1835 میں امریکی صدر پر پہلا قاتلانہ حملہ ہوا۔ اس کے بعد سے اب تک کے سولہ حملوں میں ملوث ملزمان کی زندگی پر لکھی جانے والی کتاب American Assassins: The darker side of politics میں مصنف کلارک لکھتے ہیں کہ زیادہ تر قاتلانہ حملوں کا مقصد امریکی حکومت کی پالیسی میں تبدیلی لانا تھا۔ قاتل ذہنی مریض تھا یا ایک عام انسان، وہ سیاست کی روش سے ناراض پایا گیا۔
موجودہ دور میں انتہا پسندی اور تشدد کو امریکی سیاست میں ٹرمپ نے ہوا دی۔ اس پر قاتلانہ حملہ اسی رجحان کا مظہر ہے۔ امریکہ میں گن کلچر پر پابندی کا وہ خود سب سے بڑا مخالف ہے۔ ٹرمپ نے اپنے اردگرد اپنے جیسے ہی متشدد ذہن کے مالک لوگ اکٹھے کر رکھے ہیں۔ امریکی ریاست جنوبی ڈکوٹا، کی گورنر کرسٹی نوئم، جو کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے متوقع نائب صدارتی امیدواروں میں سے ایک ہیں، کہتی ہیں کہ اس نے اپنے کتے کو ایک بجری سے بھرے گڑھے میں لے جا کر گولی مار دی کیونکہ وہ اس کے اشاروں پر نہیں چلتا تھا اور ہمسایوں کی مرغیوں کو مارتا تھا۔ اپنے اس عمل کو فخریہ طور پر بیان کرتے ہوئے یہ بھی لکھتی ہیں کہ اس نے ایک بکرے کو بھی اسی گڑھے میں ایک پول کے ساتھ باندھ کر گولی ماری تھی کیونکہ وہ بچوں کو ڈراتا، ٹکریں مارتا تھا اور اس سے بدبو آتی تھی۔ وہ اتنی ظالم ہے کہ پہلی گولی نے بکرے کو زخمی کیا، بندوق میں دوسری گولی نہیں تھی۔ بکرا درد سے کراہتا، تڑپتا رہا، وہ گھر سے گولی لے کر آئی اور دوسرے فائر سے اسے قتل کیا۔
ان واقعات کو بیان کرکے وہ یہ بتانا چاہتی ہے کہ حکمران کو اتنا ہی ظالم اور تشدد پسند ہونا چاہیے۔ وہ ٹرمپ کے بہت قریب ہے۔ یہی سوچ ٹرمپ کے باقی حواریوں پر حاوی ہے۔
ٹرمپ کا خود یہ کہنا ہے کہ وہ صدر منتخب ہو کر کسی مخالف کو نہیں چھوڑے گا۔ صدر بائیڈن کو جیل میں ڈال دے گا۔ امریکی محکمہ انصاف کو اپنی ذاتی لیگل اسٹرائیک فورس میں تبدیل کر لے گا۔ جن وکیلوں نے پچھلے دور کے اختتام پر اس کا حکم نہیں مانا انہیں برطرف کر دے گا۔ 6 جنوری کو کیپیٹل ہل پر حملہ آور ہونے والے تمام سزا یافتہ افراد کو بری کر دے گا۔ اس کی حکومت میں ہر حاملہ عورت کی نگرانی کی جائے گی کہ وہ حمل ضائع نہ کر سکے۔ اسقاط چاہنے والی عورتوں کو جیل میں ڈال دیا جائے گا، تارکین وطن کو ملک بدر کیا جائے گا۔ یوکرین کی جنگ اس کا اپنا مسئلہ ہے یا نیٹو کا، دونوں جائیں بھاڑ میں، روس اس پر قبضہ کرتا ہے تو کر لے، ہمیں اس سے کوئی غرض نہیں۔
