مہنگائی کا بے قابو جن غریبوں کونگل رہا، آسمان کو چھوتی ہوئی مہنگائی، بھوک و افلاس اور انتہائی شدید قسم کے غذائی بحرانوں نے عالمی سطح پر سر اٹھانا شروع کر دیا ہے۔ دُنیا کے متعددممالک میں مہنگائی کے آسیب نے خوفناک صورتحال سے عوام کو دوچار کر دیا ہے۔ مہنگائی کی اس صورتحال نے دہشت ناک منہ کھول رکھا ہے۔ اس خوفناک صورتحال نے پاکستان کو بھی بری طرح اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ چند برسوں میں روز مرہ کے استعمال کی اشیاء کی قیمتوں میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔ تعلیم، ادویات، کرایے، روز مرہ کی اشیاء غریب کی دسترس سے بالا تر ہوتی جارہی ہیں۔ نہ صحت، نہ تعلیم، نہ رہائش آخر غریب کے لیے ہے کیا؟ مہنگائی کے باعث کئی افراد خود کشی کرنے پرمجبورہو رہے ہیں۔ ملک کے غریب افراد نے مجبوراََ اپنے گردے فروخت کرتے ہیں جبکہ غربت اورمہنگائی کی وجہ سے کئی والدین نے اپنے بچے فروخت کرنے کا سلسلہ بھی شروع کرنے کے علاوہ غریب والدین نے اپنے بچوں کے گلے پر چھریاں چلا کر ہمیشہ کی نیند سلا رہے۔ مہنگائی کی اس خوفناک اور دہشت ناک صورتحال کو دیکھ کر مستقبل کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ مستقبل میں یہ ملک اور اس کی عوام کس صورتحال سے دوچار ہو سکتی ہے۔ عالمی بنک کے مطابق دنیا بھر میں اشیاء خورونوش کی بڑھتی ہوئی قیمتیں کروڑوں غریب افراد کو مزید غریبی کی گہرائیوں میں دھکیل سکتی ہے۔ ان چند برسوں میں روز مرہ کے استعمال کی اشیاء کی قیمتوں میں 200 فیصد تک اضافہ ہوگیا ہے۔ دُنیا بھر میں اس مہنگائی اور غذائی بحران نے کتنے افراد کے دلوں سے خوشیاں اور ہونٹوں سے مسکراہٹیں چھین رہی ہیں۔ عالمی سطح پر مہنگائی کا بول بالا ہے لیکن اگر ہم پاکستان کی بات کریں تو ہمارے ملک پاکستان میں خوردنی اشیاء مثلاََ سبزی، دالیں، گوشت اور دیگر اشیاء کی قیمتیں ساتویں آسمان پر پہنچ گئی ہیں مہنگائی کی سطح عروج پر ہے جو غریب عوام سے کوسوں دور ہے۔ ہمارے ملک میں مہنگائی نے عوام کا جینا محال کر دیا ہے معاشرے کا کون سا ایسا طبقہ ہے جو اس کمر توڑ مہنگائی سے براہ راست متاثر نہ ہواہو۔ غریب اور مزدور طبقے کی تو بات ہی مت پوچھیے ان کے یہاں تو چولہاجلنا بھی دشوار ہو گیاہے۔ بھوک، افلاس، فاقہ کشی کا منظر، بھوک سے بلبلاتے بچے اس ناگفتہ صورتحال میں مزید پیٹرول، گیس، بجلی کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ بھی عوام کی مشکلات و پریشانی میں اضافے کا باعث بنا ہوا ہے۔ مملکتِ خداداد کی عوام جس صورتحال سے دوچار ہے وہ انتہائی تشویشناک ہے۔ مہنگائی کے منہ زور طوفان نے کئی مشکلات کھڑی کر دی ہیں۔ پیپرز مہنگا، کئی صنعتیں بند، کچھ شدید مشکلات سے دوچار، اسی باعث کئی افراد بے روزگار ہو ئے، غریب دو وقت کی روڑی کے لیے پریشان۔ یہی وجہ ہے کہ ملک میں خوردنی اشیاء کی قلت اور مہنگائی دن بدن شدت اختیار کرتی جا رہی ہے جس نے غریبوں کا خون تک نچوڑ لیا ہے۔ پا کستا نی معیشت کا اتار چڑھاؤ عدم استحکام کا شکار ہے جو اصل اور بنیادی مسئلہ ہے۔ پٹرول، ڈیزل اور بجلی کے نرخوں میں اضافہ صرف مہنگائی بڑھنے کا ہی نہیں بلکہ گداگری اور غربت میں اضافے کا بھی دوسرا نام ہے۔ لوگ مہنگائی کے سبب پیٹ کاٹ کاٹ کر جینے پر مجبور ہیں۔ بیشتر گھرانے ایسے ہیں، جہاں مہینے کا اکٹھا سامان لانے کا رواج دن بہ دن ختم ہوتا جا رہا ہے ان لوگوں کا کبھی خیال نہیں ہوتا جو پورا دن فٹ پاتھوں پر بیٹھ کر مزدوری کی تلاش میں رہتے یا جو اعلیٰ تعلیم کے باوجود دس پندرہ ہزار میں کام کرتے۔ اقوام متحدہ کی ایک تازہ رپورٹ کیمطابق ملک میں گزشتہ تین برسوں کے دوران مہنگائی میں دُگنا اضافہ ہوا ہے۔ سب سے زیادہ اضافہ اشیائے خورو نوش کی قیمتوں میں ریکارڈ کیا گیا۔ اور پھر اس مہنگائی کے باعث کئی غربت کے مارے تعلیم سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ 2017 کے مقابل میں 2018 میں تعلیم کی مہنگائی میں 18فیصد اضافہ ہوا۔ اب تعلیمی کتابیں کاپیاں دیگر تعلیمی اخراجات والدین کے لیے ایک بڑا چیلنج بن چکا۔ اس کے علاوہ خور و نوش کی اشیاء ادویات مہنگی ہونے سے غریب کی زندگی اجیرن ہو رہی۔ وطنِ عزیز کے حوالہ سے ایشین ڈویلپمنٹ بینک نے مالی سال 2018 کے دوران شرح نمو میں ایک فیصد کمی، مہنگائی میں 2 پوائنٹ اضافہ کے بارہ میں آگاہی فراہم کی تھی۔ اے ڈی بی نے ایشین ڈویلپمنٹ آؤٹ لک 2018 جاری کرتے ہوئے پاکستان کو تجویز دی تھی کہ بڑھتے ہوئے قرض، گرتے ہوئے زخائر اور دو بڑے خسارے کے مسائل پر توجہ دی جائے۔ اس حوالے سے انہوں نے بتایا جی ڈی پی کا تناسب 4.8 تک پہنچ سکتا ہے جو مالی سال جون 2018 میں 5.8 فیصد تھا۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ اے ڈی پی کی جانب سے گزشتہ مالی میں کی گئی پیش گوئی کے مقابلے میں پاکستان کا شرح نمو 5.8 فیصد تھا۔ اس ضمن میں واضح کیا گیا کہ بھاری بجٹ اور بیرونی توازان کو کام کرنے کے غیرمعمولی اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے کیونکہ 2019 کے لیے شرح کی رفتار بہت کم ہے۔ اے ڈی بی کے مطابق گزشتہ مالی سال میں مہنگائی کا تناسب 4.5 فیصد رہا جبکہ رواں مالی سال کے اوائل میں مہنگائی کی شرح 6.5 فیصد ہوجائے گی۔ بینک نے پاکستان کو معاشی بحران سے نکلنے کے لیے دیگر ممالک کے وسائل استعمال کرنے کے لیے اقدامات کی اشد ضرورت ہے۔ اصل چیلنج صحیح اصلاحات اور مثبت نتائج کا حصول ہے۔ اے ڈی بی کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ ’4.8 فیصد کی کامیاب گروتھ کا تعلق فنانس کے حصول میں کامیابی، سیکیورٹی میں بہتری، توانائی کی مناسب ترسیل سمیت پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) میں مسلسل سرمایہ کاری سے ممکن ہے،۔ روپے کی قدرمیں کمی اور عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے رواں مالی سال 2019 میں سالانہ مہنگائی کی شرح 6.5 فیصد ہو سکتی ہے۔ مہنگائی کے کھانے پینے کی چیزوں سمیت دیگر روزمرہ کی اشیا پر بھی پڑھیں گے جو گزشتہ سال 3.2 فیصد جو رواں مالی سال کے ابتدائی 5.8 فیصد ہوگی۔ آزادی پاکستان کے وقت بہت کم وسائل اور سرمایہ موجود تھا اور ترقی کا عمل بہت سست تھا۔ ملک میں سب سے بڑا مسئلہ غربت کا ہے۔ غربت کی ایک اور وجہ کرپشن ہے، کرپشن کی ہمارے معاشرے میں مختلف اقسام ہیں جس کی وجہ سے نظام کا بنیادی ڈھانچا بیرونی طور پر مضبوط مگر اندرونی ساخت کو دیمک چاٹ چکی ہے، عالمی شماریاتی ادارے کیمطابق پاکستان کرپشن کی فہرست میں 24 ویں نمبرپر ہے۔ کچھ لوگوں کا وسائل پر قبضہ کرنااور عام مزدور طبقے کو متوسط رکھنا ہے۔ بھاری ٹیکسوں سے کچل کربیروزگاروں کو غربت کی لکیر سے نیچے رہنے پرمجبور کر دیا جاتاہے۔ مزدور طبقہ اور عام آدمی کو بنیادی ضرورتوں سے محروم رکھا جاتا ہے۔ خصوصی طو ر پر صحت و علاج، پانی، انصاف کی فراہمی، مہنگائی، ملازمت، قرضوں کی فراہمی اور تعلیم جیسی بنیادی سہولیات پر بھی عدم دلچسپی کا مظاہرہ کیا جاتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں آپسی تعلقات میں شدت کا عنصر تیزی سے بڑھتا جا رہاہے، ایک دوسرے پر سبقت کی دوڑ میں، ہر شخص اپنے مفاد کی خاطراپنی ضروریات کی تکمیل کے حصول کیلئے انسانی قدروں کو پامال کر رہا ہے، کوئی بھی ایک دوسرے کی مدد کیلئے تیار نہیں ہے، دولت کے نشے نے آخر میں ما دی ترجیحات کو انسانیت سے بلند کر دیا ہے، ہمارا اقتصادی نظام تباہ ہوکر رہ گیا ہے۔ اس عمل سے اجارہ داری جنم لے رہی ہے جو کہ معاشرے میں غربت کی ایک او ر وجہ ہے، زیادہ تر لوگ آمدنی کے جدیدذریعے سے واقف ہی نہیں، زیادہ تر لوگ جدید ٹیکنالوجی کو اپنے کاروباری ضروریات کے لیے اپنانے کے قابل ہی نہیں ہیں، یہی وجہ ہے کہ کاروبار میں آمدنی کی کمی اور بین الاقومی معیار کے نتائج سامنے نہیں آتے۔ پاکستان کا کاروباری طبقہ محدود ہے، تعلیم کی کمی کے باعث نچلا طبقہ اور مزدور اپنے حقوق سے آگاہ ہی نہیں ہیں۔ حکومت اداروں کو منظم کرنے میں ناکام رہی ہے۔ حکومت کی جانب سے چلائے جانیوالے اداروں کو غیر ملکی سرمایہ داروں کو بیچا جارہا ہے، مارکیٹ میں مصنوعی قلت پیدا کر کے اشیاء کو مہنگا کردیا جاتا ہے، اجارہ داری کے منصوبوں کے تحت کمیشن لے کر ڈیل کی جاتی ہے اور آخر میں تمام بوجھ صارف کو ہی اٹھانا پڑتا ہے یہی وجہ مہنگائی اور غربت میں مزید اضافے کا باعث بنتی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ان بے ضابطگیوں کو غور طلب فیصلوں سے حل کیا جائے۔ ہماری قوم کی خوش قسمتی ہے کہ کوئی بھی مسئلہ ایسا نہیں ہے جس کا حل موجود نہ ہو، مگر بد قسمتی اس بات کی ہے کے ہم اپنی اصلاح کرنا ہی نہیں اگر آج بھی ہم نے کوئی سنجیدہ قدم نہ اٹھایا تو ہم لوگ کبھی مہنگائی اور غربت سے باہر نہیں نکل سکیں گے۔ جب تک غریب کی زندگی، ذریعہ آمدن، اس کے اخراجات کو مد نظر رکھ کر پالیسی نہیں بنائی جائے گی تب تک عوام اسی طرح پریشانیوں، مہنگائی اور غربت کے لپیٹ میں رہیں گے۔