جب ہم تاریخ پر نظر ڈالتے ہیں تو ہم کو افراط و تفریط کی کھینچ تان کا ایک عجیب سلسلہ نظر آتا ہے۔ ایک طرف ہم دیکھتے ہیں کہ وہی عورت جو ماں کی حیثیت سے آدمی کو جنم دیتی ہے اور بیوی کی حیثیت سے زندگی کے ہر نشیب و فراز میں مرد کی رفیق بنی رہتی ہے۔ اسلام سے قبل اس کے پیدا ہوتے ہی زندہ درگور کردیا جاتا ہے۔ اس کی پیدائش کو نحوست تصور کیا جاتا ہے۔ اس کو ملکیت اور وراثت کے تمام حقوق سے محروم رکھا جاتا ہے۔
اس کو گناہ اور ذلت کا مجسمہ سمجھا جاتا ہے۔ پھر اسلام کا عظیم الشان دور آتا ہے، جو سسکتی انسانیت کے لئے مسیحا ثابت ہوا۔ مرد و زن کو اس نوخیز مذہب نے وہ احکامات اور تعلیمات دی جو دونوں کی جسمانی اور حیاتیاتی سانچوں کے عین مطابق ہے۔ دوسری طرف مغربی جدید تہذیب کا بڑھتا ہوا سیلاب نظر آتا ہے کہ وہی عورت اٹھائی اور ابھاری جا رہی ہے مگر اس شان سے کہ اس کے ساتھ بداخلاقی اور بدنظمی کا طوفان بھی اٹھ رہا ہے۔
تاریخ کے سفینے میں قیام دُنیا کے بعد بے شمار تہذیبوں نے اپنے پیر پسارے۔ ان کے ماننے والوں نے اپنی تعلیمات کو بساطِ قوت سے زیادہ پھیلانے کی کوشش کی۔ جس کے عوض اس قوم کو اپنے ہی دور میں تہذیب ساز جیسے خطاب ملے لیکن تاریخ گواہ ہے کہ وہ قوم اپنی لنگڑی، ادھوری تہذیب اور بے اصل نظریات کے ساتھ دفن ہوگئی۔ آج ہمارے معاشرے میں سب سے اہم صنفی امتیازہے۔
عورت کو آدھی دُنیا کہا گیا اور اس کو کسی بھی سماج یا ازم کیلئے نظر انداز کرنا آسان نہیں ہے، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ عورت انسانی حیات کی گاڑی کا لازمی پہیہ ہے۔ لیکن انسانی تاریخ کا یہ المیہ ہے کہ عورت آدھی دُنیا ہونے کے باوجود اسے وہ اہمیت و حیثیت نہیں دی گئی جس کی واقعتاََ وہ مستحق ہے۔ جس طرح قدیم تہذیب و تمدن نے عورت کے وقار کو تباہ کیا اسی طرح جدید تہذیب نے بھی اسے شو پیس بنایا، اسے استعمال تو کیا لیکن اسے عزت نہیں بخشی۔
نمایاں تو کیا گیا لیکن عورت کے عورت پن کے خاتمے کی قیمت پر، آج وہ زندگی کے ہر شعبے میں نمایاں تو نظر آتی ہے لیکن یہ نمائندگی عزت و عصمت، حیا و شرم گنوانے کی قیمت پر ملی۔ ہمارا معاشرہ عمومی طور پر مشرقی روایات کا حامل ہے جن میں سے اکثر قابل فخر ہیں جیسا کہ والدین کا احترام اور بزرگوں سے حسن سلوک وغیرہ۔ لیکن خواتین کے بارے میں ہمارا مجموعی طرز عمل قابلِ تحسین نہیں ہے۔
ابتدائی تہذیبوں میں مردوں کی وجہ سے جنگوں میں فتح کے حصول اور کھیتوں میں ہل چلانے وغیرہ جیسے جسمانی کاموں میں سہولت حاصل ہوتی تھی، لیکن یہ مردانہ برتری اس جدید مشینی دور میں بھی قائم ہے۔ بچی کی پیدائش کے ساتھ ہی امتیازی سلوک کا آغاز ہو جاتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں نوزائیدہ بچی کے ساتھ بھی ناروا سلوک برتا جاتا ہے۔ اس سے کوئی الفت کا اظہار نہیں کرتا، کہیں تو بچی کی پیدائش پر قتل تک کر دی جاتی ہیں، ان کی مائیں جان سے جاتی ہیں۔
بچیوں کو ابتداء سے ہی اپنے بھائیوں کی خدمت کا فریضہ سر انجام دیا جاتا ہے۔ انہیں بات تک کرنے کی اجازت نہیں ہوتی۔ بھائی بے شک کچھ بھی کریں لیکن لڑکیوں سے کپڑے دھونے، جوتیاں پالش کرنے، گاس کاٹنے، کھانے بنانے و دیگر گھریلو ذمہ داریوں کے بوجھ تلے دبا کر صنفی امتیاز کی بنیاد رکھی جاتی ہے اور پھر جائیداد میں حقوق سے محرومی، تعلیم میں حق تلفی تو معمول کا حصہ ہیں۔ علاوہ ازیں عزت، غیرت کے نام پر قتل، تشدد ہمارے معاشرے میں تو عام سی بات ہے۔
