عزم و استقلال اور قوتِ ایمانی سے سرشار اہلِ پاکستان 28 مئی 2022 میں 24 واں یومِ تکبیر منا رہے ہیں۔ 28 مئی 1998ء کا دِن نہ صرف پاکستان بلکہ پوری اُمتِ مسلمہ کے لئے اعزاز اور فخر کا دِن ہے، جب اسلامی جمہوریہ پاکستان دُنیا کی ساتویں اور اسلامی دُنیا کی پہلی ایٹمی طاقت بن کر اُبھرا اور پوری دُنیا کو اس کی ایٹمی صلاحیت بادلِ ناخواستہ قبول کرنا پڑی۔
یہ وہ دِن ہے جس نے پاکستان اور اہلِ پاکستان کا سر فخر سے بلند کر دیا اور اقوامِ عالم کی فہرست میں پاکستان کی اہمیت اور وقار میں نمایاں اضافہ کر کے اسے دُنیا کے اہم ترین ممالک کی فہرست میں شامل کر دیا۔ آج دُنیا میں پاکستان کا جو مقام اور مرتبہ ہے اس کی بڑی وجہ اس کی ایٹمی صلاحیت ہے۔ پاکستان نے یہ ایٹمی تجربات دراصل بھارت کے ایٹمی دھماکوں کے جواب میں کئے تھے جو مئی 98 کے دوسرے ہفتے میں بھارت نے کئے تھے۔
بھارت اسی طرح کی حماقت 1974ء میں بھی کر چکا تھا۔ بھارت کا جنگی جنون ہمیشہ سے جنوبی ایشیاء کے ممالک کے لئے خطرہ رہا ہے اور خطے میں طاقت کے عدم توازن کا سہرا بھی بھارت کو ہی جاتا ہے۔ یوں تو وہ ہر وقت پاکستان کے خلاف کسی منصوبے پر مصروف رہتا ہے لیکن بعض اوقات اس کا جنگی جنون عقل و خرد کی تمام حدود پامال کرتے ہوئے دوسرے ممالک کے لئے بہت سے دفاعی مسائل پیدا کر دیتا ہے۔
بھارتی فسطائی قیادت ہو، یا اُن کے ادارے ہمیشہ حق گوئی سے خوفزدہ رہے ہیں، 5 اگست 2019ء کے نا جائز اقدامات کی طرح یاسین ملک کے خلاف مقدمہ بھی غیر قانونی اور نا جائز ہونے کے ساتھ ہی کٹھ پتلی بھارتی عدالت نے عدل و انصاف کو بالا طاق رکھتے ہوئے ایسا فیصلہ کیا جو خود بھارت کی رسوائی کا باعث بنا، بھارت کشمیریوں کی نمائندہ حقیقی قیادت کو ختم کرنے کی منصوبہ بندی پر عمل پیرا ہے، بھارت کے سیاہ قوانین اور عدالتی نظام عدل کے عالمی و فطری تقاضوں کے منافی ہے۔
بھارت کئی بار منہ کی کھانے کے باوجود یہ سمجھ نہیں سکا کہ کسی قوم کو جبر و ریاستی دہشت گردی، سیاہ قوانین اور سزاؤں سے غلام نہیں بنایا جا سکتا۔ 1998 میں بھی کچھ ایسی ہی صورت حال تھی جب بھارت نے 6 ایٹمی دھماکے کر کے نہ صرف جنوبی ایشیاء بلکہ پوری دُنیا کی امن پسند اقوام کے لئے خطرے کی گھنٹی بجا دی۔ ان حالات میں پاکستان کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہ تھا کہ بھارت کے ایٹمی دھماکوں کے مقابلے میں پاکستان بھی اپنے نیوکلیئر تجربات کرے۔
عالمی طاقتیں اس حق میں نہ تھیں۔ پاکستان نے کوئی بھی دباؤ قبول نہ کرنے کا فیصلہ کر کے یہ ثابت کر دیا کہ دنیا کی کوئی بڑی سے بڑی طاقت بھی پاکستان کے فیصلوں کی راہ میں رکاوٹ نہیں بن سکتی۔ پوری پاکستانی قوم سیسہ پلائی دیوار بن گئی اور پوری قوم کا ایک ہی مطالبہ تھا کہ بھارت کو اینٹ کا جواب پتھر سے دیا جائے۔
