رشوت اور بدعنوانی کو ہر معاشرے میں ایک سنگین جُرم قرار دیا گیا۔ رشوت کے لغوی معنی ناجائز نذرانہ یا ظلم سے لی جانے والی رقم کے ہیں۔ رشوت ایک مُہلک معاشرتی ناسور ہے جو تمام بدعنوانیوں کی جڑ ہے۔ اخلاقی انحطاط کے شکار معاشرہ میں رہتے ہوئے انسان کو قدم قدم پر رشوت ستانی اور بدعنوانی سے واسطہ پڑتا ہے۔ جو لوگ رشوت نہ دیں انہیں اپنے کاموں کے سلسلے میں خواری، پریشانی اور مسائل سے دو چار ہونا پڑتا ہے۔ ایسے دِگر گوں حالات میں کسی کام کے لئے استحقاق صرف اُسی کا ہے جو کسی نہ کسی شکل میں رشوت دے۔ ایشیائی ترقیاتی بینک کی پاکستان کی سماجی صورتحال پر رپورٹ کے مطابق پاکستان رشوت ستانی کے لحاظ سے دُنیا میں دسویں نمبر پر ہے۔ رشوت ستانی میں پاکستان 32 ممالک میں سے 10 ویں نمبر پر ہے۔ ایشیاء میں 90 کروڑ لوگ اپنے کام کروانے کے لیے رشوت دیتے ہیں۔ پاکستان میں رشوت کی شرح 40 فیصد ہے۔ ایشیاء میں ہر 4 میں سے ایک شخص کو پبلک سروس کے لیے رشوت دینا پڑتی ہے۔ سکول، ہیلتھ ورکر، ہسپتال، سرکاری حکام عوام کو ہر سطح پر کرپشن کا سامنا ہے۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 40 فیصد، چین میں 26 فیصد اور بھارت میں رشوت کی شرح 69 فیصد ہے۔ تخمینے کے مطابق دُنیا بھر میں رشوت کی مالیت یا لاگت 15 سے 20 کھرب ڈالرز کے درمیان ہے۔ یہ ایک خطیر رقم ہے۔ رشوت ایک ناجائز ذریعہ آمدن ہی نہیں بلکہ اس کے ذریعے دوسرے آدمی کی حق تلفی بھی ہوتی ہے اور اسے اُس کے حق یا عہدے سے محروم کر دیا جاتا ہے، جس کا وہ حق دار ہوتا ہے۔ حضرت محمد ﷺ نے رشوت دینے والے اور رشوت لینے والے پر لعنت کی ہے۔ رشوت کسی معاشرے میں اس وقت جنم لیتی ہے جب انسان خود غرضی اور مفاد پرستی کا شکار ہوجاتا ہے، جس کی وجہ سے لوگوں کو ان کے حقوق جائز طریقے سے بھی حاصل نہیں ہوتے۔ رشوت کے نتیجے میں اعلی اخلاقی اقدار عدل، ایثار، رواداری، اخوت وغیرہ ختم ہوجاتے ہیں۔ انسان میں لالچ اور خود غرضی پیدا ہوجاتی ہے جس کے نتیجے میں وہ صرف اپنے فائدے کے لیے سوچتا ہے اور دوسروں کے نقصان کی فکر نہیں کرتا۔ رشوت خور دوسرے کا نقصان کرکے صرف اپنا فائدہ چاہتا ہے جو اسلام کی تعلیمات کے برعکس ہے۔ اسلام انفرادی فائدے کے بجائے اجتماعی فائدے کی تلقین کرتا ہے اسی لیے وہ سود کو حرام قرار دے کر زکوۃ کو عام کرتا ہے۔ کیوں کہ زکوۃ کے نتیجے میں پورے معاشرے کو فائدہ پہنچتا ہے دولت چند ہاتھوں کی لونڈی نہیں بنتی بلکہ ایک عام آدمی بھی دولت کے فوائد حاصل کر سکتا ہے۔ اسلام خود غرضی اور لالچ کے بہ جائے ایثار و قر بانی کے جذبات اور عمل کو فروغ دیتا ہے۔ ایثار اپنی ذات پر دوسروں کو ترجیح دینے کا نام ہے۔ مکتب نبویﷺ کے تربیت یافتہ صحابہ کرامؓ خود بھوکے رہتے اور دوسروں کو کھانا کھلاتے ہیں۔ اپنے اموال میں اپنے مہاجر بھائیوں کو حصہ دیتے ہیں تاکہ ان کی ضروریات پوری ہوسکیں۔ جنگ یرموک میں خود تو پیاس سے شہید ہوجاتے ہیں لیکن دوسرے مسلمان کو پیاسا نہیں دیکھ سکتے۔ جب کہ رشوت کے ہاتھوں ان تمام نیک جذبات کا خاتمہ ہوجاتا ہے۔ رشوت ایک حرام ذریعہ آمدن ہے جس کے نتیجے میں نہ کوئی دعا قبول ہوتی ہے اور نہ ہی کوئی عبادت۔ رشوت عدل کا خاتمہ کر دیتی ہے۔ رشوت ظلم کی ایک بدترین شکل ہے اور ظلم کو اللہ تعالی نے اپنے اور اپنے بندوں کے درمیان حرام قرار دیا ہے۔ چھوٹے سے چھوٹے کام کے لیے بھی رشوت دینی پڑتی ہے۔ جائیداد کے کاغذات حاصل کرنے ہوں یا بجلی گیس کا بل ٹھیک کرانا ہو، کوئی فیس ادا کرنا ہو یا تن خواہ کا اجرا اور درستی ہو، رشوت کے بغیر کام نہیں ہوتا اور عوام اپنا کام جلد نکلوانے کے لیے رشوت دیتے اور لیتے ہیں۔ جائز کام کے لیے بھی چائے پانی کے نام پر رشوت لی جاتی ہے جو معاشرتی ناسور ہے جس سے معاشرتی اقدار کھوکھلے ہوتے جا رہے ہیں۔ رشوت جسے قانون جرم قرار دیتا ہے لیکن اس سماج میں بدقسمتی سے ایسے محسوس ہوتا ہے کہ رشوت نہ دینے والا قانونی طور پر مجرم ہے۔ ہمیں اپنے تئیں رشوت سے بچنے اور معاشرے کو اس گناہ سے بچانے کی کوشش کرنا چاہیے۔ رشوت ایک گناہ ہے اور گناہ کی سزا ضرور ملے گی۔ اس دُنیا میں اگر نہ ملی تو آخرت میں ضرور ملے گی۔ رشوت کے ساتھ جڑا مسئلہ بد عنوانی ہے۔ چھ ارب سے زائد لوگ بدعنوان ممالک میں آباد ہیں۔ ایک تازہ رپورٹ میں دو تہائی سے زائد ممالک کو بدعنوانی کے حوالے سے تیار کیے گئے انڈیکس میں بُری کارکردگی کے خانے میں رکھا گیا ہے۔ اس طرح دُنیا کی اکثریت ایسے ممالک میں رہ رہی ہے جنہیں کرپٹ یا بدعنوان قرار دیا جا سکتا ہے۔ بدعنوانی کے خلاف سرگرم بین الاقوامی تنظیم ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی جانب سے ہر سال دُنیا کے مختلف ممالک میں بدعنوانی کے درجے کے لحاظ سے سالانہ "کرپشن پرسیپشنز انڈیکس" (CDI) جاری کیا جاتا ہے۔ اس انڈیکس کے مطابق بہترین اسکور 100 پوائنٹس ہے جبکہ کم ترین اسکور زیرو ہے۔ سال 2017ء کے لیے جاری کیے جانے والے سی ڈی انڈیکس کے مطابق عالمی اوسط اسکور محض 43 رہا جبکہ دُنیا کے 69 فیصد ممالک 50 سے بھی کم پوائنٹس حاصل کر پائے۔ 2016ء کے انڈیکس میں ڈنمارک کم ترین بدعنوان ملک قرار پایا تھا۔ اس رپورٹ کی ریلیز کے ساتھ جاری کیے جانے والے بروشر میں ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کا کہنا ہے، "اس کا مطلب ہے کہ چھ ارب سے زائد لوگ ایسے ممالک میں رہ رہے ہیں جو بدعنوان ہیں۔ " اس رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس کے نتائج پریشان کُن ہیں جبکہ اکثریت کرپشن یا بدعنوانی کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے بہت ہی سست روی سے اقدامات ہو رہے ہیں۔ 2017ء کے ’کرپشن پرسیپشنز انڈیکس، میں کوئی بھی ملک مکمل اسکور حاصل نہیں کر سکا تاہم اس فہرست میں کم ترین بدعنوانی کا حامل ملک نیوزی لینڈ ہے اس کے شہریوں کو کم ترین بدعنوانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کے سی ڈی آئی پر اس کا اسکور 89 رہا۔ اس کے قریب ترین ملک ناروے کا اسکور 88 ہے۔ اسکینڈے نیویا کے ممالک اس فہرست میں ٹاپ ٹین پوزیشنز میں شامل ہیں۔ جرمنی اس فہرست میں 81 پوائنٹس کے ساتھ 12ویں پوزیشن پر ہے۔ سی ڈی آئی 2017ء میں کم ترین اسکور کے حامل یعنی بدعنوان ترین ممالک شام، جنوبی سوڈان اور صومالیہ رہے اور ان کا اس انڈیکس پر اسکور بالتریب 14، 12، اور نو رہے۔ اس انڈیکس میں پاکستان 32 پوائنٹس کے ساتھ 122 ویں نمبر پر پے جبکہ بھارت 40 پوائنٹس کے ساتھ 81ویں نمبر پر ہے۔ بنگلہ کے پوائنٹس 28 ہیں اور وہ اس انڈیکس میں 143ویں نمبر پر ہے۔ رشوت و بدعنوانی کے جہاں اور بہت اسباب ہیں وہاں ہی دولت کا غیر منصفانہ تقسیم، سماجی ناانصافی، حقوق سے محرومی بھی بدعنوانی کی راہ دکھاتی ہے۔ معاشرے کا ہر فرد اپنی ضروریات کو آئے دن بڑھتی مہنگائی، بے روزگاری کا سامنا کرنے کے لیے جائز ذرایع ناکافی ہونے پر ناجائز ذرایع اختیار کرنے پر مجبور ہوتا ہے۔ فلاحی معاشرہ مکمل توجہ اور بھرپور احساس ذمے داری سے تشکیل پاتے ہیں۔ اگر احساس ہوجائے کہ معاشرے کا کوئی فرد چاہے مزدور ہو یا وزیر پہلے انسان ہے اور ہر انسان کی بنیادی ضروریات یکساں ہیں، جس میں جو لیاقت ہے، جو ہنر ہے، وہ اس کے مطابق معاشرے کی خلوص نیت سے خدمت کررہا ہے تو پھر اس کے کنبے کو تمام سہولیات فراہم کرنا بھی کی ذمے داری ہے، پھر کوئی وجہ نہیں کہ اپنی ضروریات پوری ہونے پر بھی کوئی بدعنوانی اور حرام کمائی کی طرف متوجہ ہو۔ حقوق کے ملنے کے باوجود بھی کوئی فرد اس لعنت میں مبتلا ہو تو پھر اسے معاشرہ کے لیے عبرت کا نشان بنانا چائیں۔ تمام افراد کو تعلیم، صحت اور انصاف بقدر ضرورت اور بروقت مہیا ہوں تو معاشرہ کافی حد تک سدھر سکتا ہے۔ مگر عدمِ دستیابی حقوق اور مجبوری میں رشوت اور بدعنوانی فروغ پاتی ہے تو سارا معاشرتی نظام زمیں بوس ہوجاتا ہے۔ للہ تعالی ہمیں اس لعنت سے اور اس کی تباہ کاریوں سے بچائے۔ اور ملک کی بے لوث خدمت کی توفیق دیں۔