سنڈریلا کو جوتی کی وجہ سے شہزادہ مل گیا تھا۔ عصمت چغتائی کا میٹھے جوتے، کھانے کو دل چاہتا تھا۔ املیڈا مارکوس اور اس کا خاوند جب ملک سے فرار ہو رہے تھے تو اسے کپڑوں کے ساتھ جوتے کے انتخاب کی پڑی تھی۔ یہ مشکل کام اسے چھ سو کے لگ بھگ قیمتی جوتوں اور سینڈلز میں سے کرنا تھا جواس کے خزانے میں موجود تھے۔ ایک مرتبہ ہمارا سب سے مہنگا اور تیز رفتار ایف 16 جہاز ملک کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک صرف جوتا لانے کے لئے بھیجا گیا تھا۔
***
ٹائم میگزین کی رپورٹ کے مطابق پانچ میں سے ایک لڑکی کو بوائے فرینڈ کے اشاروں کی نسبت اپنے جوتوں میں زیادہ دلچسپی ہوتی ہے۔ خاوند بوائے فرینڈز کی نسبت زیادہ خوش قسمت ہیں کیونکہ ان کے معاملہ میں یہ تناسب کچھ بہتر ہے اور چھ میں سے ایک بیوی کو ملاپ سے زیادہ جوتوں کی خواہش ہوتی ہے۔ ہر چار میں سے ایک عورت کا یہ کہنا ہے کہ اونچی ایڑی کی وجہ سے جتنی چاہے تکلیف ہو وہ اسے نہیں اتارتی۔ (لمبے سفر اور ڈانس میں بھی)
جوتوں کی یہ اہمیت اس وجہ سے ہے کہ پاؤں اور جوتے کشش کا باعث ہیں۔ جن علاقوں میں عورتیں مکمل پردہ کرتی ہیں، ان کے صرف پاؤں اور جوتے نظر آتے ہیں۔ ان کو دیکھ کر عورت کی خوبصورتی کا اندازہ لگایا جاتا رہا ہے۔ صدیوں سے مردوں کے ذہن میں یہ سما چکے ہیں اس لئے مردوں میں ان کی کشش عورتوں کی نسبت زیادہ ہے۔ قدیم چینی عورتیں اپنے پاؤں چھاتیوں کی طرح چھپاتی تھیں۔ جوتے عام طور پر ریشم اور دوسرے نرم ونازک کپڑے جوڑ کر بنائے جاتے تھے۔ ہماری شاعری میں بھی وصلی کے ان جوتوں کا ذکر ملتا ہے۔ قدیم یونان کی پیشہ ور عورتیں اپنے جوتوں کے پیچھے "میرے پیچھے پیچھے آؤ" لکھوایا کرتی تھیں۔ سپین میں رواج تھا کہ خطوط کے اختتام میں
"کیا میں تمہارے پاؤں چوم سکتا/سکتی ہوں؟"
لکھا جاتا تھا۔
جوتے عورت کے حسن میں اضافہ کرتے ہیں۔ اس کی چال کو پرکشش بناتے ہیں۔ اونچی ایڑی والی جوتی اس میں مزید اضافے کا باعث ہے۔ اس لئے اس کو بہت پسند کیا جاتا ہے۔ تین ہزار سال پہلے مصری شاہی خاندان کی عورتیں ایسی جوتے پہننا باعث فخر جانتی تھیں۔ یونانی محبت کی دیوی افرودیتہ کو اکثر بالکل ننگی لیکن اونچی ایڑی کے سینڈل پہنے دیکھایا جاتا ہے۔
ایڑی والے جوتوں کا قدیم دور میں مردوں میں بھی رواج عام رہا ہے۔ گھڑ سوار ایسے لمبے جوتے پہنتے تھے تاکہ رکاب میں پاؤں جم جائے۔ چنگیز خان کے سپاہی یہ پہنا کرتے تھے۔ ان کے ساتھ یہ رواج یورپ میں آیا اور مقبول ہوگیا۔ وسطی ایشیأ کے یہی گھڑسوار جن کا آبائی پیشہ جانور پالنا تھا، ماہی کہلواتے تھے۔ یہی ماہی ہمارے پنجاب کی عورتوں کا ہیرو ہے۔
