1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. عابد ہاشمی/
  4. 7 اپریل: عالمی یومِ صحت !

7 اپریل: عالمی یومِ صحت !

اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے عالمی ادارہ صحت کے تعاون سے 1950ء سے ہر سال 7 اپریل کو دُنیا بھر میں صحت کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ جس کا مقصد پوری دُنیا میں صحت و امراض سے بچاؤکے لیے شعور اجاگر کرنا ہے۔ صحت ایک بنیاد مسئلہ اگر ہم وطنِ عزیز کی بات کریں تو دُنیا کے 60 ممالک کے گلوبل ایکسس ٹوہیلتھ کیئر انڈیکس کے اعداو د شمار میں پاکستان 52ویں نمبر پر ہے۔ پاکستان میں صحت کی سہولیات تک عوامی رسائی کی صورتحال جنوبی ایشیائی ممالک میں صرف افغانستان سے بہتر ہے۔ پاکستان کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں صحت کا شعبہ کی حالت ناگفتہ بہ ہے۔ پاکستان میں 60 فیصد لوگ نجی اسپتالوں کا رخ کرتے ہیں۔ 2016 میں ہسپتالوں کی رینکنگ کے عالمی ادارے "رینکنگ ویب آف ہاسپیٹلز" کے مطابق پاکستان کا کوئی سرکاری ہسپتال دُنیا کے ساڑھے5 ہزار بہترین ہسپتالوں میں شامل نہیں۔ جنوبی ایشیا کے 20 بہترین ہسپتالوں میں بھارت کے 19 اور بنگلا دیش کا ایک ہسپتال شامل ہے جبکہ پاکستان کا سی آئی ڈی پی انٹر نیشنل فاونڈیشن 22ویں نمبر پر ہے، جناح میموریل ہسپتال 28ویں نمبر پر جبکہ سندھ انسٹی ٹیوٹ آف یورالوجی 29 ویں نمبر پر ہے۔ "رینکنگ ویب آف ہاسپیٹلز" کے مطابق جنوبی ایشیا کے بہترین ہسپتالوں کی فہرست میں اسلام آباد کا شفا انٹر نیشنل 45 ویں نمبر پر جبکہ شوکت خانم میموریل کینسر ہسپتال 48 ویں نمبر پر ہے۔ دُنیا کے بہترین ہسپتالوں میں پمز کی رینکنگ 5 ہزار 911 نمبر پر رہی ہے۔ سرکاری سطح پر بڑے ہسپتالوں سمیت صحت کے ڈھائی ہزار کے قریب مراکز ہیں لیکن صوبے کی 55 فیصد عوام سرکاری سطح پر علاج سے محروم ہیں۔ جب کہ صحت کے بجٹ میں مختص رقم ماہانہ 100 روپے سے بھی کم ایک شخص کے لیے خرچ ہوتے ہیں۔ صوبے میں صرف 45 فیصد افراد کی پہنچ میں سرکاری سطح پر صحت کی سہولیات ہیں۔ خیبر پختونخوا میں آبادی کے تناسب سے صحت کی سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ آبادی میں میں 4.76 جبکہ آبادی کی مناسبت سے ہسپتالوں میں بستروں کی مد میں 0.076 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل کی رپورٹ کے مطابق ملک کے پبلک سیکٹر میں اس وقت کل 62 مکمل ہسپتال (پنجاب میں26، سندھ میں20، خیبر پختونخواہ میں 12اور بلوچستان میں 4) ہیں۔ اس کے علاوہ مختلف نوعیت کے پورے ملک میں 58ہسپتال ہیں۔ جب کہ نجی شعبے (جن میں ٹرسٹ کے ہسپتال بھی شامل ہیں) میں قائم ہسپتالوں کی کل تعداد94 ہے۔ ان 214 ہسپتالوں میں سے ایک تہائی سے بھی کم تعداد میں ایسے ہسپتال ہیں، جن میں جدید طبی سہولیات میسر ہیں۔ صوبہ سندھ صوبے میں سرکاری صحت کے مراکز کی تعداد تقریباً ڈھائی ہزار ہے جن میں سے اکثریت عدم توجہ کے باعث کھنڈرات بن چکے ہیں۔ وہ ملک جس کی آبادی 21کروڑ سے تجاوز کر رہی ہے، ہسپتالوں کی یہ تعداد انتہائی ناکافی ہے۔ بڑے شہروں میں سرکاری سپتال زبوں حالی کی منہ بولتی تصویر بنے ہوئے ہیں۔ غریب اور نچلے متوسط طبقے کے لوگ (جو کل آبادی کا 70فیصد کے لگ بھگ ہیں) انھی سرکاری ہسپتالوں میں علاج کروانے پر مجبور ہیں، جہاں ہر قسم کی طبی سہولیات کا فقدان ہے۔ پاکستانی کبھی ڈینگی، سوائن فلو اور خسرہ جیسی وباؤں سے مر رہے ہیں تو کبھی پولیو جیسی بیماری زندگی کو موت سے بھی بدتر بنا دیتی ہے۔ ڈاکٹر، ادویات اور دیگر سہولیات سے محروم مریض کاسرکاری ہسپتالوں میں کوئی پُر سانِ حال نہیں۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق پاکستان آج بھی مجموعی قومی پیداوار کا صرف 2 فیصد شعبہ صحت پر خرچ کرتا ہے۔ صحت کے لئے مختص بجٹ بھی شفاف طریقے سے مکمل طور پر استعمال ہی نہیں کیا جاتا اور مالی سال ختم ہونے پر فنڈز واپس چلے جاتے ہیں۔ 22وڑ کی آبادی کے لئے چند ہزار سرکاری علاج گاہیں اور ان میں بھی ادویات، ڈاکٹر، پیرا میڈیکس سٹاف، بیڈز اور دیگر مشینری کی کمی نے مسائل کو مزید گھمبیر بنا دیا ہے۔ ورلڈہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق کسی بھی ہسپتال کے جنرل وارڈ اور آئی سی یو بیڈز کی شرح 50:1 ہونی چاہیے اور آئی سی یو کے ہر بیڈ پر ایک تربیت یافتہ نرس کا ہونا ضروری ہے لیکن ہمارے ہاں آئی سی یو میں ایک نرس 3 بیڈز کے لئے ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق پاکستان میں مریض اور نرس کی شرح 3626:1 ہے۔ ملک بھر کے 19 ٹیچنگ ہسپتالوں میں صرف 12ہزار بیڈز ہیں۔ انتہائی نگہداشت یونٹس کو متعلقہ تربیت یافتہ نرسنگ سٹاف اور وینٹی لیٹر کی شدید کمی کا سامنا ہے. ایک اندازے کے مطابق ہر 10 مریضوں میں سے ایک کو انتہائی نگہداشت یونٹ کی ضرورت ہوتی ہے۔ ملک کے 27 ڈویڑنز، 111 اضلاع اور 768تحصیلوں میں چھوٹی بڑی سرکاری علاج گاہوں کی تعداد 14ہزار کے قریب ہے، جن میں 989 بڑے ہسپتال، 5345 بی ایچ یوز، 722 رورل ہیلتھ سنٹر(آر ایچ سیز)، 2 سوٹی بی کلینک، 5 ہزار ڈسپنسریاں اور ایک ہزار میٹرنٹی اینڈ چائلڈ ویلفیئر سنٹرز شامل ہیں۔ پنجاب میں ساڑھے 5ہزار، سندھ سوا 4 ہزار، خیبرپختونخوا 2ہزار، بلوچستان ڈیڑھ ہزار اور وفاق میں تقریباً 2سو مراکز صحت ہیں۔ ان تمام چھوٹے بڑے مراکز صحت میں بیڈز کی تعداد ایک لاکھ 5ہزار سے 10ہزار کے درمیان ہے، جن کی تقسیم کچھ یوں ہے، ہسپتالوں میں تقریباً 85 ہزار، بی ایچ یوز 7ہزار، آرایچ سیز 10ہزار، ڈسپنسریاں 3 ہزار اور میٹرنٹی اینڈ چائلڈ ویلفیئر سنٹرز میں بیڈز کی تعداد تقریباً 3سو ہے۔
