اگر ہمارے ملک کی حالت دیکھی جائے تو یوں لگتا ہے، کہ انسان ہی انسان کو کاٹنے کا خواہاں ہو چکا معاشرہ انگار بنتا جا رہا، عدم برداشت عروج پر ہے۔ جس کی ایک بنیادی وجہ آج ہماری اخلاقی تربیت نہ ہونے کے برابر ہے اور پھر کتابیں جو ہماری راہنمائی کریں اِن کے لئے ہمارے پاس وقت نہیں۔ جس طرح یہ کائنات مجموعہ اضداد ہے، اِسی طرح ہماری زندگی بھی اضداد و تضاد کا مرقع ہے۔ نور و ظلمات کے حسین امتزاج سے یہ کائنات جلوہ آرا ہے۔
دِن اور رات کی تقسیم میں زمانے کا لامتناعی سفر جاری ہے۔ اسی میں بود و نابود کی عظیم کار فرمائیاں ہو رہی ہیں۔ وقت کا سلسلہ مستقبل اور ماضی سے قائم ہے۔ مستقبل کو ماضی سے قائم ہے۔ مستقبل کو ماضی بنانے والے زمانے کو حال کہتے ہیں۔ یہ حال موجود لمحے کا نام ہے۔ یہ لمحہ کئی صدیاں نِگل چکا ہے، اور اس نے ابھی کئی اور صدیوں کو نگلنا ہے۔
یہ کائنات ہمہ وقت تبدیل ہو رہی ہے، لیکن یہ کائنات کبھی بدلتی نہیں۔ یہی اِس کا تضاد ہے۔ اور یہی اِس کا حسن ہے۔ رات کے دامن میں نور آفتاب نکلتا ہے اور شام اس سورج کو نقاب پہنانے چلی آتی ہے۔ ہر مقام بیک وقت مشرق بھی ہے اور مغرب بھی اور کوئی مقام نہ مشرق ہے نہ مغرب۔ اِس تضاد میں کوئی تضاد نہیں۔ اس طرح قوس اور خط ِ مستقیم دو مختلف قسم کے خطوط ہیں، لیکن ایک حد سے پرے قوس اور خط ِ مستقیم میں کوئی فرق نہیں رہتا۔
تخلیق میں تضادات نفرت کے لئے نہیں، پہچان کے لیے پیدا فرمائے گئے ہیں۔ تضادات سے ہی افراد، احوال اور اشیاء کی پہچان ممکن ہے۔ تضادات کو جاننے کے لیے علم الاضداد کا جاننا ضروری ہے۔ یہ وسیع علم ہے۔ نفی اور اثبات، لا اور الہٰ، عزت ا ور ذلت، ظلم اور رحم، ظاہر اور باطن، خارج اور داخل، روح اور مادہ، غم اور خوشی، زندگی اور موت، غرضیکہ ہر اسم اور صفت کے مقابل ایک اور اسم، ایک اور صفت موجود رہتی ہے، جس سے اس اسم اور اس صفت کی پہچان ممکن ہوتی ہے۔
لامحدود کی پہچان محدود سے ہے۔ کامیابیوں کی منزلیں طے کرنے والا ناکامی کے عبرت کدے میں دَم توڑ سکتا ہے۔ ناکامی کی افتاد سے نکلتا ہوا انسان کامیابی کی چوٹی تک پہنچ سکتا ہے۔ غریب الوطنی میں مرنے والا سکندر عظیم فاتح بھی تھا۔ ہکلانے والی زبان اللہ سے ہمکلام بھی ہو سکتی ہے۔ غریبی میں بادشاہی بھی ہو سکتی ہے اور بادشاہی میں فقیری بھی ممکن ہے۔ ایسا ہوتا رہتا ہے۔ بغاوت کامیاب ہو جائے تو انقلاب کہلاتی ہے اور انقلاب ناکام ہو جائے تو بغاوت کہلاتی ہے۔
بلند مقاصد کا سفر تضادات سے مبّرا نہیں ہوتا۔ ایک مقصد کی کامیابی دوسرے مقاصد کی ناکامی بھی ہے۔ ایک آرزو کو پُورا کرنے کے لیے کتنی آرزوؤں کا خون کرنا پڑتا ہے۔ اگر معیار بدل جائے تو حاصل اور محرومی میں فرق نہیں رہتا۔ فرعون کامیاب بادشاہ سمجھا جاتا تھا۔ اسکے پاس دولت تھی، لوگوں میں عزت تھی۔ صاحب ِ امر بھی تھا۔ اس کا حکم نافذ بھی تھا اور موسیٰ ؑگھر سے بے گھر، صحرا بہ صحرا، جُو بہ جُو پھرنے والے اللہ کے رسُول تھے۔
کون کامیاب تھا اور کون نا کام، اس کا فیصلہ ہو چکا ہے۔ یوسف ؑ کے لیے پیغمبری کا سفر کنویں میں گرنے سے شروع ہُوا۔ کتنی بلندی اور کتنی ابتلا تضاد ہے، لیکن تضاد نہیں ہے۔ ہماری زندگی میں تضادات کا ہونا کوئی غیر فطری بات نہیں۔ تضادات کائنات میں ہیں۔ بلکہ فاطر ِحقیقی کی صفات عالیہ پر غور کیا جائے تو ہمیں ہمارے تضادات کچھ اجنبی نہیں محسوس ہوں گے۔