سولہویں صدی کی وکٹورین شکم بند شمیض عورتوں کے فیشن میں ایک انقلاب تھا۔ Gone with the wind اور Titanic فلموں میں بھی ان کو پہنتے ہوئے دیکھایا گیا ہے۔ یہ پہنتے وقت عورت اپنا سانس کھینچ کر پیٹ چھوٹا کر لیتی ہے اور ملازمہ پیچھے سے ڈوریاں کس کر شمیض کو باندھ دیتی ہے۔ ان کا مقصد پتلی کمر کے ساتھ سینے کے ابھار کو مزید واضح کرنا ہوتا ہے۔ وکٹورین دور کی ان کارسٹس کے بعد فیشن انڈسٹری میں اگلا بڑا انقلاب پنسل ہیل جوتیوں کے ساتھ نیم شفاف، باریک، بے جوڑ لمبی جرابوں کا ہے۔
خنجر کی نوک والی ہیل کا سینڈل، ایڑی کھلی جیسے آزاد تلازمہ، ساق بلوریں جیسے پورے چاند کی سریلی تان، موجودہ دور کا سب سے بڑا شہوت انگیز، فیشن ہے۔ انداز پا، وقت خرام ریشم سی بل کھاتی کمر، ہر ادا میں ایک تمکنت و بانکپن، غرض ان کو پہن کرحسینہ ہرطرح میں انوٹھی پھبن دکھائی دیتی ہے۔
پچھلی صدی کے آغاز سے ہی ہالی وڈ کی اداکارائیں اونچی ایڑی کے ہیرے جڑے ہوئے جوتے پہنا کرتی تھیں۔ ان کے چاہنے والے لاکھوں میں تھے جوان کی چال اور ساق پر قربان جاتے تھے۔ مارلن منرو جس سٹوڈیو میں کام کرتی تھی اس کی ہدایت تھی کہ وہ ہمیشہ اونچی ایڑی والے جوتے پہنے۔ وہ جان بوجھ کر ایک ایڑی کی لمبائی کچھ کم بنواتی تھی۔ ہلکی سی لنگڑاہٹ کے ساتھ چلنے سے اس کے سرین کی تھرتھراہٹ دیکھ کر زمین پر لرزہ طاری ہو جاتا تھا۔
اور زمین پر کپکپاہٹ کیوں نہ طاری ہو جب کڑی کمان جیسی چال چلتے حسینہ عالم زمین پر ایڑی مارتی ہے تو اس خنجر کی نوک کا وزن فی مربع انچ دو ٹن سے بھی زیادہ ہوتا ہے۔ اگر ہاتھی کے پاؤں کا وزن رقبہ کے لحاظ سے مانپا جائے تو یہ اس کے برابر ہے۔ ایسے سینڈل کو پہن کر اگر کوئی عورت بیٹھی بھی ہو تو وہ دوسری عورتوں کی نسبت زیادہ توجہ حاصل کرتی ہے۔
ان جوتوں کا یہ تاثر انسان کے ذہن پر اس دور سے ہے جب وہ بچہ تھا اور زمیں پر رینگتا تھا۔ اس وقت بچہ انسان کو اس کے جوتوں سے پہچانتا ہے۔ چونکہ وہ زیادہ وقت ماں کے پاس رہتا ہے اور عورتوں کے جوتے زیادہ چمکدار اور خوش نما ہوتے ہیں اس لئے وہ ان کی طرف زیادہ کھچاؤ محسوس کرتا ہے۔ یہ وجہ ہے کہ اکثر بچے کپڑوں کی نسبت جوتوں کی خریداری میں زیادہ دلچسپی لیتے ہیں۔ جوان ہونے کے بعد بھی یہ رجحان تقریباً تمام انسانوں میں پایا جاتا ہے۔
مرد عورت کے پاؤں اور جوتوں میں زیادہ دلچسپی لیتے ہیں۔ یہ دلچسپی بڑھتے بڑھتے بعض مرتبہ اس حد تک چلی جاتی ہے کہ ان کے بغیر جنسی تسکین ہی حاصل نہیں ہوتی۔ پہلی صدی قبل مسیح کا رومی شاعر اوویڈ عورت کے پاؤں کا عاشق تھا۔ وہ جب کسی عورت کی ایڑی دیکھتا جنون عشق میں مبتلا ہو جاتا۔ کچھ لوگ جوتوں کے اس حد تک عاشق ہو جاتے ہیں کہ ان کے ساتھ جنسی خواہش کی تسکین حاصل کرنا شروع کر دیتے ہیں اور یہ جنسی ملاپ کا بدل بن جاتے ہیں۔ یہ جنسی انحراف (sexual perversion) جنسی علامت پرستی (Fetishism) کی ایک قسم ہے اور اسے Foot/shoe fetishism کہتے ہیں۔
