چولستان میں پانی کا بحران سنگین تر ہو چکا ہے جہاں بھیڑ بکریوں سمیت سینکڑوں جانور پیاس سے ہلاک ہو چکے ہیں۔ ہر جاندار کی بنیادی ضرورت پانی ہے جس کی عدم دستیابی زندگی کا وجود مشکل ہی نہیں نا ممکن بنا دیتی ہے۔ ہماری بے حسی و لاپرواہی کے باعث ہم اس قدرتی نعمت سے محروم ہوتے جا رہے ہیں۔ ہمارے وطنِ عزیز پاکستان بشمول وادیِ کشمیر میٹھے اور صاف قدرتی پانی کے ذخائز ختم ہوتے جا رہے ہیں۔
وادیِ کشمیر میں مکمل انحصار قدرتی چشموں پر کیا جا رہا ہے، اب وہ ختم ہونے کے قریب ہیں، جس کے باعث دور افتادہ گاؤں سے پانی لایا جاتا ہے، جہاں پانی کی کمی کے باعث لڑائیاں جھگڑے معمول بنتے جا رہے ہیں۔ یہ ایک تشویش ناک صورت حال ہے جس کی وجوہات ہمارا پانی کو فضول ضائع کرنا، نلکے، ٹونٹیاں کھلی چھوڑ دَینا اور جنگلات کی بے دریغ کٹائی شامل ہیں۔ کوئی بھی بحران حادثاتی طور نہیں ہوتا، اس کے پس پردہ کئی محرکات، انسان کی اپنی کوتائیاں، بے حسی اور بروقت منصوبہ بندی نہ کرنے جیسے عوامل شال ہوتے ہیں۔
پانی کا مسئلہ آج سے نہیں، ہمیں قدرتی نظام بار بار آگاہی دے رہا ہے۔ لیکن ہم بے حس ہی ہیں، جس سے بحران شدت کرتا جا رہا۔ آبی سنگین صورت حال کا اظہار پاکستان کونسل برائے تحقیق آبی ذخائر(پی سی آر ڈبلیوآر) بھی کر چکا۔ ادارے کی رپورٹ میں متنبہ کیا گیا ہے کہ 2025ء تک پاکستان کو شدید پانی کی قلت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ کونسل کی طرف سے جاری کردہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ وطنِ عزیز 1990 میں ان ممالک کی فہرست میں تھا جہاں آبی ذخائر کم آبادی زیادہ تھی۔
2005 میں پاکستان کا شمار ان ممالک میں ہوا جن میں پانی کے آبی ذخائر کم ہیں رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ پاکستان ان 17 ممالک میں شامل ہے جنہیں پانی کی اشد کمی کا سامنا ہے۔ بڑھتی ہوئی آبادی اسے مزید گھمبیر کر رہی ہے جو کہ 2030ء تک پچیس کروڑ سے بھی تجاوز کر جائے گی، اس بات کا اندازہ اس رپورٹ سے با آسانی لگایا جا سکتا ہے کہ قیامِ پاکستان کے وقت ہر شہری کے لیے 5000 کیوبک میٹر تھا جو کہ موجودہ وقت میں 1 ہزار کیوبک میٹر رہ گیا ہے اور 2025ء تک 8 سو کیوبک میٹر رہ جائے گا۔
رپورٹ کی تیاری میں دُنیا کے پچاس ممالک سے 200 سائنس دانوں نے شرکت کی، عالمی اداروں کے جائزوں، رپورٹ کے مطابق ایک عشرے کے دوران دُنیا کے شہروں میں 114 ملین افراد کا اضافہ ہوا، جن کے گھروں میں یا گھروں کے نزدیک پینے کا صاف پانی دستیاب نہیں ہے۔ دُنیا میں گندا پانی پینے والوں کی تعداد 80 کروڑ کی لگ بھگ ہے۔ 2017ء کی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ پاکستان کے پانی میں زہریلے مادے شامل ہیں۔ جب کہ 70 فیصد آبادی زیر زمین پانی استعمال کر رہی ہے جس کے باعث بیماریاں پھوٹ رہی ہیں۔
ماہرین کے مطابق سنہ 2025 تک پاکستان خشک سالی کا شکار ہو سکتا ہے، اس وقت ملک کی 85 فیصد آبادی پینے کے صاف پانی سے محروم ہے۔ پاکستان دنیا کے ان 17 ممالک میں شامل ہے جو پانی کی قلت کا شکار ہیں۔ اعداد و شمار کے مطابق جب پاکستان وجود میں آیا تو اس وقت ہر شہری کے لیے 5 ہزار 6 سو کیوبک میٹر پانی تھا جو اب کم ہو کر 1 ہزار کیوبک میٹر رہ گیا ہے اور سنہ 2025ء تک 800 کیوبک میٹر رہ جائے گا۔
