اللہ تعالیٰ نے اسلامی ممالک کو بے شمار نعمتوں، بے پناہ قدرتی وسائل اور متنوع انسانی وسائل سے نوازا ہے۔ مسلم ممالک قدرتی وسائل سے مالا مال ہیں جنہیں موثر طور پر بروئے کار لانے کی ضرورت ہے۔ امتِ مسلمہ کے پاس وسائل افرادی قوت کی کمی نہیں لیکنبیشتر مسلم ممالک میں سماجی انصاف کے فقدان، معاشی بے انصافیوں اور سماجی ناہمواری کی بد ترین صورت حال ہے۔ ۔ دُنیا کی کل مسلم آبادی 1.62 ارب کیقریب ہے۔ جو دنیا کی کل آبادی کا تقریبا 23 فیصد ہے۔ جغرافیائی اعتبار سے دنیا کے کل رقبے میں 21.7 فیصد رقبہ مسلم دنیا کے پاس ہے۔ سب سے زیادہ آبادی والے مسلم اکثریت والے ممالک انڈونیشیا، پاکستان اور بنگلہ دیش ہیں۔ جہاں دُنیا کی کل مسلم آبادی کا تقریبا 36 فیصد حصہ ہے۔ ایک سروے کے مطابق امریکہ کی کل آبادی 305ملین (تیس کروڑ پچاس لاکھ)جن میں مسلمانوں کی تعداد 2.5ملین (پچیس لاکھ)جب کہ امریکہ میں مساجد کی تعداد 1900ہے۔ جرمنی کل آبادی82ملین (آٹھ کروڑ بیس لاکھ)جن میں مسلم آبادی 3.4ملین (چونتیس لاکھ)جب کہ جرمنی میں مساجد کی تعداد 2600ہے۔ فرانس کی کل آبادی65ملین (چھ کروڑ پچاس لاکھ)جن میں مسلمانوں کی تعداد 5.5ملین (پچپن لاکھ)ہے جب کہ فرانس میں مساجد کی تعداد2100ہے۔ برطانیہ کی کل آبادی 62ملین(چھ کروڑ بیس لاکھ)جن میں مسلمانوں کی تعداد 2.4 ملین(چوبیس لاکھ)ہے جبکہ برطانیہ میں مساجد کی تعداد1500ہے۔ اسپین کی کل آبادی46 ملین (چار کروڑ ساٹھ لاکھ)ہے جن میں مسلمانوں کی تعداد1ملین(دس لاکھ) ہے۔ جب کہ اسپین میں مساجد کی تعداد454ہے۔ کینیڈا کی کل آبادی34ملین (تین کروڑ چالیس لاکھ)ہے جن میں مسلمانوں کی تعداد 1ملین یعنی(دس لاکھ) ہے جب کہ کینیڈا میں مساجد کی تعداد 198ہے۔ اسلامی ممالک میں صرف 500 یونیورسٹیاں، امریکہ میں 5758 اور بھارت میں 8460 یونیورسٹیاں کام کر رہی ہیں۔ عیسائیوں میں شرح خواندگی 90 فیصد، مسلمانوں میں صرف 40 فیصد ہے۔ مسلم دُنیا میں ریسرچ پر جی ڈی پی کا صرف 0.2 فیصد خرچ ہوتا ہے۔ دُنیا کے اسی فیصد وسائل پر بیس فیصد ترقی یافتہ ممالک قابض ہیں۔ جغرافیائی سائز کی بات کی جائے تو دنیا کے کل رقبے میں 21.7 فیصد رقبہ مسلم دنیا کے پاس ہے۔ رقبے کے لحاظ سے مسلم دنیا کا سب سے بڑا ملک قازقستان، جب اس کے بعد مسلم ممالک میں الجزائر، سوڈان، سعودی عرب اور انڈونیشیا آتے ہیں۔ دُنیا کی مسلم آبادی میں سے تقریبا 22 فیصد آبادی، عرب ممالک میں بستی ہے جبکہ تقریبا 1.3 ارب مسلمانوں کی آبادی باقی ماندہ مسلم اکثریت والے ممالک میں بستی ہے۔ دُنیا میں سب سے چھوٹا مسلم ملک مالدیپ کا جزیرہ ہے۔ جس کی کل آبادی 338.442 ہے۔ دُنیا کے تمام مسلم ممالک کی معیشت کامجموعی حجم $ 5.7 ٹریلین ہے۔ جو دُنیا کی مجموعی معیشت کا آٹھ اعشاریہ ایک فیصد ہے۔ اسلامی دُنیا میں سب سے بڑی معیشت ترکی ($ 775bn) اور سعودی عرب ($ 577bn) کی ہے۔ اس کے بعد انڈونیشیا ہے۔ جس کی معیشت کا سائز $ 846 ارب ڈالر ہے۔ ایران کی معیشت کا سائز 500bn $ ہے۔ دوسرے مسلمان ملکوں میں پاکستان آبادی کے لحاظ سے دوسرا سب سے بڑا مسلم ملک ہے، اس کی معیشت کے حجم کے لحاظ سے اسلامی دنیا میں آٹھویں نمبر پر ہے۔ مسلم اکثریت والے ممالک کی معیشت کو تیل کی شراکت کو چھوڑ کر، اسلامی دنیا کی عدم تیل کی جی ڈی پی دنیا کی جی ڈی پی میں بہت معمولی یعنی4 فیصد ہے۔ .اسلامی دُنیا کا سب سے بڑا غیر تیل کی پیداوار معیشت والا ملک ترکی ہے جس کے بعد ملائیشیا اور پاکستان کا نمبرآتا ہے۔ .1980 کے بعد سے مسلم دنیا میں سب سے تیز رفتار سے بڑھتی ہوئی معیشتوں میں قطر، عمان (12 گنا اضافہ)، ملائیشیا (11.5 گنا اضافہ)، ترکی (11.3 گنا اضافہ)، انڈونیشیا (10.8 گنا اضافہ) اور مصر (10.3گنا اضافہ). پاکستان میں بھی 1980 ء کے بعد سے 8.9 گنا معیشت کے حجم میں اضافہ ہوا ہے۔ اس کے مقابلے میں دنیا کے جی ڈی پی میں اس مدت کے دوران 6.4 گنا اضافہ ہوا ہے۔ مجموعی طور پر مسلم ممالک کی مشترکہ فی کس آمدنی $ 4.185 یعنی چالیس فیصدکے مترادف ہے۔ فی کس آمدنی (موجودہ امریکی ڈالر) کے لحاظ سے امیر مسلم ممالک میں قطر، کویت اور برونائی دارالسلام ہیں۔ . 2012 کے مطابق ان ممالک میں فی کس آمدنی 90.524 $، $ 56.514 ڈالر اور 41.127 ڈالر تھی۔ پاکستان مسلم دُنیا میں فی کس آمدنی کے لحاظ سے 30th نمبرپر آتا ہے۔ مسلم دنیا کے اندر سب سے بڑے برآمد کنندگان میں سعودی عرب$ 376bn، ملائیشیا 264bn $، انڈونیشیا $ 213bn ڈالر اور ترکی ڈالر 185bnہیں. سب سے بڑے غیر تیل برآمد کنندگان ملک ملائیشیا اور ترکی ہیں۔ دور جدید میں سب سے زیادہ ہائی ٹیکنالوجی برآمد کرنے والے مسلم اکثریت والے ملک میں ملائیشیا ہے۔ جو ہر سال ہائی ٹکینالوجی اشیاء کی تقریبا $ 60bn مالیت کی برآمد کرتا ہے۔ اس کے بعد انڈونیشیا، قازقستان اور ترکی ہیں.قازقستان، تاجکستان، ترکمانستان اور ازبکستان خواندگی کے لحاظ سے، سب سے زیادہ تعلیم یافتہ مسلم اکثریت والے ممالک وسطی ایشیائی ممالک ہیں۔ پاکستان اس فہرست میں سب سے نیچے ہے۔
پچیس مسلم ممالک ایسے ہیں جوصحت کی خدمات پر جی ڈی پی کا 5pc یا اس سے زیادہ خرچ کرتے ہیں۔ پاکستان اس فہرست میں مسلم دُنیا کے اندر سب سے نیچے سے ساتویں نمبر پر ہے۔ آخر میں، سائنس اور ٹیکنالوجی کے لحاظ سے صرف ایک مسلم ملک تیونس میں تحقیق اور ترقی پر جی ڈی پی کا ایک فیصد سے زیادہ خرچ کیا جاتا ہے۔ مسلم دُنیا کے باقی ملکوں میں آر اینڈ ڈی ریسرچ اور ڈیولیپمنٹ پر خرچ کرنے والوں میں ترکی دوسرا ملک ہے۔ پاکستان اعداد و شمار کے ساتھ اس فہرست میں پر چوتھے نمبر پر ہے۔ اسلامی ممالک کی نمائندہ تنظیم او آئی سی اقوام متحدہ کے بعدُ دنیا کی سب سے بڑی اور نمائندہ تنظیم ہے۔ معاشی میدان میں کچھ پیش رفت بھی ہوئی ہے اور فروری 2009 کو بین الاقوامی زکواۃ آگنائزیشن کا قیام عمل میں آیا تھا جس کے ذریعہ سالانہ 65 کروڑ ڈالر کے لگ بھگ زکواۃ اکھٹی کی جانی تھی جس کا بنیادی مدعا عالم اسلام غربت، افلاس، بے روزگاری اور جہالت کے خاتمے کے لیے استعمال کرے گا۔ لیکن یہ خواب شرمندہ تعبیر نہ ہوسکا۔ اس وقت جبکہ دُنیا میں مختلف تجارتی بلاکس وجود میں آچکے ہیں، مختلف ممالک کے درمیان تجارت اور اقتصادی تعاون کے بلاک کی تشکیل مختلف مسلم ممالک میں اسلامی معیشت ومالیاتی نظام کے قیام، اسلامی بینکنگ کے فروغ، سود سے نجات کے لیے مربوط، منظم اور مشترکہ کوششوں کی ضرورت ہے۔ عالمی معیشت میں اس وقت مسلمانوں کا حصہ بہت زیادہ نہیں ہے۔ جبکہ باہمی اقتصادی تعاون، باہمی تجارت کے فروغ، سائنس اور ٹیکنالوجی پر توجہ اور باہمی اشتراک اور عالم اسلام کے پاس موجود قدرتی اور انسانی ذرائع سے بھر پور فائدہ اٹھانے سے صرف آئندہ چند برسوں میں مسلم ممالک کا عالمی مجموعی قومی پیداوار میں حصہ دگناہوسکتا ہے۔ مسلم ممالک میں سے ترکی، پاکستان، مصر، انڈونیشیا، ملائیشیا، نائیجریا اور بنگلہ دیش کا شمار دنیا کی ابھرتی ہوئی معاشی قوتوں میں شامل ہے زرخیز مسلم ممالک جن میں پاکستان بھی شامل ہے کسی امیر مسلم ممالک ٹیکنالوجی کے حصول اور فی ایکٹر پیداوار میں اضافے اور زرعی تحقیق میں مدد کریں تو مسلم ممالک کی زرخیز زمینوں سے بھر پور فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے۔ دنیا کے بیشتر مالک کی معیشت کا دارو مدار تیل پر ہے جبکہ دنیا کے 70 فیصد تیل کے ذخائر مسلم ممالک کے پاس ہیں۔ عالمی آبادی میں اضافے کی وجہ سے تیل کی طلب میں اضافہ ہورہا ہے۔ اگر تیل کی موجودہ طلب برقرار رہی تو اسلامی ممالک کی شرح نمو 5 فیصد تک رہے گی۔ عالمی اقتصادی بحران اور سودی معیشت کی نحوست کی وجہ سے جو نقصانات 2007 سے 2009میں ہوئے اس کا اندازہ 3 ہزار 400 ارب ڈالر تک لگایا گیاتھا جو دُنیا کے 35ممالک کی مجموعی قومی آمدنی سے زیادہ ہے۔ عالمی سطح پر بے روزگاری کی شرح 2007 میں 5.6 فیصد تھی جو 2010 تک بڑھ کر 6.2 فیصد ہوگئی۔ ااسلامی ممالک میں ملائیشیا 14.1 فیصد، سعودی عرب 13.6 فیصد، انڈونیشیا 9.4 فیصد، متحدہ عرب امارات 9.3 فیصد، ترکی 6.8 فیصد ایران 6.1 فیصد کے ساتھ نمایاں برآمداتی ممالک ہیں۔ درآمدات کے لحاظ سے ملائیشیا 12.6 فیصد، ترکی 12.4فیصد، متحدہ عرب امارات 11 فیصد، انڈونیشیا 9 فیصد، سعودی عرب 6 فیصد کے ساتھ نمایاں ہیں جبکہ پاکستانی عالم اسلام کا 10 واں بڑا درآمدی ملک ہے اور کل اسلامی ممالک کی درآمدات ہی اس کا حصہ تقریباً 3 فیصد ہے۔ اسلامی ممالک میں باہمی برآمدات میں سعودی عرب 35.4 ارب ڈالر، متحدہ عرب امارات 34.1 ارب ڈالر، ترکی 32.2 ارب ڈالر، ملائیشیا 22 ارب ڈالر انڈونیشیا 17.4 ارب ڈالر، ایران 13.5 ارب ڈالر اور مصر 10.2 ارب ڈالر کے ساتھ نمایاں ہیں۔ دُنیا بھر کے57 کے لگ بھگ آزاد خود مختار مسلمان ممالک اور ڈیڑھ ارب کے لگ بھگ دنیا بھر میں مسلمانوں کی آبادی ان مسلمان ممالک کی افرادی قوت، قدرتی وسائل، ان کی جغرافیائی اہمیت، دین کی بنیاد پران کے مابین فطری، نظریاتی و فکری ہم آہنگی کوزیر استعمال لانے اور فروغ دینے کے لیے مدت طویل سے اس امر کا شدت سے احساس ابھرتا ہے کہ امت مسلمہ کو بیدارکیا جا سکے اور اسے زوال و انحطاط سے نجات دلا سکے۔ آج جب ہم امت مسلمہ کی محرومیوں، مایوسیوں، مسائل و مشکلات کا تجزیہ کرتے ہیں تو بلا شبہ اس کے اسباب و علل میں اخوت اسلامی یا اسلامی مواخات کے فقدان اور آپس کی ظلم و نا انصافی سرفہرست دکھائی دیتی ہے۔ ظلم اور نا انصافی کا دائرہ زندگی کے کسی ایک شعبہ تک محدود نہیں، بلکہ وہ پوری ملی زندگی کو اپنی لپیٹ میں لے چکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ زوال اور پستی ہمارا مقدر بن کر رہ گئی ہے۔