ٹرمپ نے اپنے آمرانہ مقاصد کو کبھی نہیں چھپایا ہے۔ ٹرمپ نے عوام کو تارکین وطن اور دوسری دنیا کے خلاف بھڑکا کر نعرہ لگایا ہے امریکہ کو دوبارہ عظیم بنا دو۔ اس کام کے لیے وہ اور اس کے ساتھی طاقت اور تشدد کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کرنا جائز سمجھتے ہیں۔ اریزونا سے رپبلکن پارٹی کی سینٹ کی امیدوار سابقہ نیوز اینکر کیری لیک، کا کہنا ہے کہ نومبر میں ہونے والے انتخابات کے لیے ہمارے کارکنان کو ابھی سے اپنی کمر کے ساتھ پستول باندھ لینا چاہیے۔
جنسی جرائم میں ملوث، طوائفوں کے دلال، فلوریڈا کے کانگریس مین میٹ گیٹز، کا کہنا ہے کہ طاقت اور صرف طاقت کے بل بوتے پر ہم واشنگٹن ڈی سی جیسے بدعنوان شہر کو قابو کریں گے۔ ٹرمپ کی ایک اور قریبی ساتھی ٹیلر گرین نے فلمی سٹائل میں ہاتھ میں گن پکڑ کر کیپیٹل سٹی پہنچنے کی تصویر سوشل میڈیا پر پوسٹ کرکے ایسا ہی دعویٰ کیا۔
اس پارٹی کی پر تشدد سیاست اور حکمت عملی کی ایسی اور بھی کئی مثالیں موجود ہیں۔
ٹرمپ 6 جنوری کی چڑھائی کی مثال دے کر عوام اور مخالفین کو ڈرانے کی حکمت عملی اپنائے ہوئے ہیں۔ جھوٹی خبریں اور بناوٹی کہانیاں سب اس رویے کو ہوا دیتے ہیں۔ اس کے چاہنے والے اس پر اندھا اعتماد کرتے ہوئے اس کی ہر بات کو سچ سمجھتے ہیں۔ اس کا کہنا ہے، "اگر منصفانہ الیکشن ہوئے تو ہم جیتیں گے ورنہ اپنے ملک کے حق کے لیے لڑیں گے"۔
عظیم فرانسیسی مصنف، تاریخ دان اور فلاسفر والٹیر کا قول ہے کہ جو آدمی تمہیں لغو اور بیہودہ باتوں کا یقین دلا سکتا ہے وہ تمہیں ظلم و بربریت پر بھی اکسا سکتا ہے۔
ایک ریلی میں ٹرمپ نے بہت واضح الفاظ میں دھمکی دیتے ہوئے کہا، "اگر میں منتخب نہیں ہوا تو یہ دن پورے ملک کے لیے خون کی ہولی ثابت ہوگا۔ "جب اس سے پوچھا جاتا ہے کہ یہ تو دھمکی ہے تو ہنس کر جواب دیتا ہے، "مجھے لگتا ہے کہ بہت سارے لوگ اسے پسند کرتے ہیں"۔
ہم پاکستان میں 1970 کے بعد سے ایسی ہی سیاست کو بھگت رہے ہیں۔ اب ہمارا ملک آگے بڑھنے کی بجائے ماضی کے اس دور میں پہنچ چکا ہے جہاں ڈارک ایج میں یورپ تھا۔ جہاں مخالفین کو زندہ جلا دیا جاتا تھا۔ ہجوم جو چاہے الزام لگا دے۔ جب امریکہ میں کالوں کو انسان ہی نہیں سمجھا جاتا تھا اور سفید فام امریکی انہیں سرعام قتل کر دیتے تھے۔ اس دور کی تصویریں دیکھیں یا آج اپنے ملک میں سڑکوں پر دندناتے قاتلوں کے مسکراتے چہرے دیکھیں، جب کسی انسان کو سڑکوں پر رگیدتے ہوئے وہ اسے آگ لگاتے ہیں، تو صاف محسوس ہوتا ہے کہ انہیں اپنی ان ظالمانہ حرکتوں پر فخر ہے۔ یہ بربریت انہیں فرحت بخشتی ہے۔ وہ یہ کام کرتے وقت ایک دوسرے کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے ایک دوسرے کے مدد گار بن جاتے ہیں۔