28 مئی 1998 کو بلوچستان کے دور دراز ضلع چاغی کے پہاڑوں میں ایٹمی تجربات کر کے پاکستان ایٹمی طاقت بن گیا اور یوں دنیا کے ایٹمی ممالک کی فہرست میں شامل ہو گیا۔ پاکستان مسلم دنیا کا پہلا ملک ہے جس نے کامیابی سے ایٹمی دھماکے کر کے یہ اعزاز حاصل کیا۔ تاریخی حقائق گواہ ہیں کہ بھارت نے پہلے ایٹمی دھماکے کر کے پاکستان کو مجبور کیا کہ وہ بھی ایسا کرے۔
پاکستان ایک پُر امن ملک ہے جس نے دنیا بھر کے ممالک کے ساتھ دوستانہ تعلقات قائم کرنے کی کوشش کی اور ہمسایہ ممالک کے ساتھ بھی خوشگوار تعلقات رکھے۔ پاکستان نے اپنے قیام سے لے کر آج تک دنیا میں امن، استحکام اور خوشحالی کا پیغام پھیلایا اور اسی پر خود بھی کاربند رہا۔ پاکستان نے کبھی خوشی سے جنگ کا راستہ اختیار نہیں کیا بلکہ تاریخ گواہ ہے کہ ہمیشہ بھارت نے پاکستان پر جنگ مسلط کی اور پاکستان کو اپنا دفاع کرنا پڑا۔
1948، 1965 اور 1971 کی جنگیں بھارت کی جارحانہ پالیسی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ کشمیر پر غاصبانہ قبضہ ہو یا بھارت میں اقلیتوں پر مظالم، بھارت نے ہر جگہ تشدد کا راستہ اختیار کیا۔ اگر چہ بھارت کا کوئی بھی ہمسایہ ملک اس کی شر انگیزیوں سے محفوظ نہیں لیکن اس کا سب سے بڑا نشانہ پاکستان ہے۔ دہلی، کلکتہ، آگرہ، احمدآباد اور دوسرے بھارتی شہروں میں لاکھوں لوگ فٹ پاتھوں پر سوتے ہیں۔
انہیں نہ تو دو وقت کا کھانا میسر ہے اور نہ ہی رہنے کی جگہ لیکن ان کی حکومت کو اس کی پروا نہیں۔ اس کا تمام تر زور پاکستان کے خلاف جنگی تیاریوں پر ہے۔ عالمی اداروں نے بار ہا بھارتی حکومت کو توجہ دلائی کہ وہ اپنے دفاعی اخراجات کم کر کے سماجی ترقی کا بجٹ بڑھائے لیکن وہ ایسا نہیں کر رہی۔ بھارت کے اندر رہنے والی اقلیتیں بھی اس کے مظالم سے محفوظ نہیں۔
اگرچہ بھارت 1974 میں ایٹمی دھماکہ کر چکا تھا لیکن جنگی جنون میں مست ہو کر اور جنوبی ایشیاء میں اپنا غلبہ جمانے کے لئے اس نے مئی 1998ء میں پھر چھ دھماکے کر دیئے۔ پاکستان کا ایٹمی پروگرام ہمیشہ سے پُر امن مقاصد کے لئے تھا اور ہے۔ پاکستان کی تین ہزار سے زائد کلومیٹر مشرقی سرحد ایک ایسی مملکت سے ملتی ہے جس نے کبھی بھی پاکستان کو صدقِ دل سے تسلیم نہیں کیا۔
اس کے جنگی جنون کا مقابلہ کرنے کے لئے پاکستان کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ اپنی دفاعی صلاحیتوں کو ہر حال میں مؤثر رکھے۔ اسی تناظر میں 1970ء کی دہائی میں پاکستان نے اپنا پُر امن ایٹمی پروگرام شروع کیا۔ پاکستان کے ایٹمی تجربات نے نہ صرف ہندوستان بلکہ مغربی دُنیا پر بھی لرزہ طاری کر دیا۔ اگرچہ ملک کو بہت سے سماجی اور معاشی مسائل درپیش ہیں لیکن پھر بھی ہمارا سر فخر سے بلند ہے کہ ہم ایک ایٹمی طاقت ہیں۔