طب کی تعلیم فراہم کرنے والے اداروں کا معیار بھی تشویش کا باعث ہے۔ پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن (پی ایم اے) نے صحت عامہ کی مجموعی صورت حال سے متعلق اپنی سالانہ رپورٹ میں بتایا ہے کہ ملک میں لگ بھگ 118 میڈیکل کالجز ہیں جن میں سے بمشکل 10 ادارے معیاری تعلیم فراہم کر رہے ہیں۔ پاکستان میں طب کی تعلیم حاصل کرنے والوں میں 80 فیصد تعداد خواتین کی ہوتی ہے، جن میں سے بیشتر تعلیم مکمل ہونے کے فوری بعد اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کی ادائگی شروع نہیں کرتیں۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں لوگوں کو طبی سہولتوں تک عدم رسائی اور ڈاکٹرز کی کمی کی وجہ سے 80 فیصد زچگیاں گھروں پر غیر تربیت یافتہ دائیوں کے ہاتھوں ہوتی ہیں جس کی وجہ سے ہزاروں نوزائیدہ بچے اور مائیں زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں۔ پاکستان میں یہ شرح ہر ایک ہزار بچوں میں 43.1 بتائی گئی جو کہ کئی پسماندہ افریقی ملکوں کے مقابلے میں بھی زیادہ تھی۔ ملک میں ہر 1، 200 کے قریب افراد کے لیے ایک ڈاکٹر، لگ بھگ 1، 700 افراد کے لیے ایک ڈینٹسٹ اور 1، 700 مریضوں کے لیے ہسپتال کا ایک بستر ہے۔ بلاشبہ ہمارے پاس پیسے، ہسپتال اور ڈاکٹرز کی کمی ہے لیکن ان سب سے زیادہ ہمیں شفافیت کی ضرورت ہے۔ بجٹ کم ہے لیکن اگر اس پیسہ کا غلط استعمال روک دیا جائے تو کافی حد تک ریلیف مل سکتا ہے۔ علاج گاہیں کم ہیں لیکن زیادہ ضروری یہ ہے کہ پہلے سے موجود ہسپتالوں میں بہتر سہولیات کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے۔ ڈاکٹرز، پیرامیڈیکل و دیگر سٹاف کم ہے لیکن موجودہ افرادی قوت کی جدید تقاضوں کے مطابق ٹریننگ اور مراعات میں اضافہ سے بڑی حد تک مسائل پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ شعبہ صحت کے انتظامی معاملات، سروس سٹرکچر اور سیکیورٹی جیسے معاملات حل نہ ہونے کی وجہ سے آئے روز ڈاکٹروں کی ہڑتالیں معمول بن گئی ہیں۔ ہسپتالوں میں ادویات ہیں اور نہ مطلوبہ ڈاکٹرز جو ہیں وہ بھی اپنا کام احسن طریقے سے انجام دینے سے قاصر ہیں۔ بھاگ دوڑبہت دکھائی دیتی ہے لیکن عملاً آج ملک میں تمام سرکاری ہسپتالوں کے حالات یہ ہیں کہ انسانیت ہسپتالوں کی راہ داریوں میں سسکتی رہتی ہے۔ ملک بھر میں شائد ہی کوئی ایسا سرکاری ہسپتال ہو جہاں غریبوں کو مکمل احترام کے ساتھ علاج معالجے کی سہولت میسر ہو۔ ہر سرکاری ہسپتال میں مریضوں کی خواری روزانہ کا معمول بنتا جا رہا ہے، کوئی علاج کیلئے ترس رہا ہے تو کسی کی باری ہی نہیں آ رہی جبکہ ہسپتال کے گارڈز اور ڈاکٹرز کا آئے روز مریضوں کے لواحقین ساتھ مار پیٹ معمول بنتا جارہا ہے۔ لواحقین کا کہنا ہوتا ہے کہ ہسپتال عملہ پیسے لئے بغیر اندر نہیں جانے دیتا اور ڈاکٹرز کی توجہ مریضوں پر کم ہوتی ہے اگر انہیں کہا جائے تو لڑنے مرنے پر اتر آتے ہیں۔ سرکاری علاج گاہوں میں بیٹھے ڈاکٹرز کے رویوں کی شکایات زبان زد عام ہیں لیکن مقتدر حلقے اس کا نوٹس نہیں لیتے۔ سرکاری ہسپتالوں میں ڈاکٹرز و دیگر سٹاف کی کمی درست لیکن جو موجود ہیں انہیں تو مریض سے خوش اخلاقی سے پیش آنا چاہیے۔ سرکاری ہسپتالوں کے ڈاکٹرز مریضوں کو پرائیویٹ لیبارٹریوں سے ٹیسٹ کا مشورہ دیتے ہیں جس کی بڑی وجہ ہسپتالوں کی لیبارٹریوں میں تعینات ناتجربہ کارعملہ اور مشینری کی کمی ہے۔ انجیوگرافی کیلئے6سے7ماہ اور بائی پاس آپر یشن کیلئے کم ازکم 1سال کا وقت دیا جا تا ہے۔ پونے دو کروڑ لاہور کی آبادی میں دل کا صرف ایک ہسپتال ہے جبکہ لاہور سے ملحقہ اضلاع کے تمام مریض اسی ایک ہی ہسپتال میں آتے ہیں۔ سیالکوٹ، گوجرانوالہ، گجرات، منڈی بہاؤ الدین، فیصل آباد، سرگودھا، ساہیوال، قصور اور شیخوپورہ اضلاع کے مریض بھی اس واحد دل کے ہسپتال میں آتے ہیں، باقی سرکاری ہسپتالوں میں بھی دل کے وارڈ ہیں لیکن وہ ناکافی سہولیات رکھتے ہیں کہ مریض وہاں کا رخ ہی نہیں کرتے۔ بروقت آپریشن نہ ہونے کی وجہ سے 10فیصد غر یب مریض جاں بحق ہو جاتے ہیں۔ دیہی علاقوں میں قائم ہسپتالوں میں ڈاکٹرز کی حاضری 60فیصد سے بھی کم ہوتی ہے۔ ملک کے دورادراز علاقوں سے عوام کو علاج کیلئے لاہور، کراچی اور اسلام آباد آنا پڑتاہے۔ ہسپتالوں میں دوائیاں ہیں نہ وینٹی لیٹر بلکہ اب تو ڈاکٹرز بھی ناپید ہیں۔ دیہات میں 60فیصد بنیادی ہیلتھ مراکز عملاً بند پڑے ہیں جہاں ڈاکٹر ہے نہ دوائی۔ نتیجتاً غریب مریض عطائیوں کے ہاتھوں اپنی صحت اور پیسہ لٹارہے ہیں۔ انہی عطائیوں کی وجہ سے دیہات میں دل، گردے اور سانس کی بیماریاں عام ہورہی ہیں۔ دیہاتوں میں کئی بنیادی ہیلتھ سنٹر ایسے ہیں جہاں بلڈنگ بنا دی گئی لیکن ڈاکٹر سمیت کوئی سہولت دستیاب نہیں۔
آبادی کا 70 فیصد اپنے علاج معالجہ کیلئے پرائیویٹ کلینکوں اور ہسپتالوں کا رخ کرنے پر مجبور ہے۔ ۔ صحت کے شعبہ میں ترقی کیے بغیر کوئی بھی ملک ترقی کی منازل طے نہیں کر پاتا جبکہ علاج تک رسائی کسی بھی شہری کا بنیادی حق ہے۔

عابد ہاشمی

Abid Hashmi

عابد ہاشمی کے کالم دُنیا نیوز، سماء نیوز اور دیگر اخبارات میں شائع ہوتے ہیں۔ ان دِنوں آل جموں و کشمیر ادبی کونسل میں بطور آفس پریس سیکرٹری اور ان کے رسالہ صدائے ادب، میں بطور ایڈیٹر کام کر رہے ہیں۔