شاعر اپنی شاعری کے ذریعہ سے معاشرہ کو درست سمت گامزن کرتا ہے۔ شعرا نے قوم میں ہمیشہ شعور بیدار کیا۔ ادبی تنقید کے اصول میں شاعری اور شاعر کی خوبیوں کو یوں بیان کیا گیا ہے۔ شاعر بلبل نہیں، نہ تو وہ جانور ہے اور نہ تو فرشتہ۔ جیسا کہ ورڈ ورتھ نے کہا ہے" وہ ہم جیسا انسان ہے" شاعر بلبل نہیں، انسان ہے، دانش ور ہے، اور صرف یہی نہیں، دانش ور تو بہت ہوتے ہیں۔
شاعر، جیسا کہ آئی، آر، رچرڈر نے کہا ہے۔ اپنے عہد میں ادراک کے بلند ترین مقام پر ہوتا ہے۔ وہ بلبل کی طرح بے اختیاری میں نغمہ سنج نہیں ہوتا بلکہ وہ جو کچھ کہتا ہے، وہ سمجھ بوجھ کر کہتا ہے۔ اس کی باتیں تہ دار ہوتی ہیں۔ ان میں گنج ہائے معنی پنہاں ہوتے ہیں۔ پھر یہ بھی صحیح ہے وہ اندھیرے میں گاتا ہے۔ اور گا کر اپنی تنہائی کو خوش کرتا ہے۔ یہ ضرور ہے کہ شاعر معلم نہیں، پیغمبر نہیں اور نظم کوئی درس یا پیغام نہیں۔
شاعر کسی تجزیے کو بیان کرتا ہے۔ اور یہ بیان کوہ کنی سے کم نہیں۔ اس میں ہزاروں کاوشیں ہوتی ہیں اور ان کاوشوں کا ایک مقصد تو یہ ہے وہ تجربہ اپنے پورے حسن اور زرینی کے ساتھ، بے کم و کاست، واضح اور متعین لفظوں کا روپ بھر لے۔ اور دوسرا مقصد یہ ہے کہ وہ اس تجربے کو ہوبہو قارئین تک پہنچا سکے۔ یعنی شاعر تنہائی میں گاتا نہیں، وہ کچھ کہنا چاہتا ہے۔
دوسرے انسانوں سے بات کرنا چاہتا ہے۔ البتہ چونکہ وہ شاعر ہے اس میں کچھ خوبیاں ہوتی ہیں، جو ہم آپ میں موجود نہیں، پھر اس کی باتیں بت لُطف نہیں، سپاٹ نہیں، پُر لُطف، تازہ، نئی بلکہ یکتا ہوتی ہیں اور یہ خوبیاں روزمرہ کی باتوں میں نہیں ہوتی۔ بلند ترین ادراک کے ساتھ وہ غیر معمولی، تیز اور گہری قوتِ حاسہ کا مالک ہوتا ہے۔ اس قوتِ حاسہ کا فیض ہے کہ وہ ماحول سے برابر اثرات قبول کرتا رہتا ہے۔
وہ جس چیز کو چھوتا ہے، دیکھتا ہے، سنتا ہے، سونگھتا ہے اور جس چیز کا ذائقہ لیتا ہے، یہ سب چیزیں اپنے اپنے اثرات چھوڑ جاتی ہیں۔ اگرچہ یہ اثرات جلف مٹ جاتے ہیں۔ پھر بھی قوتِ حاسہ انہیں کچھ دیرتک محفوظ رکھتی ہے اور انہیں مربوط و مسلسل کر کے نئی شکل میں پیش کر سکتی ہے۔ الیٹ نے کہا ہے "شاعر کا ذہن جب اپنے کام کے لیے آراستہ پیراستہ ہوتا ہے تو وہ برابر مختلف اوت متضاد قسم کے تجربوں کو مربوط کرتا رہتا ہے۔
معمولی شخص کا تجربہ درہم برہم، بے ضابطہ اور منتشر ہوتا ہے۔ وہ محبت کرتا ہے، اسپنوزا پڑھتا ہے اور ان دونوں تجربوں میں کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ ٹائپ رائٹرر اور کھانے پکانے کی خوشبو سے بھی ان کا کوئی تعلق نہیں۔ لیکن شاعر کے ذہن میں یہ تجربے نئے نئے مکمل نظام بناتے رہتے ہیں۔ جس طرح شاعر کی قوت حاسہ غیر معمولی، تیز اور گہری ہوتی ہے، اسی طرح شاعر کا تخیل بھی غیر معمولی قسم کا ہوتا ہے۔
یہ شاہین کی طرح بلند پرواز بھی ہوتا ہے اور تیز نظر بھی ہوتا ہے، جیسا کہ شیکسپیر نے کہا، شاعر کی آنکھ زمین سے آسمان کی طرف دیکھتی ہے اور پھر آسمان سے زمین کی طرف دیکھتی ہے اور جو کچھ وہ دیکھتی ہے، اسے شاعر کا تخیل نہیں پاسکتا، نزدیک کی چیزیں جو اپنی نزدیکی کی وجہ سے ہماری نظروں سے اوجھل رہتی ہیں، دور و نزدیک کی سب چیزوں پر شاعر کی دُور رس اور جزرس تخیل کا تصرف ہے۔