پاکستان میں زراعت اور پینے کے لیے زیر زمین پانی استعمال کیا جاتا ہے جس کی سطح تیزی سے کم ہو رہی ہے۔ پاکستان زیر زمین پانی استعمال کرنے والا دُنیا کا چوتھا بڑا ملک ہے۔ ملک میں استعمال ہونے والا 80 فیصد پینے کا پانی یہی زیر زمین پانی ہے جو زمین سے پمپ کیا جاتا ہے، اسی طرح زراعت کے لیے بھی ملک بھر میں 12 لاکھ ٹیوب ویل زمین سے پانی نکال رہے ہیں۔ اس بے تحاشہ استعمال کی وجہ سے ہر سال زیر زمین پانی کی سطح ایک میٹر نیچے چلی جاتی ہے۔
دوسری جانب ملک کی 85 فیصد آبادی پینے کے صاف پانی سے بھی محروم ہے، ملک کا 92 فیصد سیوریج کا پانی براہ راست دریاں اور نہروں میں شامل ہو جاتا ہے۔ اس آمیزش کی وجہ سے 5 کروڑ افراد سنکھیا کے زہریلے اثرات کی زد میں ہیں۔ اس گندے پانی کی وجہ سے ہر سال 52 ہزار بچے ہیضہ، اسہال اور دیگر بیماریوں سے جاں بحق ہوتے ہیں۔ اس وقت معیشت کا ڈیڑھ فیصد حصہ اسپتالوں میں پانی سے متعلقہ بیماریوں کے علاج پر خرچ ہو رہا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں قلت آب کا مسئلہ شدید تر ہو رہا ہے اور سنہ 2025 تک ملک خشک سالی کا شکار ہو سکتا ہے دُنیا میں پانی کے بحران کا شکار ممالک کی فہرست میں پاکستان تیسرے نمبر پر ہے، علاوہ ازیں پاکستان کے 24 بڑے شہروں میں رہنے والے 80 فیصد لوگوں کو صاف پانی تک رسائی حاصل نہیں ہے، اور صرف کراچی کی کچی آبادیوں میں رہنے والے 1 کروڑ 60 لاکھ گھروں میں پانی آتا ہی نہیں ہے۔
ایک اور رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 3 کروڑ افراد صاف پانی تک رسائی سے بھی محروم ہیں اور یہاں فی شخص سالانہ پانی کی دستیابی (1 ہزار کیوبک) میٹر سے بھی کم ہے، اگر یہ فی شخص سالانہ 500 کیوبک میڑ تک پہنچ جاتا ہے تو عین ممکن ہے کہ 2025ء تک پانی کی قطعی کمی واقع ہو جائے۔ پاکستان میں پانی کے بحران میں بہت سے عوامل کارفرما ہیں، جیسے شہری علاقوں میں آبادی میں تیزی سے اضافہ، زراعت، پانی کے نظام کی بد انتظامی اور آب و ہوا (ماحولیاتی) میں تبدیلی۔
آبادی کے لحاظ سے پاکستان دُنیا کا چھٹا بڑا ملک ہے 2017 میں یہاں آبادی 18 کروڑ تھی جو اب 22 کروڑ تک پہنچ چکی ہے، اس لحاظ سے 2025 تک پاکستان کی پانی کی طلب 274 ملین ایکڑ فٹ، جبکہ پانی کی فراہمی 191 ملین ایکڑ فٹ تک ہو سکتی ہے۔ پاکستان ایک زرعی ملک ہے اور ہماری معیشت کا انحصار بھی زراعت پر ہی ہے۔ پُرانے فرسودہ کاشتکاری کے رائج طریقہ کار کی وجہ سے فصلوں کی کاشت میں 95 فیصد ملک کا پانی استعمال ہو جاتا ہے جو نہایت سنگین ہے، آبپاشی کے ناقص نظام کی وجہ سے 60 فیصد ملک کا پانی ضائع ہو رہا ہے۔
ماہرین کے مطابق زیر زمین پانی کے استعمال کی پالیسی شروع کی جانی چاہیئے۔ ماہرین کے مطابق میدانی اور صحرائی علاقوں میں زیر زمین پانی کے ذخائر محفوظ بنانے، ڈیموں کی تعمیر اور پانی کے ضیاع کو روکے جانے کی سخت ضرورت ہے۔ خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ صورتحال یہی رہی تو ممکن ہے کہ 2025ء تک ملک میں پانی کا شدید بحران ہو گا۔ پانی کا یہ مسئلہ نیا نہیں لیکن آہستہ آہستہ سنگین نوعیت اختیار کر رہا ہے، ہم دنیا کے ان 36 ممالک میں شامل ہیں جہاں پانی کا سنگین بحران ہے۔
اسی حوالہ سے اقومِ متحدہ کے ماحولیاتی پروگرام UNEP کی جانب سے 1999 میں رپورٹ جاری ہوئی تھی جس میں خدشہ ظاہر کیا گیا تھا کہ کرہِ ارض کے دوبڑے خطوں میں ایک مسئلہ پانی کا بھی ہے جس پر تیسری عالمی جنگ بھی ممکن ہے۔ چولستان آبی تشویش ناک صورتحال ہمیں آج بھی وارننگ دے رہی ہے کہ آبی مسائل کا حل کیا جانے کے لئے بروقت منصوبہ بندی کی جائے، ورنہ یہ بحران انسانی زندگیوں کو خطرے سے دو چار کر سکتا ہے۔