دُنیا بھر میں ہر سال اپریل فول ایک تہوار کے طور پر منایا جاتاہے۔ اِس دِن مہذب کہلوانے والی مغربی قوم جھوٹ بول کر دوسروں کے جذبات سے کھیل کر ان کا مذاق اڑاتے ہیں۔ یہ تہوار دُنیا بھر میں پھیل گیا اور آج اسلامی دُنیا میں بھی اس دن کو منا کر جھوٹ بولا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس امت کو اپنے حبیب کا امتی منتخب کر کے امتیازی بنایا لیکن ہم اپنا مقام ہی بھول گئے۔ کسی بھی قوم کی ثقافت و تہذیب اس قوم کی پہچان اور سب سے بڑی نشانی ہوتی ہے۔ اگر قوم اپنی تہذیب سے منہُ موڑ کر اغیار کی ثقافت پر عمل پیرا ہوجائے تو اس قوم کی شناخت مٹ جاتی ہے۔ میدان جنگ کی شکست سے نظریاتی شکست بدترین ہے۔ اسلام ایک مکمل تہذیب کا حامل ایسا دین ہے، جس کی اپنی مستقل تہذیبی شناخت ہے، اس لیے یہ اپنے متبعین کو اس خاص خدائی رنگ میں پورے طور پر رنگا ہوا دیکھنا پسند کرتا ہے جسے قرآن میں اللہ کے رنگ سے تعبیر کیا گیا، لیکن آج مسلمان اپنی تہذیب و ثقافت اور اخلاق و کردار کو چھوڑ کر مغربی تہذیب کے پیچھے آنکھ بند کرکے چلا جارہا ہے، مغرب سے آنے والی ہر برائی کو تحفہ سمجھ کر بڑی فراخ دلی اور وسعت نظری کے ساتھ قبول کر لیا۔ جو شخص مغربی تہذیب کا جتنا بڑا نقال اور پیر وہووہ اتنا ہی بڑا متمدن، مہذب اور شریف کہلاتا، پھر یہ کہ ان کے طرز زندگی کو عملی ترقی کے لیے اختیار نہیں کیا جاتا، سائنسی ترقی میں ان کی برابری کی کوشش نہیں کی جاتی، وہ جن علوم و فنون کی بدولت بامِ عروج پر پہنچے ہیں، انہیں حاصل کرنے کی فکر نہیں ہوتی، دُنیا کا زمام اقتدار اقوام مغرب کو کیسے حاصل ہوا اس کی جستجو نہیں، پیروی خرافات، نقالی غلط کاری اور بد تہذیبی میں ہوتی ہے، ان کی تقلید کا شوق سوار ہوتا ہے، لیکن گناہ اور بیجا رسومات کو اختیار کرنے میں، مغرب کی بے سوچے سمجھے شوق نے ہمارے معاشرے میں جن رسموں کو رواج دیا، انہی میں سے ایک رسم اپریل فول کی بھی ہے جس کی خوئے بدنے پوری قوم کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ اپریل فول تاریخ کے آئینہ میں دیکھا جائے تو س کی بنیاد اسلام اور مسلم دشمنی پر رکھی گئی ہے۔ ؛ اسپین میں مسلمانوں کے زوال کے بعد مسلمانوں پر بے انتہا ظلم و ستم ڈھائے گئے، ان کا قتل عام کیا گیا، ان کے ساتھ کیے گئے معاہدوں کو توڑا گیا اور مسلمانوں کو زبردستی اپنا مذہب چھوڑنے پر مجبور کیا گیا، اور انکار پر مسلمانوں کو بے دخل کرکے ان کا بے دردی سے قتل کردیا گیا۔ ہیرالڈ لیم سمیت مختلف تاریخ دان لکھتے ہیں کہ جب ابو عبداللہ نے اپنے باپ اور تمام مسلمانوں سے غداری کی تو اس کے نتیجے میں فرنینڈو کو اسپین پر قبضہ کرنے میں بہت آسانی ہوگئی اور اسی ابو عبداللہ کو عیسائیوں نے اپنا مقصد پورا ہونے کے بعد اسپین سے بے دخل کردیا، ابو عبداللہ نے جب غرناطہ کی کنجیاں شہنشاہ فرنینڈو کو دیں تو یہ الفاظ ادا کی "اے بادشاہ خدا کی یہی مرضی تھی، ہمیں یقین ہے کہ اس شہر کی رعایا کے ساتھ فیاضانہ سلوک کیا جائے گا" اس کے بعد وہ ایک پہاڑ پر چڑھ کر گزشتہ شان و شوکت کا نظارہ کرنے لگا اور پھر رونے لگا۔ اس کی ماں نے اس وقت اس سے یہ جملہ کہا کہ جس چیز کی مردوں کی طرح بچا نہ سکے اس گمشدہ چیز کے لیے عورتوں کی طرح آنسو بہانے سے کیا فائدہ۔ بحرحال آہستہ آہستہ عیسائی حکمرانوں نے مسلمانوں کے ساتھ بدترین سلوک کرنا شروع کیا ان کو اپنا مذہب بدلنے پر مجبور کیا گیا اور ایک آرڈیننس جاری کیا گیا کہ مسلمان یا تو عیسائی ہوجائیں یا نہ ہونے کے عیوض 50 ہزار سونے کے سکھے دیں، ایسا نہ کرنے والا سولی پر لٹکا دیا جاتا تھا، یا انتہائی ازیت ناک سزا کا مرتکب قرار دیا جاتا تھا۔ اس کے علاوہ مدارس میں بچوں کو بپتسمہ دیا جاتا تھا مسلمانوں نے حالات کے پیش نظر اور جان کے خوف سے عیسائی مذہب قبول کرلیا تھا لیکن یہ سب ظاہری اور اوپری طور پر تھا جب بچے گھر آتے تو ان کا منہ فورا دھویا جاتا تاکہ بپتسمہ کا اثر ختم ہوجائے، جب مسلمان نکاح کرنا چاہتے تو وہ پہلے گرجا میں جاکر عیسائی طریقے سے شادی کرتے اور گھر آکر دوبارہ نکاح کرتے، غرض حکمرانوں نے مسلمانوں پر ظلم رواں رکھا اور کچھ عرصے بعد یہ اعلان ہوا کہ مسلمان عیسائی لباس پہنے گے یعنی مسلمانوں سے ان کی شناخت کی ہر چیز چھینی جارہی تھی، حکمرانوں نے اپنے کسی عہد کی پاسداری نہیں کی ان کے ظلم سے عورتیں اور بچے بھی محفوظ نہیں تھے۔ مختصر یہ کہ ان عیسائی حکمرانوں نے ایک چال چلی کہ بچے کچے مسلمانوں سے کہا گیا کہ ان کو افریقا بیھج دیا جائے گا وہ اسپین چھوڑ دیں، مسلمان اس جھانسے میں آگئے اور انھوں نے اپنا تمام مال و اسباب اور علمی ذرخیرہ جمع کیا اور عیسائیوں کی جانب سے فراہم کردہ بحری جہازوں میں سوار ہوگئے، ان مسلمانوں کو علم نہیں تھا کہ ان کے ساتھ کیا ہونے والا ہے، ان کو صرف یہ پتہ تھا کہ ظلم کے ماحول سے ہم دور چلے جائیں گے اگر چہ مسلمان اپنے وطن سے دور رہنے کو تیار نہ تھے لیکن ان کو اس بات کی بھی خوشی تھی کہ ان کی جان بچ جائے گی، بندرگاہ پرحکومت کے اہلکاروں اور جرنیلوں نے مسلمانوں کو الوداع کہا اور ان کو رخصت کیا بیچ سمندر میں پہنچ کر منصوبہ بندی کے تحت ان جہازوں کو غرق کیا گیا اس کے باعث سینکڑوں مسلمان شہید ہوگئے اور ساتھ ساتھ وہ قیمتی و علمی ذخیرہ بھی برباد ہوگیا جو مسلمانوں نے بڑی مشکل سے جمع کیا تھا، یہ واقعہ یکم اپریل کو پیش آیا تھا اور یہ گیارویں صدی عیسوی کے اوائل کا واقع ہے۔ برِ صغیر میں اپریل فول کہا جاتا ہے کہ بر صغیر میں پہلی بار اپریل فول انگریزوں نے بہادر شاہ ظفر سے منایا جب وہ رنگون جیل میں تھے۔ انگریزوں نے صبح کے وقت بہادر شاہ ظفر سے کہا کہ یہ لو تمہار ا ناشتہ آگیا ہے۔ جب بہادر شاہ نے پلیٹ پر سے کپڑا اٹھایا تو پلیٹ میں اس کے بیٹے کا کٹا ہو ا سر تھا۔ جس سے بہادر شاہ ظفر کو صدمہ پہنچا جس پر انگریزوں نے ان کا خوب مذاق اڑایا۔ اپریل فول کے دن جھوٹ بولنے کے ساتھ ساتھ وعدہ خلافی بھی بطورفیشن کی جاتی ہے۔ جھوٹ اوروعدہ خلافی جس کے اندرہو وہ خالص منافق ہوگا۔ آج ہماری ہر منزل مغرب کی پیروی میں ہی نظر آتی ہے۔ ہر وہ قول وعمل جو مغرب کے ہاں رائج ہوچکا ہے اس کی تقلید لازم سمجھتا ہے قطع نظر اس سے کہ وہ اسلامی افکار کے موافق ہے یا مخالف۔ حتی کہ یہ مرعوب مسلمان ان کے مذہبی شعار تک اپنانے کی کوشش کرتاہے۔ ۔ انسانیت کی عزت وآبرو کی پروا کیے بغیر قبیح سے قبیح حرکت سے بھی اجتناب نہیں کیا جاتا۔ اس میں شرعاً واخلاقاً بے شمار مفاسد پائے جاتے ہیں جو مذہبی نقطہ نظر کے علاوہ عقلی واخلاقی طور پر بھی قابل مذمت ہیں۔ آج یہ دن مغربی دنیا میں مسلمانوں کو ڈبونے کی یاد میں منایا جاتا ہے۔ یہ ہے اپریل فول کی حقیقت! مسلمانوں کا اپریل فول منانا جائز نہیں، کیونکہ اس میں کئی مفاسد ہیں جو ناجائز اور اپریل فول میں ہونے والے حادثات بہت ہیں، لوگوں میں سے کتنے ہیں جنکوانکے لڑکے یا بیوی یا دوست کی وفات کے بارے میں خبردی گئی توتکلیف وصدمہ کی تاب نہ لاکرانتقال کرگئے، اور کتنے ہیں جن کونوکری کے چھوٹنے یا آگ لگنے یا انکے اہل وعیال کا ایکسیڈنٹ ہونے کی خبردی گئی تووہ فالج، یا اسکے مشابہ دیگر امراض سے دوچارہوگئے۔ ۔ ۔ اوربعض لوگوں سے جھوٹے یہ کہا گیا کہ انکی بیوی فلاں آدمی کے ساتھ دیکھی گئی تویہ چیزاسکے قتل یا طلاق کا سبب بن گئی اسی طرح بہت سارے واقعات وحادثات ہیں جن کی کوئی انتہا نہیں اورسب کے سب جھوٹ کا پلندہ ہیں جنہیں عقل ونقل حرام ٹھراتی ہے اورسچی مروّت اسکا انکارکرتی ہے۔ اس دن مذاق میں دوسروں کو ڈرایا دھمکایا بھی جاتا ہے جو بسا اوقات جان لیوا بھی ثابت ہوتا ہے۔ اس کا اندازا 2 اپریل کے اخبارات سے لگایا جا سکتا ہے۔ غرض اس فعل میں کئی مفاسد پائے جاتے ہیں۔ لہٰذا تمام مسلمانوں کو چاہیے کہ اس قبیح فعل سے خود بھی بچیں اور دوسروں کو بھی بچائیں اور حکومت وقت کو بھی اس پر پابندی لگانے میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ اپریل فول کے موقع پرہنسی مذاق، تمسخر، استہزا، جھوٹ، دھوکہ، مکروفریب، وعدہ خلافی، بددیانتی اورامانت میں خیانت وغیرہ وغیرہ امورانجام دیے جاتے ہیں۔ یہ سب مذکورہ فرمان الٰہی اورفرمان رسالت کی روشنی میں ناجائزوحرام، خلاف مروت، خلاف تہذیب کے خلاف ہیں لیکن افسوس صدافسوس مسلمانوں پر جوقوم نیکی کی دعوت اوربرائی سے روکنے کے لیے مبعوث کی گئی ہووہ قوم خداورسول کے دشمن یہودونصاری کی تقلیدکرتی ہے۔ آج قوم مسلم اپنے ازلی دشمن یہودو نصاری کے جملہ رسم ورواج، طرزعمل اورہرقسم کے فیشن کونہایت ہی فراخ دلی سے قبول کررہی ہے۔ مسلم نوجوان اسلامی تعلیمات سے اس قدربے بہرہ ہیں کہ وہ دنیاوی امورمیں جائزناجائزکاخط فاصل نہیں کھینچ سکتے۔ اگرکسی مسلمان کے بائیں ہاتھ میں مکمل دنیاہوتو دائیں ہاتھ میں مکمل دین ہوجس سے دنیاوآخرت میں کامیابی میں کامیابی و کامرا نی سے ہم کنارہوں۔ اللہ تعالیٰ تمام مسلمانوں کواسلامی تعلیمات اوراسوہ مصطفوی کے مطابق زندگی گزارنے کی توفیق عطافرمائے۔