اور وہ ان دور و نزدیک کی چیزوں کو ایک جگہ اکٹھا کرتا ہے، مختلف اور متضاد خوصیتوں میں توازن اور اتفاق پیدا کرتا ہے۔ یہ اس کا تخیل ہے جو پُرانی اور جانی ہوئی چیزوں میں نیا پن اور تازگی ڈال دیتا ہے اور عام اور خاص خیالوں اور نقوش، انفرادی اور عالمگیر باتوں میں میل دے کر نئے نقشے بناتا ہے۔ تیز اور گہرے جذبات کو نئی مناسبت اور تنظیم کے ساتھ پیش کرتا ہے۔
ظاہر ہے کہ آرٹ میں تخیل کا مرکزی مقام ہے۔ اس لئے اس کی تعریف، اس کے کرشموں سے واقفیت ضروری ہے۔ کولرج نے تخیل کی بہترین تعریف کی ہے یہ اجزا کی ترکیب دینے والی سحر آفرین طاقت ہے۔ اس کا کرشمہ ہے کہ متضاد اور غیر متوازن چیزوں میں توازن اور میل کی جلوہ گری ہوتی ہے۔ اس کے فیض سے پرانی اور جانی ہوئی چیزوں میں نیا پن اور شگفتگی کی لہر دوڑ جاتی ہے۔
اور جذبات میں معمول سے زیادہ خروش کے ساتھ زیادہ امن و سکون بھی نظر آتا ہے۔ تیز اور زندہ فہم اور پُر خروش جذبات، اور امنگوں پر مستحکم اختیار بھی اس کی وویعت ہے۔ یہی مترنم سرور کا احساس ہے۔ یہی کثرت کو وحدت میں تبدیل کر دیتی ہے۔ یہی متعدد خیالات کو ایک زبردست خیال یا جذبے کے زیر اثر کرتی ہے اور اس میں تغیر پیدا کرتی ہے۔
یہ بات بھی کہہ دی جائے کہ شاعر صرف اپنے ذاتی تجربات کی ترجمانی نہیں کرتا ہے۔ جو گزرے دِل پہ کھنچے اس کی صفحہ پر تصویر، اپنی جگہ پر درست ہے۔ لیکن شاعر میدان عمل محدود نہیں۔ یہ درست نہیں کہ وہ ہمیشہ صرف ذاتی جذبات و خیالات کی ترجمانی کرتا ہے۔ ظاہر کہ ایسی حالت میں شاعر کی دُنیا محدود ہو گی یہ بات تو صحیح ہے کہ شاعرکے پاس ہم آپ سے زیادہ، بہت زیادہ اور زیادہ اچھے، زیادہ قیمتی تجربے ہوتے ہیں۔
پھر بھی کوئی شاعر اَن گنت تجربوں پر دسترس نہیں رکھتا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ جو دل پہ گزرے سے روگردانی کرتا ہے اور ہر انسانی احساس، خیال، تجربے کو شعری صورت میں پیش کرتا ہے۔ گویا سارے انسانی احساس، خیال، تجربے کو شعری صورت میں پیش کرتا ہے۔ گویا سارے انسانی جذبات و خیالات اس کے لیے خام مواد کی حیثیت رکھتے ہیں جنھیں وہ نت نئی ضرورتوں میں جلوہ گر کرتا ہے۔
اور یہی وجہ ہے کہ اس کی نظموں میں حیرت انگیز، لوقلمونی ہوتی ہے۔ یعنی وہ سارے تجربے شاعر کے دِل پر گزرے ہیں۔ یہ کوئی قول محال نہیں۔ شاعر اپنی رگ وپے میں محسوس کرتا ہے۔ یہ ہمارے آپ کے بس کی بات نہیں۔ اور یہی وجہ ہے کہ اس کی ترجمانی کامیاب ہوتی ہے۔ جذبات ذاتی ہوں یا فرضی، شاعری کے سانچے میں ڈھل سکتے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ جیسے میں نے کہا ہے شاعر گویا ایک Explorerہے، جو انسانی تجربوں کے امکانات کا پتہ لگاتا ہے، جو شعور کے چھپے ہوئے نہاں خانوں کو ٹٹولتا ہے، جو جذبات و خیالات کی پیچیدہ و تاریک اور دشوار گزار ہوں کو منور کرتا ہے، جو فرد اور سماج کے تعلقات کی نازک گھیتوں کو سلجھاتا ہے، جو حیات و کائنات کی اتھاہ گہرائیوں میں غوطہ لگاتا ہے اور یہ سب اپنے احساس اور تخیل کے بل بوتے پر۔
جتنا اس کا تخیل جاندار ہوگا، جتنے اس کے احساس زندہ ہوں گے، اسی قدر وہ ہماری بے خبری کو باخبری میں بدل دے گا اور ہمیں انسانی تجربات کے ایسے ایسے امکانات میں روشناس کرے گا جن کا ہمیں وہم و گمان بھی نہ تھا۔ شاعری ایک سفر ہے، جس کی منزل معلوم نہیں، رستے کا پتہ نہیں۔ کوئی chart بھی نہیں۔ جو اس کی رہ نمائی کر سکے۔ لیکن شاعر بے خطر کود پڑتا ہے۔ اس کے لئے ایک عشق کی ضرورت ہوتی ہے، ایک قسم کے Dedication کی ضرورت ہوتی ہے۔ جو آسانی سے ہاتھ نہیں آتا۔