"آؤٹ وٹنگ دی ڈیول"میں نپولین نے بتایا ہے کہ شیطان ہماری بہت سی خامیوں سے بہت خوش ہوتا ہے۔ وہ ہم میں کئی طرح کا خوف پیدا کرنے کی کوشش کرتا رہتا ہے اور عام طور پر اس کی کوشش میں کامیاب رہتا ہے۔ کبھی وہ ہم میں افلاس کا خوف پیدا کرتا ہے اور کبھی موت کا۔ خوف خواہ کسی چیز کا ہو، انسان میں خرابیاں پیدا کر کے دم لیتا ہے۔ جب ہم خوف کی حالت میں ہوتے ہیں تب اپنی صلاحیت اور سکت کو عمدگی سے بروئے کار لانے میں ناکام رہتے ہیں۔ خوفزدہ انسان کا ذہن توانائی اور آزادی کے ساتھ کام نہیں کرتا۔
خوف کی حالت میں ہم بہت سے اہم معاملات کو نظر انداز کر دیتے ہیں یا پھر ان کے بارے میں سوچنا ہی نہیں چاہتے۔ بہت سے لوگ کوئی بھی نیا کام شروع کرتے وقت اس خوف میں مبتلا رہتے ہیں کہ لوگ ان پرتنقید کریں گے یا تمسخر اڑائیں گے۔ اگر کوئی شخص گھڑ سوار دستے کا حصہ بنتے وقت اس الجھن میں مبتلا ہو کہ گھوڑے پر بیٹھا ہوا کیسے لگے گا؟ تو وہ کبھی ایک اچھا گھڑسوار نہیں بن سکتا۔ اگر ہم کوئی کام شروع کرنے سے قبل نتائج کے حوالے سے پریشان یا خوفزدہ ہوں تو بہتر نتائج حاصل کرنے میں شاید ہی کامیاب ہو پائیں۔
جب شیطان ہمیں خوفزدہ کرنے میں کامیاب ہوجاتا ہے تو ہم الجھ کر رہ جاتے ہیں اور یوں ہم میں کاہلی بھی پیدا ہوتی ہے۔ ہم اگر خوفزدہ ہوں تو کوئی بھی کام شروع کرنے سے پہلے پژمردگی یا مایوسی میں مبتلا رہتے ہیں اور نتائج کے حوالے سے تذبذب میں مبتلا رہتے ہیں۔ اگر ذہن الجھا ہوا ہو تو کام میں وہ بات پیدا نہیں ہوتی جو ہونی چاہیے۔ ہماری رسمی تعلیم بھی خوف پر مبنی ہے۔ مذہب کے حوالے سے بھی ہمیں جو کچھ تعلیم کیا جاتا ہے اس میں خوف کا پہلو نمایاں ہے۔ جب ہمارے ذہن میں چھوٹی عُمر سے خوف بیٹھ گیا ہوتو زندگی بھر معاملات خوف ہی کی نذر ہوتے رہتے ہیں۔
اگر ہماری تعلیم خوف پر مبنی ہو تو آزاد سوچ مشکل سے پنپتی ہے۔ ایسے میں ہم سوچنے کا عمل اس طرح جاری نہیں رکھ سکتے جس طرح جاری رکھا جانا چاہیے۔ قصہ مختصر، شیطان کا جادو ہم پر اس طرح چھا جاتا ہے کہ ہم بیشتر معاملات میں منفی سوچ کے حامل ہوجاتے ہیں اور یوں ہم میں کاہلی بھی در آتی ہے۔ کاہلی کا نتیجہ یہ بر آمد ہوتا ہے کہ ہم اپنی صلاحیت اور سکت سے کام لینے کے قابل نہیں رہتے۔ شیطان کو شکست دینے کے حوالے سے نپولین لکھتے ہیں کہ بہت سوں کے لئے ناکامی دراصل کامیابی کی سیڑھی پر پہلے قدم کی حیثیت رکھتی ہے۔ ایسے لوگ اپنی ناکامی سے بہت کچھ سیکھتے ہیں۔
اپنی خامیوں کو دور کرکے وہ کامیابی کی طرف بڑھتے ہیں جب کہ دوسرے بہت سے لوگوں کے لئے ناکامی دراصل تھک ہار کر، مایوس ہو کر ایک طرف بیٹھ رہنے کا بہانہ بن جاتی ہے۔ یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ سفر میں ایک ناکامی ضرور ملتی ہےمگر یہ دائمی نہیں ہوتی۔ اگر ہم ناکامی کو دائمی سمجھ لیں تو کام کرنے کی لگن باقی نہیں رہتی۔ قدرت نے ہر انسان میں کچھ میکینزم رکھا ہے کہ بحرانی کیفیت میں کام کرنے کی صلاحیت بہتر ہوجاتی ہے اور حواس قابو میں رکھنے کی صورت میں کام کرنے کی لگن بھی بڑھ جاتی ہے۔ بحرانی کیفیت میں ہم میں جو قوت جاگ اٹھتی ہے اس پر بھروسہ کرتے ہوئے ہمیں کام سے کام رکھنا چاہیے۔
