دُنیا کی ہر زبان کا اپنے بولنے والوں کے تمدن اور ان کی تہذیب و ثقافت کے ساتھ گہرا رشتہ ہوتا ہے۔ زبان کسی بھی تہذیب وثقافت کا مکمل اور جامع مظہر ہوتی ہے۔ زبان ایک ملک کے رہنے والوں کے خیالات و نظریات اور تہذیب و تمدن کی آئینہ دار ہوتی ہے۔ اس کے حال کو ماضی سے ملاتی ہے۔ یہ قومیت کا لازمی جزو ہے جس کے ذریعے سے قوم کے افراد میں سوچنے سمجھنے محسوس کرنے اور عمل کرنے کی قوتوں کی ہم آہنگی پیدا ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ زبان کے توسط سے ہی پھیلایا جا سکتا ہے کہ مختلف قسم کی دریافتوں اور ایجادوں کی اشاعت کیسے ہو سکتی۔ قومی زندگی کا ایک اہم عنصر اس کی آزادی کا قیام بقا ہے۔ ہم اپنی زبان سے دُوری کی وجہ سے اپنی ثقافت کے ورثے کو بھی کھورہے ہیں۔ سب سے کٹھن اور بڑی غلامی ذہنی غلامی ہوتی ہے جو قوم غیر زبان میں سوچتی، لکھتی اور پڑھتی ہے وہ غیر تہذیب کے فقط اثرات قبول کرتی اور انہیں اپناتی ہے اور اپنی زبان سے دور ہوتی جاتی ہے۔ یہ اس کی اپنی شکست ہے۔ قومی تہذیب و تمدن اور قومی ثقافت قومی زبان سے ہی جھلکتی ہے۔ یہ سچ ہے کہ اگر کوئی قوم دنیا بھر کے علوم و فنون اور سائنسی اصطلاحات کو اپنی قومی زبان میں منتقل کر کے اسے نافذ کرنے سے قاصر رہے تو پھر ایسی قوموں کو تباہی سے کوئی نہیں روک سکتا۔ پاکستان کی تہذیب و تمدن کا جائزہ پاکستان کی قومی زبان سے لیا جا سکتا ہے نہ کہ انگریزی سے۔ کوئی بھی تہذیب ہو ہمیں دوسروں کی تقلید میں سکون ملتا۔ اب ہماری قومی زبان ارود ہے لیکن ہمارے امتحانات ہوں یا پرائیویٹ دفاتر میں ملازمتوں کے تمام امتحانات انگریزی زبان میں ہوتے ہیں اور انٹرویوز بھی انگریزی میں ہی کئے جاتے ہیں جس طرح انگریزی پوری دنیا کو ایک ساتھ جوڑے ہوئے ہے اسی طرح اردو بھی پورے پاکستان کے لئے ایک زنجیر کی مانند ہے جس کی ہر کڑی ایک دوسرے کے لئے لازم ہے۔ علاقائی زبانیں تو بہت ہیں کہیں پشتو تو کہیں سندھی، بلوچی اور پنجابی لیکن پاکستان سے باہر جہاں کہیں کوئی پاکستانی نظر آتا ہے وہاں ہم علاقہ بھول جاتے ہیں جو بھی پاکستان سے محبت کرتا ہے وہ اپنی زبان سے بھی محبت کرتا ہے۔ اُرود زبان کی افادیت کو سمجھنے کے لیے ہمیں اُردو زبان کی وسعت کو سمجھنا ہو گا۔ بانی پاکستان قائداعظم محمدعلی جناحؒ نے اردوکے متعلق واضح اور کھلم کھلا الفاظ میں فرمایا تھا کہ "اُردوپاکستان کی قومی زبان ہو گی"اور قائد کے اس حکم نامے کو امر کرنے کے لیے 1973ء کے آئین میں اردُوکو سرکاری زبان قرار دے دیا گیا تھا اور شاعر مشرق علامہ اقبال قومی زبان کی اہمیت کے بارے میں فرماتے ہیں کہ "میں جو اُردولکھتا ہوں یہ میری تہذیب کی نمائندگی کرتی ہے اور میں اس کو چھوڑنہیں سکتا، شان، جلالت، رُعب اور دبدبہ اس کے اوصاف ہیں میری لِسانی عصبیت میری ذہنی عصبیت سے کسی طرح کم نہیں ہے "دنیا کی تاریخ میں آج تک ایک بھی قوم ایسی نہیں گزری جس نے کسی دوسری قوم کی زبان میں ترقی کی منازل طے کی ہوں، ہمسایہ ملک چین کو ہی لے لیجئے انقلابِ چین کے وقت ماؤزے تنگ نے حکم جاری کیا تھاکہ چینی بچے صرف چینی زبان میں چائنیز ٹیچرز سے علم حاصل کریں گے چین میں آپ کو کوئی بھی سرکاری یا نجی عہدہ دارانگریزی بولتا نظر نہیں آئے گا۔ دنیائے اسلام کا ترقی یافتہ ملک ترکی جس میں درجہ چہارم سے لیکر آرمی چیف تک سارا نظام ترکش زبان میں ہے اور ایران کا تمام سرکاری ہائے نظام فارسی میں ہے وہاں جانے اور رہنے کے لیے آ پ کو فارسی زبان پر مکمل عبور حاصل ہونا چاہیے۔ انگریزی کو نظر انداز کرنے کے باوجود بھی ایران سے ہر سال نوبل انعام کے لیے کوئی نہ کوئی نامزد ہوتا ہے، جاپان میں صرف جاپانی زبان ہی سرکاری زبان کے طور پر رائج ہے یہی وجہ ہے کہ جاپان جیسا منظم اور ترقی یافتہ ملک ایٹم بم کھا کر بھی نہیں مرا اور نہ ہی ایٹم بم کا خوف اسے ذہنی غلام بنا سکا۔ دنیا کا جدید ترین ملک اسرائیل جس میں کسی کو انگلش نہیں آتی، کم عرصہ میں ترقی کی منازل عبور کرنے والے ملک جرمنی کے رہائشی جرمن انگزیری سے نفرت کرتے ہیں۔ بھارت جیسا انگریز نواز ملک بھی انگریزی سے فرار ہو کر تمام علوم و فنون کو ہندی، اردواور دیگر مقامی زبانی میں منتقل کر رہا ہے اور تمام سائنسی اصطلاحات کا ترجمہ بھی اردو میں ہی کر رہا ہے۔ افسوس اردُوقومی زبان تو پاکستان کی ہے مگر اس پہ اغیار کام کر رہے ہیں اور مستفید ہو رہے ہیں دُنیا کی قدیم زبانوں کے مقابلے میں اُردو کی عمر بہت کم ہے لیکن ادبی حیثیت سے اس کا پلڑا دُنیا کی سینکڑوں زبانوں پر بھاری ہے۔ تیرہویں، چو دہویں اور پندرہویں صدی کا زمانہ اُردو کی تشکیل کا دور ہے۔ اُردو زبان اور ادب نے 300 سال تک جتنی ترقی دکن میں کی اس کی نظیر پورے ملک میں نہیں ملتی۔ ان کے پُرکھوں نے اردو کو نکھارا، بنایا، سنوارا اور اس میں ادبی شان پیدا کی۔ قطب شاہی (گولکنڈہ: 1518ء۔ 1687ء) اور عادل شاہی (بیجاپور: 1489ء۔ 1686ء) دَور میں اردو کو دکن میں بہت فروغ ہوا اور وہ ملک کی سب سے مقبول زبان بن گئی۔ جب دکن کی ریاستوں کو زوال آیا اور سلطنت مغلیہ کے دَورِ عروج میں اورنگ زیب نے بیجاپور (1686ء) اور گولکنڈہ (1687ء) فتح کیا تو اورنگ آباد کی رونق بڑھ گئی۔ اُردو، افسانہ، ناول، تنقید و تحقیق، انشاء و حکایات، ڈرامہ، شاعری کا بیش بہا ذخیرہ دُنیا کی اکثر زبانوں کے مقابلے میں رکھا جا سکتا ہے۔ اُردو زبان دنیا کی چند بڑی اور ترقی یافتہ زبانوں میں ایک ہے۔ اس میں دوسری زبانوں اور تہذیبوں کو جذب کرنے کی صلاحیت اور روایت بدرجہ اتم موجود ہے۔ اسی مزاج نے اسے عوامی زبان بنایا اور برصغیر ہندو پاک میں ایک عرصہ تک دفاتر کی واحد زبان بنی رہی اور فی زمانہ دنیا کے تقریباً ہر بڑے آج دنیا کے تقریباً تمام ملکوں میں اُردو ایک اہم زبان کی حیثیت سے پڑھائی جارہی ہے۔ برطانیہ تو اُردو کے سوادِ اعظم سے باہرُ اردو کا تیسرا سب سے بڑا مرکز ہے وہاں کی تقریباً تمام یونیورسٹیوں میں اُردو پڑھائی جاتی ہے۔ اُردو کے متعدد اخبارات اور رسائل بھی شائع ہوتے ہیں اور درجنوں انجمنیں کام کررہی ہیں۔ اسکول آف اورینٹل افریقن اسٹڈیز اُردو کی اعلیٰ تعلیم اور تحقیقات کا مرکز ہے۔ امریکہ سے بھی اُردو کے متعدد اخبارات و رسائل اور کتابیں شائع ہوتی ہیں اور وہاں کی اکثر یونیورسٹیوں میں اُردو کی تعلیم دی جاتی ہے۔ کینیڈا کی کئی یونیورسٹیوں میں بھی اُردو کی تعلیم کا بندوبست ہے جہاں سے کتابیں بھی شائع ہوتی رہتی ہیں۔ اخبارا ت و رسائل بھی نکلتے ہیں اور ٹورنٹو یونیورسٹی کے علاوہ دیگر یونیورسٹیوں میں اُردو تعلیم کا نظم ہے۔ یہاں کی مونٹریل یونیورسٹی میں اقبال چیئر قائم ہے۔ جاپان، چین، جنوبی افریقہ، ناروے، پراگ، برلن اور سابقہ سویت یونین ممالک میں بھی اُردو زبان پڑھائی جاتی ہے اوراُردو بولنے والوں کی اچھی تعداد موجود ہے۔ ماریشس میں اُردو تیسری زبان کی حیثیت رکھتی ہے۔ استنبول یونیورسٹی میں باضابطہ اُردو کا شعبہ ہے اور یہاں اکثر اُردو کے پروگرام ہوتے رہتے ہیں۔ اس کے علاوہ رنگون، سنگاپور اور ہانگ کانگ میں بھی رابطے کی زبان کے طور سے اُردو کا استعمال کیا جاتا ے اور وہاں سے اُردو اخبارات و رسائل بھی شائع ہورہے ہیں۔ عرب ممالک بشمول مصر اور خلیج کے بہت سے علاقے نیز ایران کی متعدد یونیورسٹیوں میں اُردو کے شعبے قائم ہیں۔ برصغیر ہند و پاک، بنگلہ دیش اور نیپال کے کروڑوں لوگوں کی مادری زبان اُردو ہے۔ سرکاری سطح پر دیکھا جائے توپاکستان کی سرکاری زبان اُردو ہے۔ ہندوستان میں اُردو کو ریاست جموں و کشمیر میں پہلی سرکاری زبان جب کہ بہار، اترپردیش، تلنگانہ، مغربی بنگال اور دہلی ریاستوں میں دوسری سرکاری زبان کا درجہ حاصل ہے۔ مہاراشٹر، کرناٹک اور آندھرا پردیش وغیرہ ریاستوں میں اُردو داں طبقہ کثیر تعداد میں رہائش پذیر ہے۔ چنانچہ برصغیر میں اُردو رابطے کی سب سے بڑی اور موثر زبان کی حیثیت رکھتی ہے نیز مذہب اسلام کی تبلیغ و اشاعت میں عربی کے علاوہ اگر کسی زبان نے اہم رول ادا کیا ہے تو وہ اُردو ہی ہے۔ اس زبان میں اسلامی لٹریچر کا بہت بڑا ذخیرہ ہے۔ تفسیر، شرع حدیث، فقہ و سیرت کے علاوہ دیگر تمام علوم و فنون میں بھی اُردو زبان میں بہترین کتابیں موجود ہیں۔ آج دنیا میں اپنے ملک کے وقار کو بلند کرنا ہے تو اپنی زبان سے محبت کرنا سیکھنا ہوگا یہی ہماری پہچان ہے اردو کو زندہ رکھنے کے لئے اپنے بچوں کے ساتھ انگلش میں نہیں اپنی زبان میں بات کرنی ہوگی۔ اردو زبان سے پیاری اور میٹھی کوئی زبان نہیں اس میں ادب بھی ہے لحاظ بھی احترام اور محبت بھی ہے زبان کسی بھی قوم کی پہچان ہوتی ہے وہ ایک آئینے کی مانند ہوتی ہے جس میں ماضی کا عکس نظر آتا ہے اپنا کلچر نظر آتا ہے جو قومیں اپنی مادری زبان اپنے بچوں تک نہیں پہنچاتیں وہ اس زبان کی موت سے پہلے اپنی تہذیب وتمدن اور اپنی اقدار کی موت کا سامان پیدا کردیتی ہیں۔ برصغیر میں اسلام کا فروغ بھی اُردو کے ہاتھوں ہونے کے علاوہ مسلمان صوفیاء کرام نے اُردو کو مذہبی خیالات کا ذریعہ بنایا۔ اس بات کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ اُردوکی قدیم ترین تحریریں اور اُردو رسالے بالعموم مذہبی موضوعات سے تعلق رکھتے تھے۔ برصغیر کے مسلمان قرآن کو عربی فارسی کے ذریعے نہیں بلکہ اُردو ترجموں اور تفسیروں کے ذریعے سمجھتے ہیں جانتے ہیں انہیں بھی اُردو زبان پر مہارت کروائی جا سکتی ہے۔ یہ ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ اُردوہماری ترقی کی ضامن ہے۔