کسی بھی ملک و قوم کی تباہی میں کرپشن کا بنیادی کر دار ہو تا ہے۔ جب ذاتی مفادات ملک و قوم سے مقدم ہو جاتے تباہی یقینی ہوتی ہے۔ اسی لیے کرپشن کو "ام الخبائث" بھی کہا جا سکتا ہے۔ کرپشن، بد عنوانی پاکستان کا مسئلہ ہی نہیں ہے، بلکہ یہ بین الاقوامی مسئلہ ہے۔ کیونکہ بے بہا برائیاں اس کی کوکھ سے جنم لیتی ہیں۔ کرپشن اعلیٰ اقدار کی دشمن ہے، جو معاشرے کو دیمک کی طرح چاٹ کر اندر سے کھوکھلا کر دیتی ہے۔ چاہے یہ کسی بھی صورت میں ہو، جس قوم میں جتنی زیادہ کرپشن ہو وہ قوم اتنی ہی جلدی بربادی کے گڑھے میں جاگرتی ہے۔ اگر کسی قوم کے رگ و پے میں کرپشن سرایت کرجائے تو وہ اپنی شناخت و ساخت اور مقام و مرتبے سے یوں ہاتھ دھو بیٹھتی ہے، جیسے کوئی بلند مقام کبھی اس قوم کو ملا ہی نہیں تھا۔ کرپشن وسیع مفہوم رکھتا ہے۔ اُردو میں اس کے معنی بدعملی، بدعنوانی، بداخلاقی، بگاڑ اور بدکاری استعمال ہوتے ہیں، جب کہ عربی میں "کرپشن" کا لفظ الفساد، انحراف اور مفسد کے معنیٰ میں استعمال ہوتا ہے۔ کرپشن کا لفظ ہر زبان، ہر ملک اور ہر معاشرے میں گھناؤنے اور منفی کاموں کے لیے بولا جاتا ہے اور ناپسندیدگی کے ساتھ اس کا اظہار کیا جاتا ہے، کیونکہ یہ کسی صورت بھی اچھا عمل نہیں ہے۔ دُنیا بھر میں حکومتوں کی کارکردگی میں شفافیت اور کرپشن کا جائزہ لینے والی عالمی تنظیم ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل (ٹی آئی) نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ جنوبی ایشیا کا خطہ سب سے زیادہ بدعنوانی کا شکار ہے، اور پاکستان سمیت چھ ملکوں (بھارت، بنگلہ دیش، مالدیپ، نیپال اور سری لنکا) میں انسداد بدعنوانی کی کوششوں کی راہ میں بڑی سنگین رکاوٹیں حائل ہیں۔ ایسے وقت میں جب وطن عزیز ان گنت مشکلات سے دوچار ہے۔ مصائب کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر ملک کو چاروں طرف سے گھیرے ہوئے ہے۔ ملک کو درپیش اندرونی و بیرونی مسائل اس قدر طویل ہیں، جن کا شمار ناممکن کے قریب ہے۔ ان میں امُ المسائلدوہیں، اوّل بڑھتی آبادی اور دوئم بڑھتی کرپشن ہے۔ آ ج ایک طرف مُلک میں اَمر بیل کی طرح پھیلتی کرپشن ہے تودوسری طرف تیزی سے بڑھتی آبادی ہے۔ اقوام متحدہ کے ادارے یواین فنڈ فارپاپولیشن نے پاکستان سمیت دنیا بھر کے ممالک کی آبادی کی جائزہ رپورٹ پیش کردی ہے، جس کے مطابق پاکستان آبادی کے لحاظ سے دنیا کا پانچواں بڑامُلک ہے جس کی آبادیتقریباًبائیسکروڑ نفوس پر مشتمل ہے۔ آبادی کی شرح نموسالانہ24فیصد ہے، زچہ کی اموات کی شرح ایک لاکھ میں 178ہے، جبکہ اِسی رپورٹ میں یہ بھی کہاگیاہے کہ عالمی سطح پر چھوٹے خاندانوں کا رجحان بڑھ رہاہے رپورٹ میں ساتھ ہی یہ خدشہ بھی ظاہر کیا گیاہے کہ آبادی میں تیزی سے اضافہ سے معاشرتی ترقی متاثر اور لوگوں کے معیاری زندگی سمیت معیشت، ماحول، صحت اور تعلیم پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ جس طرح پاکستان کی آبادی تیزی سے بڑھ رہی ہے اگر اِس کی رفتاریوں ہی رہی تو بہت جلد پاکستان آبادی کے لحاظ سے دنیا کا دوسرا یا تیسرا بڑا مُلک بن جائے گا۔ اور پھر دوسرا بڑا مسئلہ کرپشن : پاکستان بھی ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کے کرپشن پرسیپشن انڈکس 2013 کے مطابق اُن 123 ممالک میں شامل تھا جو بدعنوانی کے سنگین مسئلہ کا شکار ہیں۔ کیونکہ گلوبل کرپشن بیرومیٹر 2013 کے مطابق پاکستان کا شمار اُن 83 ممالک میں ہوتا ہے جہاں کے عوام نے اپنے ملک میں بدعنوانی میں اضافہ کی تائید کی ہے۔ جنوبی ایشیاء کے ممالک افغانستان، بنگلہ دیش، انڈیا، مالدیپ، نیپال، پاکستان اور سری لنکاکے عوام میں سب سے زیادہ رائے دہندگان کے تناسب کا تعلق پاکستان اور نیپال سے ہے۔ جنہوں نے کہا ہے کہ اُن کے ملک میں بدعنوانی میں اضافہ ہوا ہے۔ یوں ہمارا بدعنوانی کے حوالے سے جو تشخص دنیا کے سامنے آرہا ہے اُس کی منظر کشی ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کے Corruption Perception Index 2013 کے مطابق پاکستان دُنیا کے 177 ممالک میں آذربائیجان، کمروس، گیمبیا، لبنان، مڈگاسکر، مالی، نکاراگوا اور روس کے ہمراہ 127 ویں نمبر پر تھا۔ جنوبی ایشیاء کے ممالک میں بنگلہ دیش اور افغانستان بدعنوانی کے حوالے سے سنگین صورتحال کی وجہ سے پاکستان سے کم تر درجوں پر موجود ہیں۔ اس درجہ بندی میں دنیا میں سب سے کم بد عنوانی کی شدت کے حامل ملک ڈنمارک اور نیوزی لینڈ ہیں جس کے بعد فن لینڈ اور سویڈن کے ممالک ہیں۔ اس عالمی درجہ بندی میں جس کا آغاز1995ء سے کیا گیا اور آج تک ہر سال اس درجہ بندی کا از سر نو تعین کیا جاتا ہے سب سے زیادہ کرپشن کا شکار ملک صومالیہ، شمالی کوریا اور افغانستان ہیں، یہ تینوں ممالک 175ویں نمبر پر ہیں جس کے بعد زیادہ شدید بدعنوانی کے شکار ملک بالترتیب سوڈان اورجنوبی سوڈان ہیں جو 174ویں اور173 ویں نمبر پر ہیں، نیچے سے اوپر جانے والی اس درجہ بندی میں دنیا کی پانچ بڑی طاقتوں کی رینکنگ یوں ہے کہ برطانیہ اس درجہ بندی میں 14ویں، امریکا 19ویں، فرانس22 ویں، چین 80 اور روس127ویں نمبر پر ہے۔ پاکستان کے علاوہ جنوبی ایشیاء کے دیگر ممالک کا اس درجہ بندی میں مقام کچھ اس طرح سے ہے کہ بھوٹان 31 ویں، سری لنکا91 ویں، بھارت94 ویں، نیپال116ویں، بنگلہ دیش 136 ویں اور افغانستان 175 ویں نمبر پر ہے۔ بد عنوانی کی شدت جنوبی ایشیائی خطے میں سب سے کم بھوٹان میں ہے جو عالمی تناظر میں بھی قدرے کم ہے جو اس حوالے سے تو ایک اچھی علامت ہے کہ جنوبی ایشیاء کے ایک پسماندہ ترین ملک میں کرپشن دُنیا کے جدید اور ترقی یافتہ معاشروں کی نسبت قدرے کم ہے۔ ماہرین کے مطابق بد عنوانی حکومت کو معاشی گرداب کا شکار کردیتی ہے اور اُس کے عوام کو بنیادی وسائل اور خدمات کی فراہمی کی صلاحیت کو کم کردیتی ہے۔ اور ایسے میں ملک میں سرمایہ کاری خاص کر غیر ملکی سرمایہ کاری کا عمل قدرِ محدود ہو جاتا ہے۔ کیونکہ اقوام متحد ہ کے آفس برائے ڈرگز اینڈ کرائم کے مطابق "کسی بدعنوان ملک میں سرمایہ کاری بد عنوانی سے پاک ملک میں سرمایہ کاری کی نسبت 20 فیصد زائد مہنگی پڑتی ہے" ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے بد عنوانی سے متعلق اپنی سالانہ رپورٹ جاری کرتے ہوئے پاکستان کی صورت حال کو مزید خراب قرار دیا ہے کہ پاکستان دنیا کے بدترین بدعنوان ممالک کی فہرست میں 47 ویں نمبر سے 33 ویں نمبر تک پہنچ چکا ہے۔ ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل نے جاری کردہ اپنی سالانہ رپورٹ میں متعدد ممالک میں کی جانے والی بدعنوانیوں کی نشاندہی اور اُن کی درجہ بندی کی تھی، تاہم پاکستان کے حوالے سے جو رپورٹ جاری کی گئی، اُس کے مطابق پاکستا ن میں ہر سال کرپشن میں اضافہ ہو رہا ہے۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان کی صورت حال انتہائی مایوس کن ہے، کیونکہ 2008 ء میں پاکستان بد عنوان ممالک کی فہرست میں 47 ویں نمبر پر تھا جو 2010ء میں 34ویں نمبر پر آگیا ہے، جبکہ 2012ء میں اِس کی پوزیشن 33ویں نمبر پر آ گئی۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان گزشتہ کئی برسوں کی نسبت آج بہت زیادہ کرپٹ ملک تصور کیا جارہا ہے، جبکہ امریکہ میں قائم ورلڈ جسٹس پروجیکٹ کی رپورٹ میں پاکستان کو دنیا کا ساتواں کرپٹ ترین ملک قرار دیاگیا۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان 97کرپٹ ممالک میں 90 ویں نمبر پر جبکہ امن وامان اور سکیورٹی کے حوالے سے آخری نمبر 97 پر ہے۔ انسانی حقوق کے حوالے سے 93، حکومتی شعبوں کے حوالے سے 92، سول انصاف کے حوالے سے 91 نمبرپر ہے۔ حکومتی اختیارات کے حوالے سے پاکستان کا نمبر 97 میں سے 69 ویں نمبر پر ہے۔ یہ اعداد و شمار 178ملکوں کے دیئے گئے ہیں۔ کرپشن اب ایک ناسور بن چکا۔ حصولِ پاکستان کامقصد ہی کرپشن سے پاک معاشرہ تھا۔ بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح نے تو 11 اگست 1947ء کی تقریر میں بڑے واشگاف الفاظ میں کہا تھا کہ "ہمارا سب سے بڑا مسئلہ رشوت اور کرپشن ہے، اسمبلی کو اس زہر کے خاتمے کے لیے موثر اقدامات کرنے ہیں"
اِن مسائل کو کنٹرول کرنے کے لئے سنجیدہ حکمت عملی نہ بنائی گئی تو 2025 تک مُلک کا شمار اخلاقی، سیاسی، اقتصادی اور سماجی لحاظ سے دنیا کے سب سے زیادہ تباہ حال ممالک کی اوّل صف میں ہوجائے گا۔ کرپشن کے خاتمہ کا بہترین حل خوفِ خدا ہے۔ ہم میں سے ہر ایک اپنا احتساب کرے اور اپنی اصلاح کر لے۔ باقی اقوام اگر بتوں کو سامنے رکھ کر اپنے فرائض منصبی میں کوتاہی نہیں کرتے تو ہم کیوں خوف خدا سے عاری ہیں۔ اس حوالہ سے تقریبات، سیمنار، میڈیا کے ذریعہ سے کرپشن کے نقصانات کے حوالہ سے شعور بیدار کرنا وقت کا اہم ترین تقاضہ ہے۔