ہماری افواج دُنیا کی بہترین افواج ہیں جو ہر خطرے کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں جو 74 سال سے بھارت کے جنگی جنون کا مقابلہ جرات اور دانش مندی کے ساتھ کر رہی ہیں۔ جذبہ ایمانی اور پیشہ ورانہ صلاحیتوں سے سرشار پاک فوج آج نیو کلیئر ہتھیاروں کے ساتھ مسلح ہے۔ دُنیا کی کوئی طاقت پاکستان کی طرف میلی نگاہ سے نہیں دیکھ سکتی۔ پاک فوج اور ایٹمی توانائی کمیشن جیسے ادارے پاکستان اور اہلِ پاکستان کا سرمایہ ہیں۔ پاکستان عالم اسلام کا سرمایہ ہے۔
حضرت قائداعظمؒ دسمبر 1946ء کو جب انگلستان سے واپس لوٹے تو قاہرہ میں آ کے رُکے۔ اُنہوں نے وہاں عرب ممالک اور ملت اسلامیہ کے تمام سربراہان مملکت، صحافیوں، دانشوروں اور قومی راہنماؤں سے خطاب فرماتے ہوئے کچھ ارشادات گوش گزار فرمائے کہ آپ کا کیا خیال ہے کہ برصغیر کے مسلمان صرف اپنے لئے ایک علیحدہ آزاد و خودمختار مملکت کیلئے کوشاں ہیں اور بے حد قربانیاں پیش کر رہے ہیں۔
یہ بجا ہے لیکن شاید آپ کے یہ خیال اور گمان میں نہیں کہ ہم برصغیر میں تمام عالم اسلام کی جنگ لڑ رہے ہیں، ہماری یہ جنگ ہندو استعماریت اور انگریزی استبدادیت اور جبر کے خلاف آپ کو محفوظ کرنے کیلئے ہے کہ آپ کو ہندو کی مہا بھارتی سکیم سے محفوظ کر لیا جائے جس کا مطمح نظر یہ ہے کہ وہ تمام مشرق وسطیٰ پر قابض ہونا چاہتا ہے۔
ہم برصغیر میں آپ کی جنگ لڑ رہے ہیں تاکہ آپ تمام اسلامی ممالک آزادی و خودمختاری اور امن و سکون کے ساتھ اپنی درخشندہ تاریخ کی روشنی میں عروج و کمال حاصل کرتے رہیں، اس خطاب کا تمام سربراہان پر انتہائی اثر وارد ہوا اور ملکی اور غیر ملکی صحافیوں نے خوب سراہا اور عرب ممالک کے اخبارات میں شہ سرخیوں کے ساتھ حضرت قائداعظمؒ کے ارشادات عالیہ کو پیش کیا گیا۔
یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ قیام پاکستان، بھارت اور اسلامی ممالک کے درمیان ایک دیوارِ چین اور کوہ ہمالیہ بن کر ابھرا چنانچہ ایٹمی پاکستان عالم اسلام کیلئے حصار اسلام ہے۔ حصار ایمان و ایقان ہے جس کا تحفظ تمام عالم اسلام کا دینی فریضہ بھی ہے۔ اَب یہ ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ ہم مل کر اس عالمی وقار کو نہ صرف قائم رکھیں بلکہ اسے مزید کامیابیوں کی طرف لے جائیں۔ پاکستانی قوم امن، محبت اور اخوت پر یقین رکھتی ہے۔
دُنیا کی کوئی طاقت اسے چیلنج نہیں کر سکتی۔ ایٹمی پاکستان نعمت الٰہیہ ہے۔ ایٹمی پاکستان محافظ عالم اسلام بھی ہے۔ ایٹمی پاکستان ایمان و ایقان بھی ہے۔ اس نعمت ِ الٰہیہ کی قدر کرنی چاہیے۔ اہلِ پاکستان کو یومِ تکبیر مبارک ہو۔