ہمارا معاشرہ اضطراب کا شکار ہے۔ ہر طرف نفرتوں کے ڈھیرے ہیں۔ ہمارے ملک، معاشرہ کو اس وقت محبت، احترام انسانیت کی ضرورت ہے۔ محبت کیا ہے؟ واصف علی واصف نے محبت کی کیا خوب وضاحت کی ہے۔ آج کا انسان محبت سے دور ہوتا جا رہا ہے۔ آج کا انسان ہر قدم پر ایک دوراہے سے دو چار ہے۔ آج کے انسان کے پاس وقت نہیں کہ وہ نکلنے اور ڈوبنے والے سورج کا منظر دیکھ سکے۔ وہ چاندنی راتوں کے حسن سے ناآشنا ہو کر رہ گیا ہے۔ آج کا انسان دُور کے سٹیسلائٹ سے پیغام وُصول کرنے میں مصروف ہے۔ وہ قریب سے گزرنے والے چہرے کے پیغام کو وُصول نہیں کرسکتا۔ انسان محبت کی سائنس سمجھنا چاہتا ہے اور یہ ممکن نہیں۔ زندگی صرف نیوٹن ہی نہیں، زندگی ملٹن بھی ہے۔
جو ذات شکمِ مادر میں بچے کی صورت گری کرتی ہے، وہی ذات خیال اور احساس کی صُورت گربھی ہے۔ پیدا فرمانے والے نے چہروں کو تاثر دینے والا بنایااور قلوب کو ثاثیر قبول کرنے والا۔ ہر چہرہ ایک رینج (RANG)میں تاثر رکھتا ہے اور اس کے باہر وہ تاثیر نہیں ہوتی۔ دائرہ تاثیر صدیوں اور زمانوں پر بھی محیط ہو سکتا ہے۔ یہ خائق کے اپنے کام ہیں۔ آنکھوں کو بینائی عطاء فرمانے والانظاروں کو رعنائی عطاء فرماتا ہے۔ وہ خود ہی دِل پیدا فرماتا ہے، خود ہی دلبر پیدا فرماتا ہے اور خود ہی دلبر ی کا خالق ہے، بلکہ خود ہی سرِ دلبراں ہے۔
محبت کوشش یا محنت سے حاصل نہیں ہوتی، یہ عطاء ہے، یہ نصیب ہے بلکہ یہ بڑے ہی نصیب کی بات ہے۔ زمین کے سفر میں اگر کوئی چیز آسمانی ہے تو وہ محبت ہی ہے۔ محبت کی تعریف مشکل ہے۔ اس پر کتابیں لکھی گئیں، افسانے رقم ہوئے، شعراء نے محبت کے قصیدے لکھے، مرثیے لکھے، محبت کی کیفیات کا ذکر ہُوا، وضاحتیں ہوئیں، لیکن محبت کی جامع تعریف نہ ہوسکی۔ واقع کچھ اور ہے، روایت کچھ اور ہیں۔ بات صرف اتنی سی ہے کہ ایک چہرہ جب انسان کی نظر میں آتا ہے تو اس کا اندازبدل جاتا ہے۔ کائنات بدلی بدلی سی لگتی ہے، بلکہ ظاہر و باطن کا جہان بدل جاتا ہے۔
محبت سے آشنا ہونے والا انسان، ہر طرف حسُن ہی حسُن دیکھتا ہے۔ اس کی زندگی نثر سے نکل کر شعرا میں داخل ہو جاتی ہے۔ اندیشہ ہائے سُودوزیاں سے نکل کر انسان جلوہ جاناں میں گم ہو جاتا ہے۔ اس کی تنہائی میلے ہوتی ہیں۔ وہ ہنستا ہے بے سبب، روتا ہے بے جواز۔ محبت کی کائنات جلوہ محبوب کے سوا کچھ اور نہیں۔ محبت کرنے والے کس مٹی سے بنے ہوتے ہیں۔ یہ خلوص کے پیکر دُنیا میں رہ کر بھی دُنیا سے الگ ہوتے ہیں۔ دراصل محبت زندگی اور کائنات کی انوکھی تشریخ ہے۔ یہ قرآن ِ فطرت کی الگ تفسیر ہے۔ محب اور محبوب کا تقرب موسموں کو خوشگوار بنا دیتا ہے۔ محبوب کی جدائی سے بہاریں روٹھ جاتی ہیں۔ محبوب کا فراق بینائی چھین لیتا ہے اور محبوب کی قمیض کی خوشبو سے بینائی لوٹ آتی ہے۔ یہ بڑا راز ہے۔ یہ انوکھا عمل ہے۔
اس زندگی میں ایک اور زندگی ہے۔ اسی کائنات میں ایک اور کائنات ہے۔ محبت ہو تو انسان کو اپنے وجود میں کائنات کی وسعتوں اور رنگینیوں سے آشنائی ہوتی ہے۔ اسے خوشبوؤں سے تعارف نصیب ہوتا ہے۔ اسے آہٹیں سنائی دیتی ہیں۔ وہ دھڑکنوں سے آشنا ہوتا ہے۔ اُسے نالہ نیم شب کا مفہوم سمجھ آتا ہے۔ محبت کرنے والا اپنی ہستی کے نئے معنی تلاش کرتا ہے۔ وہ باطنی سفر پر گامزن ہوتا ہے۔ زندگی کے تپتے ہوئے ریگزار میں گویا محبت ایک نخلستان سے کم نہیں۔ محبت کے سامنے ناممکن ومحا ل کچھ بھی نہیں۔ محبت پھیلے تو پُوری کائنات، سمٹے تو ایک قطرہ خوں۔