یہ کجروی عورتوں کی نسبت مردوں میں زیادہ پائی جاتی ہے۔ یہ لوگ جنس مخالف کے تابعدار ہوتے ہیں اور ان میں غلامی کے جراثیم پائے جاتے ہے۔ ان میں سے اکثر احساس کمتری کا شکار ہوتے ہیں۔ یہ لوگ تابعداری اور اطاعت گزاری میں اس سطح تک چلے جاتے ہیں کہ اسی میں فرحت محسوس کرتے ہیں۔ یہ کوتاہ ہمت مرد عام طور پر عورتوں کی بجائے ان کے جسم کے کسی حصہ یا ان کے زیر استعمال چیزوں سے تسکین حاصل کرتے ہیں۔ پاؤں، جرابیں اور جوتے ان چیزوں میں سے سب سے زیادہ استعمال ہوتے ہیں۔ اس طرح کے لوگ عورتوں کے پاؤں یا جوتے چاٹ کر حظ اندوز ہوتے ہیں۔
اٹھارویں صدی کا فرانسیسی ناول نگار ریسٹف ڈی لا بیٹون اپنی ڈائری میں خود کو جوتی چور، جوتے جمع کرنے والا اور عورتوں کے جوتے چوری چھپے دیکھ کر مزے لینے والا لکھتا ہے۔ اسی کے نام پر ان جنسی منحرفین کو ریسٹف، بھی کہتے ہیں۔ جرمن شاعر، ڈرامہ نگار جوہان وولفینگ کو اس کی محبوبہ مسڑ بگ فٹ، کہہ کر پکارتی تھی۔ اس نے اپنی محبوبہ سے اس کے ڈانس کرنے والے جوتے مانگنے کے لئے لکھا تھا تا کہ وہ ان کو اپنے دل کے ساتھ لگا سکے۔
مشہور ناول The Hunchback of Notre Dame کے مصنف فرانسیسی شاعر، ڈرامہ نگار وکٹر ہوگو، روسی ناول نگار فیودر دستوفسکی جس کے ناول پر ذلتوں کے مارے لوگ، کے نام سے پی ٹی وی پر ڈرامہ بنایا گیا تھا، بھی اسی در پر سر جھکاتے تھے۔ جارج برناڈ شا بھی جوتوں اور پاؤں کے پجاری تھے۔ وہ لندن سکوائر میں کچھ دیر ایسی جگہ پر رہائش پذیر رہے جہاں سے لندن فٹ ہسپتال، کو اوپر سے دیکھ سکتے تھے۔ ان کے لافانی الفاظ ہیں
If you rebel against high heeled shoes, take care to do so in a very smart hat.
ان سب کے ہاں ملاپ کی بجائے عورتوں کے جوتوں اور پاؤں سے لطف و انبساط اکتساب کرنے کا رجحان نظر آتا ہے۔
کچھ عورتوں میں بھی یہ کجروی پائی جاتی ہے لیکن وہ اس معاملہ میں مردوں کے عشر عشیر بھی نہیں۔
عمر خیام کی ایک رباعی ہے۔
بر پاےِ تو بوسہ دادن اے شمع طرب
بہ زاں باشدکہ دیگراں را برلب
دست من ودامن خیالت ہر روز
پائے من و جستن و صالت ہمہ شب
یہ عظیم شاعر بھی عالم خیال میں اپنے معشوق کی طرف خطاب کرکے کہتا ہے، اے خوشی کی شمع تیرے پاؤں پر بوسہ دینا معشوقوں کے لب پر بوسہ دینے سے کہیں بہتر ہے۔ پس ہر روز میرا ہاتھ اور تیرے خیال کا دامن اور ہر رات میرے پاؤں اور تیرے وصال کی تلاش میں۔
کسی انگریز شاعر نے اس رباعی کے پہلے دو مصروں کا تر جمہ بہت ہی اچھا کیا ہے
"To kiss، dearest Saki, thy shoe s pretty tips۔
is better than kissing another girl s lips "