ہمارے انتہا پسندوں نے جو حال پاکستان کا کیا ہے ٹرمپ کی پارٹی وہی امریکہ کا کرنے جا رہی ہے۔ ٹرمپ کے ہمدردوں کی اکثریت کا خیال ہے کہ چونکہ امریکی سیاست میں بہت کچھ برا شامل ہو چکا ہے اس لیے وطن پرست لوگ اپنا ملک بچانے کے لیے تشدد اور ظلم و زیادتی کا سہارا بھی لے سکتے ہیں۔
جمہوری سیاست مختلف آرا کو قبول کرنا اور مخالفین کے ساتھ زندہ رہنے کا نام ہے۔ مختلف نظریات، مذاہب، رنگ و نسل اور متضاد سوچ کے حامل لوگوں کے مجموعے سے قومیں بنتی ہیں اور ایک دوسرے کے ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر ترقی کی زینے طے کرتی ہیں۔ جمہوریت کو زندہ رہنے کے لیے ایک نیک شہری کی ضرورت ہے۔ امریکہ کے دوسرے صدر جان ایڈمز کا قول ہے، "ہمارا آئین صرف نیک اور اعلی اخلاقیات کے حامل لوگوں کے لیے بنایا گیا تھا۔ یہ کسی گندے فرد کی حکومت کے لیے مکمل طور پر ناکافی ہے"۔
اسی لیے آج کے یہ انتہاپسند سیاست دان جمہوری آزادی کا استعمال کرتے ہوئے جمہوریت کی جڑیں کھود رہے ہیں۔ قوم کو غلط راستوں پر ڈال کر تشدد اور ظلم و جبر کو ہوا دے رہے ہیں۔ یہ سب ابھی کچھ سال پہلے ہم روانڈا میں دیکھ چکے ہیں جہاں اپنی قوم کے سر تن سے جدا کرکے چنگیز خان اور امیر تیمور جیسی سفاکی و بربریت کے مینار بنا دیے گئے تھے۔
یاد رکھیں جمہوریت کی بیل نرم و موافق زمین پر پنپتی ہے۔ گرم و سرد موسم میں اس کے پھول جھڑنا شروع ہو جاتے ہیں۔ اس کی حفاظت عقل و دانش سے ہوتی ہے جو کہ موجودہ دور کے نعرہ گو سیاست دانوں کے پاس نہیں۔ وہ ذاتی مفاد کے پیش نظر عوام میں مسائل اور نفرت کی آگ بھڑکا کر ان کو قتل و غارت گری پر اکساتے ہیں۔ جمہوری لوگ اقتدار پر قابض ہونے کے لیے منفی ہتھکنڈے استعمال کرنے والے ان سیاست دانوں کے مظالم کا جمہوری طریقے سے مداوا کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن وہ بھول جاتے ہیں کہ طاقت کی اپنی زبان ہوتی ہے اور طاقت کے پیچھے اکثریت کا ہاتھ بھی ہو تو ہٹلر اور میسولینی جیسے درندے (دو تہائی اکثریت کے ساتھ) حکومت پر پہنچ جاتے ہیں۔
ہاں جمہوری آزادی کا ایک منفی پہلو یہ بھی ہے کہ جو لیڈر نفرت اور ظلم و بربریت کو ہوا دیتا ہے وہ خود اسی کا شکار ہوتا ہے۔ ٹرمپ پر اپنی پارٹی کے حامی کا حملہ اس کا ایک ثبوت ہے۔