فطرت کے اصول اپنائیے۔ فطرت کبھی غیر فعال نہیں ہوتی۔ سورج نکلنے سے پہلے کس قدر اندھیرا ہوتا ہے مگر تب بھی فطرت تو اپنا کام کر رہی ہوتی ہے۔ دِل کی بات سُنیے۔ جو لوگ دِل کی بات سنتے ہیں اور اپنے لیے کسی واضح ہدف کا تعین کرتے ہیں وہ کبھی ناکامی سے دوچار نہیں ہوتے۔ یاد رکھیے مشکل صورت حال کاسامنا کرنے کی صلاحیت علم سے نہیں، تجربے سے ہاتھ آتی ہے۔ بہت کچھ پڑھ لینے سے بھی انسان وہ سب کچھ نہیں سیکھتا جو تجربہ اُسے سکھاتا ہے۔ تجربہ ہی انسان میں دانائی کا بیج بوتا ہے۔ دانائی کے بغیر ہاتھ آنے والی کامیابی زیادہ دن نہیں ٹکتی۔
یہی سبب ہے کہ محنت کے بغیر ہونے والی دولت زیادہ دیر یا زیادہ دور تک انسان کا ساتھ نہیں دیتی۔ چاہے جتنا غور کیجیے آپ اسی نتیجے پر پہنچیں گے کہ آپ کی سب سے بڑی دولت صرف اور صرف وقت ہے۔ اس دُنیا میں آپ کو اور بہت سی باتوں کا بھی خیال رکھنا ہے مگر سب سے زیادہ خیال اس بات کا رکھنا ہے کہ وقت ضائع نہ ہو۔ وقت کے بارے میں مثبت رویہ اپنائیے۔ اپنا وقت بہترین طریقے سے بروئے کار لانے پر توجہ دیجیے۔ آج دُنیا پھر میں تجاذب کے قانون کا چرچا ہے۔
ماہرین اس نکتے پر زور دے رہے ہیں کہ کسی خاص مقصد کو ذہن میں رکھتے ہوئے سوچنے والوں کو متعلقہ تصورات تک پہنچنا زیادہ دشوار نہیں لگتا اور یہ کہ کسی خاص سمت میں سفر کرنے والوں کو ہم خیال لوگ ملتے رہتے ہیں، اور وہ اپنی مرضی یا پسند کے حالات میں ہم آغوش ہوتے جاتے ہیں۔ نپولین ہل کے تجاذب کے قانون کے اس بارے میں 1911میں لکھا تھا۔ خیالات میں غیر معمولی طاقت ہوتی ہے۔ اس طاقت کو ڈھنگ سے شناخت اور استعمال کرنے والے کامیاب رہتے ہیں۔ اگر کوئی شخص کسی خاص مقصد کو ذہن میں رکھتے ہوئے سوچتا ہے تو ڈھنگ سے کام کرنے کا منصوبہ تیزی سے تشکیل پانے لگتا ہے۔
جو لوگ اپنا ذہن کسی خاص مقصد کے حوالے سے واضح رکھتے ہیں شیطان ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ بھر پور اور مثالی کامیابی کے لیے ضبط نفس کی بہت اہمیت ہے۔ اپنے افکار و اعمال پر دھیان دیجیے اور انہیں بے قابو یا بے سمت ہونے سے روکیے۔ جو لوگ اپنے وجود پر اختیار نہیں رکھتے وہ کامیابی کی راہ پر زیادہ آگے نہیں جاسکتے۔ ضبط نفس ہی کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ آپ کے دوست کیسے ہیں؟ منفی سوچ والوں سے دور رہیے کیونکہ ان کی ہر بات میں مایوسی پائی جاتی ہے۔ فطرت کے اصولوں کو اپنائیے۔ ان اصولوں میں نصیب کا عمل دخل نہیں ہوا کرتا۔
نپولین ہل نے 1938میں ایک کتاب لکھی تھی جو شیطان سے فرضی یا خیالی ملاقات سے متعلق تھی۔ اس کتاب میں اُنہوں نے وہ تمام باتیں بیان کرنے کی کوشش کی تھی جن سے شیطان بہت خوش ہوتا ہے۔ 1938میں معاشرتی ماحول کچھ اس نوعیت کا تھا کہ اس کتاب کی اشاعت ممکن نہ ہوسکی۔ شیرون لیکٹر نے 2011میں یہ کتاب شائع کی۔ ایم ابراہیم خان کی تصنیف "مضبوط سوچ کی 26بہترین کتابیں " سے اقتباس۔ یقینا ََیہ کتاب نسل ِنو کی کامیابی کی شعوری بیداری کے لئے ایک تریاق سے کم نہیں ہے۔