔

"ہماری تاریخ خون سے رنگی ہوئی ہے"۔

اکاس آہستگی سے بولنا شروع کرتا ہے۔

"لیکن یہ نجات کی کہانیوں سے بھری ہوئی ہے۔ یہ مصائب سے پیدا ہونے والی ترقی کی تاریخ سے بھی روشن ہے۔ گرچہ موت کو مٹا کر، ہم نے شامت اعمال اور دکھ پر تو قابو پا لیا لیکن ساتھ ہی مشکلات کو تاراج کرنے کی جدوجہد اور خوشی کو بھی ختم کر دیا۔

اس شہر کو چلانے والوں نے اب موت کے لفظ پر بھی پابندی لگا دی ہے۔ انہیں ذرا بھی بھنک مل جائے کہ کوئی درد و تکلیف کا بیاں کر رہا ہے یا موت کے بارے میں سوچ رہا ہے تو اسے اٹھا کر لے جاتے ہیں۔ ری پروگرامنگ کرکے اس کے دماغ سے ایسا سب کچھ مٹا دیتے ہیں۔ لیکن درد ایک وائرس ہے جو بے جاں چیزوں سے زندگی لیتا ہے اور پھر سے دماغ کے کمپیوٹر کو متاثر کرنا شروع کر دیتا ہے۔

فردوس بریں کے بہت سے مکیں میرے پاس موت کا سوال پوچھنے آتے ہیں اور عمال کے ہاتھوں ری پروگرامنگ کروا بیٹھتے ہیں کیونکہ شہر کے مالک کو پتا ہے کہ ان فردوسیوں نے موت کا سکون دیکھ لیا تو سب سکون بھول جائیں گے۔ "

"کیا میں یہ سکون محسوس کر سکتی ہوں؟"

"میرے پاس مرنے کا طریقہ ہے۔ یہ چپ جو ہمارے جسم میں لگائی گئی ہے اس میں بنانے والوں نے ایک ایسا خفیہ پروگرام بھی شامل کیا تھا کہ اگر کہیں کوئی انوکھا مسئلہ پیدا ہو جائے جس کا کوئی حل نہ مل سکے تو وہ اس چپ کو ناکارہ کرکے انسان کو واپس اس کی اصل حالت میں لے آئیں۔ " (chip disablement)

"موت کیسی ہوتی ہے؟"

"میں نے موت دیکھی تھی اس کا سکون فردوس بریں کی گلیوں، میناروں اور آسمان کی رفعتوں کو چھوتے محلات، وسیع و عریض باغات کے سکون سے زیادہ تھا۔ میں نے مردے کو دیکھا ہے اس کے چہرے کی جلا میں ایک عجیب طلسمی کشش ہوتی ہے، نفس مطمئنہ کی مکمل تفسیر۔ میں اس دنیا میں پیدا ہوا جس میں انسان ہر قسم کی پابندی سے آزاد تھا۔ اصل جنت وہ تھی، جب ایک دوسرے کے ساتھ جینے والے ایک دوسرے کی جدائی میں موت کو گلے لگا لیتے تھے۔

وہ جنت ہم نے کھو دی۔

فردوس بریں کو بسانے والوں نے انسان کو موت سے آزادی دلائی لیکن قید حیات میں بند کر دیا۔ اسے اجازت ہونی چاہیے کہ وہ زندگی سے بھی نجات حاصل کر سکے۔ ہمیں فردوس بریں نہیں، وہ فردوس گم گشتہ چاہیے جس میں وہ مکمل آزاد تھا۔ "

"مجھے موت چاہیے"۔

" ہمیں موت مل سکتی ہے لیکن ہم مر گئے تو دنیا شاید موت کو مکمل طور پر بھول جائے اس لیے ہمیں چاہیے ہم ایسے ساتھی اکٹھے کریں جو انسان کو قید حیات سے چھٹکارا دلانے کی جدوجہد کریں اور وہ اپنا انجام اپنی مرضی سے کرنے میں مکمل آزاد ہوں اور اس شہر کے حکمران انہیں مکمل آزاد کر دیں۔ اس کے بعد ہم دونوں اکٹھے مریں گے کیونکہ تمہارے ساتھ مرنے کا مزہ، تمہارے ساتھ جینے سے زیادہ ہے"۔