درحقیقت محبت، آرزوئے قربِ حسُن کا نام ہے۔ ہم ہمہ وقت جس کے قریب رہنا چاہتے ہیں، وہی محبوب ہے۔ محبوب ہر حال میں حسیں ہوتا ہے کیونکہ حسن تو دیکھنے والے کا اپنا اندازِ نظر ہے۔ ہم جس ذات کی بقاء کے لئے اپنی ذات کو فناء تک بھی گوارا کرتے ہیں، وہی محبوب ہے۔ محب کو محبوب میں کجی یا خامی نظر نہیں آتی۔ اگر نظر آئے بھی، تو محسوس نہیں ہوتی۔ محسوس ہو بھی تو ناگوار نہیں گزرتی۔
محبوب کی ہر ادا دلبری ہے، یہاں تک کہ اس کا ستم بھی کرم ہے۔ اس کی وفاء بھی پُر لطف اور جفاء بھی پُر کشش۔ محبوب کی جفا کسی محب کو ترکِ وفا پر مجبور نہیں کرتی۔ دراصل وفاء ہوتی ہی بے وفاء کے لئے ہے۔ محبوب کی راہ میں انسان معذوری و مجبوری کا اظہار نہیں کرتا۔ محبوب کی پسند و ناپسند محب کی پسند و ناپسند بن کے رہ جاتی ہے۔ محبت کرنے والے جدائی کے علاوہ کسی اور قیامت کے قائل نہیں ہوتے۔
محبت اشتہائے نفس اور تسکین وجود کا نام نہیں۔ اہلِ ہوس کی سائیکی PSYCHEاور ہے اور اہلِ دِل کا اندازِ فکر اور۔ محبت دو روحوں کی نہ ختم ہونی والی باہمی پرواز ہے۔ محبت کے لیے کوئی خاص عمر مقرر نہیں۔ محبت زندگی کے کسی دَور میں بھی ہوسکتی ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ ایک انسان کو پُوری زندگی میں بھی محبت سے آشنا ہونے کا موقع نہ ملے۔ سوزِ دِل پروانہ کسی مگس کے نصیب میں نہیں ہوتا۔
عقیدوں اور نظریات سے محبت نہیں ہوسکتی۔ محبت انسان سے ہوتی ہے۔ اگر پیغمبر ﷺسے محبت نہ ہو، تو خدا سے محبت یا اسلام سے محبت نہیں ہوسکتی۔ یہاں یہ سوال ہے پیدا ہوتا ہے کہ مجاز کیا ہے اور حقیقت کیا ہے؟ دراصل مجاز بذاتِ خود ایک حقیقت ہے اور یہ حقیقت اس وقت تک مجاز کہلاتی ہے، جب تک رقیب ناگوار ہو۔ جس محبت میں رقیب قریب اور ہم سفر ہو، وہ عشقِ حقیقی ہے۔ اپنا عشق، اپنامحبوب اپنے تک ہی محدود رکھا جائے تو مجاز، اور اگر اپنی محبت میں کائنات کو شریک کرنے کی خواہش ہو تو حقیقت۔
رانجھے کا عشق مجاز ہو سکتا ہے، لیکن وارث شاہ کا عشق حقیقت ہے۔ عشق حقیقی، عشق حقیقی ہے۔ عشقِ آل نبی ﷺعشقِ حقیقی ہے۔ عشقِ رومی عشقِ حقیقی ہی کہلائے گا۔ اگر قطرہ شبنم واصلِ قلزم ہو اور آنسو بھی سمندر سے واصل ہو، تو شبنم اور آنسو کا عشق بھی عشق ِقلزم یا عشقِ حقیقی کہلائے گا۔ پیرِ کامل کا عشق، عشقِ نبی ﷺہی کہلائے گا۔ حضور اکرم ﷺکو نورِخداکہا جاتا ہے اور ولی چونکہ مظہرِ عشق نبی ﷺہوتا ہے۔ اسے مظہر نبی ﷺیا مظہر نورِ خدا کہا جاسکتا ہے۔
ہر انسان کے ساتھ محبت الگ تاثیر رکھتی ہے۔ جس طرح ہر انسان کا چہرہ الگ، مزاج الگ، دِل الگ، پسند ناپسند الگ، قسمت نصیب الگ، اسی طرح ہر انسان کا محبت کا رویہ الگ۔ کہیں محبت کے دم سے تخت حاصل کیے جا رہے ہیں۔ کہیں تخت چھوڑے جا رہے ہیں۔ کہیں دولت کمائی جارہی ہے۔ کہیں دولت لٹائی جارہی ہے۔ محبت کرنے والے کبھی شہروں میں ویرانے پیدا کرتے ہیں، کبھی ویرانوں میں شہر آباد کرجاتے ہیں۔
دوانسانوں کی محبت یکساں نہیں ہو سکتی۔ اس لیے محبت کا بیان مشکل ہے۔ دراصل محبت ہی وہ آئینہ ہے جس سے انسان اپنی اصلی شکل، باطنی شکل، حقیقی شکل دیکھتا ہے۔ محبت ہی قدرت کا سب سے بڑا کرشمہ ہے۔ "جس تن لاگے سوتن جانے"۔ محبت ہی کے ذریعے انسان پر زندگی کے معنی منکشف ہوتے ہیں۔ کائنات کا حسُن اسی آئینے میں نظر آتا ہے۔ مشینوں نے انسان سے محبت چھین لی۔ ہمارے تنزلی کی بڑی وجہ نفرت ہے۔ ہمیں احترام انسانیت، محبت کی طرف آنا ہو گا۔ اسی میں بقاء ہے۔