پاکستان، آزاد کشمیر مصائب کی لپیٹ میں، سیلاب، کورونا، ڈینگی، زلزلوں نے گھیر لیا۔ گلیشرز تیزی سے پگل رہے۔ مسائل کا سمندر امڈ آیا۔ دراصل جو حکمت عملی اِن مسائل کے گرداب سے ہمیں نکال سکتی، اِس سے ہم کوسوں دور ہیں۔ اور پھر ہم ان مسائل کے خود ہی تو ذمہ دار ہیں۔ وہ جملہ اعمال آج ہم نے اپنا لیے جن سے یہ مصائب مقدر ہوا کرتے۔ دوسروں کی نہیں، خود احتسابی کی ضرورت ہے۔
نظریہ پاکستان سے مراد وہ نظریہ اور فکر ہے، جس پر پاکستان کی بنیاد رکھی گئی اور وہ نظریہ اسلام ہی ہے۔ بانی پاکستان قائداعظم نے علی گڑھ میں خطاب کرتے ہوئے نظریہ پاکستان کی وضاحت ان الفاظ میں کی کہ پاکستان کے مطالبے کامحرک اور مسلمانوں کے لیے جداگانہ مملکت کی وجہ کیا تھی؟ تقسیم ہند کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ اسکی وجہ ہندوؤں کی تنگ نظری ہے نہ انگریز کی چال، یہ اسلام کا بنیادی مطالبہ ہے۔
اسلام کا بنیادی مطالبہ کیا تھا کہ جس کے لیے ایک علیحدہ مملکت وجود میں لانا مسلم قوم کے جان و ایمان کا مسلہ بن گیا تھا؟ وہ مطالبہ ایک ایسی مملکت کا وجود تھا، جہاں اللہ کی حاکمیت، امر بالمعروف و نہی عن المنکر کی خوبصورت حدود، نظریاتی اقدار کی پاسبانی، معاشرتی و اخلاقی قدروں کی نشوونما۔ مغرب کے لادین معاشرے کی اجارہ داری کا خاتمہ ہو۔
مسلمان اس خطہ ارض میں دین اسلام کا نفوذ اس طرح کریں کہ فتنہ باقی نہ رہے اور دین خالص اللہ کے لیے ہو جائے۔ یہ وہ بنیاد تھی۔ جس پر اس ملک کی عمارت استوار ہوئی تھی، جس سے دُنیا کے نقشے پر ایک اور مملکت کا وجود ابھرا جسکے پہاڑوں اور اسکی سرحدوں پر اسلام کا پرچم سر بلند تھا، جسکی مٹی میں اسلام کے شیداؤں کا خون شامل تھا۔
ہم نے بچوں کویہ بات تو حفظ کروا دی کہ "پاکستان کا مطلب کیا لاالہ الا اللہ" اور "نظریہ اسلام ہی نظریہ پاکستان ہے" مگر ان جملوں میں موجود ایک وسیع مفہوم سے، جس سے عروج و زوال کی کڑیاں جڑی تھیں ہماری نوجوان نسل نابلد ہی رہی، بلکہ مغربی تہذیب کی یلغار نے ہمارے اندر اس مفہوم سے دلچسپی کی بجائے بیزاری کی لہر پیدا کر دی۔ مغرب نے اس انداز میں نوجوان نسل کے ذہنوں کوہدف بنایا کہ مسلم جوان اپنی تہذیب کو زنجیر اور مغربی تہذیب کو آزادی و خود مختاری سمجھنے لگا۔
نئے انداز پائے نوجوانوں کی طبیعت نے
یہ رعنائی، یہ بیداری، یہ آزادی، یہ بے باکی
یہ بات تو روزِ روشن کی طرح عیاِں ہے کہ جس روز ہم نے اسلاف کی میراث کو چھوڑ کے اغیار کے سامنے جھولی پھیلائی، ثریا نے اسی روز ہم سے منہ موڑ لیا تاریخ، اس بات کی شاہد ہے کہ قومیں جب بھی اپنے اسلاف کی حسین روایات سے پھریں تب ہی زوال کے گھڑیال نے اپنے چکر کو اس کی تقدید کے ساتھ جوڑ دیا وہ قوم ھو ہزار سال دریاؤِں پہ بھی حکمرانی کرتی رہی آخر اسکا تشخص اسکی اقدار کیونکر زوال پذیر ہوئیں؟ اقبال نے اس سانحہ کو اس انداز میں پیش کیا ہے کہ
گنوا دی ہم نے جو اسلاف سے میراث پائی تھی
ثریا سے زمین پر آسماں نے ہمکو دے مارا