کم پڑھے لکھے لوگ بچیوں کی باقاعدہ تعلیم سے احتراز برتتے ہیں اور زیادہ پڑھے لکھے لوگ اپنے بچوں کا تو اعلیٰ تعلیمی اداروں میں داخلہ کراتے ہیں لیکن بچیوں کی تعلیم کا کم معیاری تعلیمی اداروں میں بندوبست کرتے ہیں۔ ایسے والدین کی ساری توجہ بچیوں کو گھر گرہستی میں طاق کرنے پہ مرکوز رہتی ہے جو کہ سراسر ناانصافی ہے۔ بچپن کے بعد نوجوانی میں اگر بالفرض لڑکے اخلاقی بے راہ روی کا شکار ہو جائیں تو والدین عموماََ چشم پوشی کرتے ہیں جس سے ان کو مزید برائیاں کرنے کی شہ ملتی ہے۔
اس کے برعکس لڑکیوں کی معمولی غلطیوں سے بھی درگزر نہیں کیا جاتا اور انھیں سخت سے سخت سزا دی جاتی ہے۔ سب سے بڑی سزا ان کی مرضی کے خلاف شادی ہے جس میں نہ تو شوہر سے ان کی ذہنی ہم آہنگی کا خیال روا رکھا جاتا ہے اور نہ ہی شوہر کی مالی آسودگی کا۔ ہمارے معاشرے میں کئی خواتین ایسی بے جوڑ شادیوں کی وجہ سے مسائل کا شکار ہیں۔ انھیں جابر شوہروں کی بے جا سختیوں اور بعض صورتوں میں جسمانی تشدد کا بھی سامنا ہے۔
مگر وہ مالی اور جسمانی طور پر کمزور ہونے کے باعث کوئی اصلاحی اقدام اٹھانے سے قاصر ہیں۔ اکثر والدین بیٹوں اور بیٹیوں میں مالی طور پر بھی فرق روا رکھتے ہیں۔ وہ بیٹیوں کی شادی کے موقع پر انھیں تھوڑا سا جہیز دے کر اپنے آپ کو ان کی ہر ذمہ داری سے بری الذمہ سمجھتے ہیں۔ جب کہ حق وارثت اللہ تعالیٰ نے انہیں حق دیا ہے۔ لیکن نکھٹوں بیٹوں کی عیاشیوں کے لئے ان کی تجوریوں کے منہ کھلے رہتے ہیں۔
والدین کی وفات کے بعد بھائی، بہنوں کو ان کا جائز شرعی حق نہیں دیتے اور مختلف حیلوں بہانوں سے ان کی حق تلفی کی جاتی ہے۔ اس طرح عمر بھر خواتین کے ساتھ ناانصافیوں کا لامتناہی سلسلہ جاری رہتا ہے۔ آج دُنیا تسلیم کرنے لگی ہے کہ عورت معاشرے کا اتنا ہی اہم حصہ ہے جتنا کہ مرد۔ تاہم، اس کے باوجود آج بھی خواتین کو صنفی امتیاز اور عدم مساوات کا سامنا ہے۔
ترقی یافتہ ممالک ہوں یا ترقی پذیر۔ ہر معاشرے میں عورت اپنے جائز مقام اور مردوں کے مساوی حقوق حاصل کرنے کے لیے سخت جدوجہد کر رہی ہے۔ پاکستان کی کل آبادی میں خواتین کا تناسب باون فیصد کے قریب ہے مگر عملاً 3 سے 5 فیصد خواتین عملی زندگی میں مردوں کے شانہ بشانہ معاشرے کی تعمیر و ترقی میں اپنا کردار ادا کر رہی ہیں جبکہ باقی ماندہ خواتین ماں، بہن، بیوی اور بیٹی کے روپ میں مردوں کے بالادست معاشرے میں ان کے زیر نگہبان ہونے کی وجہ سے غلامی کی زندگی بسر کر رہی ہیں۔
یہ غلامی معاشرتی جبر کی وجہ سے رضاکارانہ اور خاندانی نظام کو برقرار رکھنے کی عورت کے کندھوں پر ذمہ داری کا بھی شاخسانہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اکثر عورتیں خود مردوں کے شاونزم کو برقرار رکھنے میں برابر کی شریک ہیں۔ اب بھی جہاں خواتین مردوں سے بہتر لیڈرشپ یا منتظم یا تخلیقی صلاحیتوں والی ادیب، شاعرہ، مصورہ یا کھلاڑی دکھائی دیتی ہیں۔ وہیں اسے مردوں کی بالادست سوسائٹی میں جنسی امتیاز کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
صدائے وقت ہے کہ ذرائع ابلاغ کے ذریعے اس صنفی تفاوت کو ختم کیا جائے۔ یہ ہم سب کی ذمہ داری ہے تاکہ خواتین بھی بغیر کسی دباؤ کے اپنی زندگی گزار سکیں اور تربیت اولاد کے ساتھ ساتھ معاشرتی اصلاح اور معاشی خوشحالی میں اپنا کردار ادا کر سکیں۔ عدل و انصاف کے بغیر معاشرہ مکمل نہیں ہوتا۔ تاریخی اوراق پلٹیں تو پتہ چلتا ہے کہ مہذب اور ترقی یافتہ معاشرے عدم مساوات اور امتیازی سلوک روا رکھنے کے سبب ہی تنزلی کا شکار ہوئے۔ دور جدید میں پائیدار ترقی کے خواہش مند تمام ممالک کو عدم مساوات اور امتیازی سلوک کا خاتمہ کرنا ہوگا۔