زندگی عطا فرمانے والا کچھ عرصہ بعد موت عطا فرماتا ہے۔ زندگی واپس لے لیتا ہے۔ وہ خود ہی کسی کو ملک عطا فرماتا ہے اور خود ہی معزول کر دیتا ہے۔ عزت دیتا ہے، وہی ذلت دیتا ہے۔ حساب کرنے پر آئے تو رائی کے دانے تک کا حساب کر لے۔ بخشش کرنے پر آئے تو سیات کو حسنات میں بدل دے۔ محنتوں کو فاقے سے گزار دے اور چاہے تو کم محنت کرنے والوں کو بے حساب عطا فرما دے۔
وہ کبھی خزانے عطا فرماتا ہے اور کبھی قرضِ حسنہ بھی مانگتا ہے۔ اس کے کام عجب ہیں۔ غور کرنے والی بات یہ ہے کہ اللہ نے اپنے مخالف، اپنے دشمن کو مارا نہیں۔ وہ قادر ہے۔ اس نے شیطان کو زندہ رکھا ہے۔ یہی سب سے بڑا تضاد ہے اور یہی اس کا حل۔ ہمیں تضادات سے جنگ نہیں کرنا۔ تضادات کو احسن طریقے سے حل کرنا ہے۔ ہمارا نظریہ اپنی جگہ درست، لیکن دوسروں کے نظریات ان کے لیے اتنے ہی مقدس و با معنی ہیں۔ اپنا نقطہ نظر واضح کرنے کا حق تو ہے۔ دوسروں کو قتل کرنے کا حق نہیں۔
تضادات کو برداشت کرنے کے لیے عظیم دِل چاہیے۔ کمزور عقیدہ الجھتا ہے، لڑتا ہے، جھگڑتا ہے۔ لیکن طاقتور اور صحت مند عقائد دوسرے عقیدوں کو اپنے ساتھ ملاتے ہیں، جیسے سمندر دریاؤں کو اپنے اندر سمیٹتا ہے۔ ہمیں تحمل سے دوسرے کے نقطہ نظر سننا چاہیے۔ اس کی خامی کی اصلاح کرنا چاہیے۔ اس سے محبت کرنی چاہیے۔ یہ عقائد، بیان بلکہ حسن ِ بیان کی باتیں ہیں۔ اصل عقیدہ ہمارا عمل ہے۔ دوسرے کا عمل اس کا عقیدہ ہے۔
فریقین میں محبت ہو تو، عقیدے کا اختلاف ختم ہو جاتا ہے۔ ڈوبنے والے سے اس کی مدد سے پہلے عقیدہ پوچھنا ظلم ہے۔ سورج کا مذہب نہیں پوچھا جاتا، بلکہ اس سے روشنی حاصل کی جاتی ہے۔ ہر انسان دوسرے انسان کی ضرورت کا خیال رکھے، تو عقائد کا تضاد ختم ہو سکتا ہے۔ تضاد تخلیق ہی حسن تخلیق ہے۔ تضاد فکر حسن ہے۔ تضادِ اعتقاد ہی زمین پر حسن عقیدت ہے۔ شاہین اپنی بلند پرواز میں کوتاہی نہ کرے، اپنی بلند نگاہی کا لطف اٹھائے، اسے گرگس کی مُراد خور سے کیا عناد؟ مور اپنے پروں کو پھیلا کر رقص کرے، اس کوؤں سے کیا ضد؟
جو شخص کے جتنا قریب ہو گا، اتنا ہی انسانوں کے قریب ہو گا۔ اللہ سے محبت کرنے والے ہر انسان سے محبت کرتے ہیں۔ جو ذات اللہ کے قریب ہے، وہی کائنات کے لیے رحمت ہے۔ پستیوں کی خدمت سے بلندی حاصل ہوتی ہے۔ تضادات کو خائق کے حوالے سے پہچانا جائے، تو تضادات میں اُلجھاؤ نہیں۔ یہ تضادات نفرت کے لئے نہیں، محبت اور پہچان کے لیے ہیں۔ خائق حق ہے۔ تخلیق اپنے ہمہ رنگ جلوؤں سمیت برحق ہے۔
مخلوق اپنے عقائد و نظریات کے تضادات کے باوجود عین حقیقت ہے۔ نجات، عمل اور حسن ِسلوک میں ہے۔ زندگی وجودیت ہے، روحانیت ہے، جنسیت ہے، حسیت ہے، وحدت ہے، وحدت الشہود ہے، معاشی استحکام کا نام ہے۔ حقیقت ہے، خواب ہے، تقدیر ہے، تدبیر ہے، عقیدہ ہے وہ عقیدہ ہے۔ یہ سب صحیح ہے اِس میں اُلجھاؤ نہیں، لیکن میری زندگی میرا نام ہے، میرا عمل ہے، مجھ سے میرے بارے میں سوال ہو گا۔ دِل دریا سمندر، واصف علی واصف سے اقتباس۔