ایک مغربی مفکر کے مطابق "نظریات وہ قوت ہیں، جو تہذیبوں کو جنم دیتے ہیں، جو انقلابات کی تحریک کرتے ہیں۔ ان میں بموں سے کہیں زیادہ طاقت اور آتشین مادہ پوشیدہ ہے۔ حالات کے بھنور میں پھنسی کسی قوم کی کشتی کو کنارے لگانا، اس طبقے کا کام ہوتا ہے۔ جو عقل وخرد اور سماجی مرتبے میں خواص کے درجے کا ہوتا ہے۔ اگر کسی قوم کے پاس ذہانت وفراست، ہمت وحوصلہ، ایثار وبے لوثی۔
حقیقت پسندی اور غیرت مندی کی صفات سے متصف خواص ہوں تو وہ پوری قوم میں عزم، جوشِ عمل، صبر وبرداشت، حالات کی تبدیلی کے لیے قربانیوں کا مزاج اور ظلم سے نبرد آزمائی کا حوصلہ پیدا کردیتی ہے۔ اور ایک وقت آتا ہے۔ وہ کمزور قوم گوہرِ کردار سے مزین اور قوتِ عزم سے مسلح ہوکر حالات کے گرداب سے ابھر آتی ہے۔ اور پھر اس کی تاریخ کا نیا دور شروع ہوتا ہے۔
جس میں وہ ثابت کردیتی ہے کہ انصاف اور طاقت کے سلسلے میں قلت وکثرت بے معنیٰ اور غیر موثر باتیں ہیں، مگر جب کردار کی بنیادوں میں پانی بھرنے لگتا ہے اور اخلاق کے شجرِ پُر بہار کی جڑیں دیمک زدہ ہو جاتی ہیں تو اس قوم کو حالات کی ستم ظریفیوں سے کوئی نہیں بچا سکتا۔ قرآن نے بھی یہی قاعدہ بیان کیا ہے اور قوموں کے عروج وزوال کی تاریخ بھی اسی اصول کی تفسیر ہے۔
ایک زخم پر مرہم نہیں رکھا جاتا کہ دوسرا زخم لگا دیا جاتا ہے، ہماری کمزوری اور ذلت وبے چارگی روز افزوں ہے، ہم صرف دوسروں کے رحم وکرم پر ہیں، اور کوئی راہ حالات کے بہتر ہونے کی نظر نہیں آتی۔ ہم اپنی مظلومیت پر ماتم کرتے ہیں۔ اس سے فارغ ہوتے ہیں تو احتجاج کر لیتے ہیں، دیوانے چیخ لیتے ہیں، فرزانے فلسفیانہ غور وفکر میں مشغول ہوکر دِل بہلا لیتے ہیں۔
اس سے مایوس ہوتے ہیں تو قیادت نہ ہونے کا شکوہ کر لیتے ہیں یا دشمنوں پر تبرا پڑھ لیتے ہیں، مگر حق یہ ہے کہ حالات کے بدلنے کی کسی کو کوئی راست تدبیر سمجھ میں نہیں آتی۔ کوششیں سب دم توڑ گئیں، اور امیدوں نے اندھیروں کی چادر اوڑھ لی۔ اس محیط مایوسی اور ہمہ جہت ناکامی کا ایک بنیادی سبب ہماری شدید پست اخلاقی ہے۔ ایسی ابتر اخلاقی حالت جو بڑی سے بڑی قوم کو کسی کام کا نہیں چھوڑتی۔
جس نے ہر کام بگاڑ دیا ہے اور ہر کوشش ناکام کر دی ہے۔ ہمیں سب سے پہلے جس چیز کی ضرورت ہے، وہ اتحاد اور باہمی تعاون ومدد کا مزاج ہے۔ مگر یقین کیجیے کہ ہمارا جو اخلاقی حال ہے، اس سے سب سے پہلے قوم کا اتحاد پارہ پارہ ہوتا ہے، اس لیے کہ اتحاد کی پہلی شرط ایمان دارانہ حق شناسی، دوسروں کی برتری کا شریفانہ اعتراف اور ایثار جیسی صفات ہیں۔
اگر خواص میں حق شناسی نہ ہو، ایمانداری کے ساتھ دوسروں کے مرتبے اور فوقیت کا اعتراف نہ ہو، اور کم از کم درجے کا بھی ایثار نہ ہو، اور ان صفات کی جگہ عالم یہ ہو کہ ہر شخص اپنی ذات کا اسیر اور خود کی عبادت میں مصروف ہو تو یقینا نفسا نفسی کا عالم ہی قائم نظر آئے گا۔ آج جو انتشار مسلمانوں کی جان کا دشمن بنا ہوا ہے وہ اخلاق کی اسی بیماری کی دین ہے۔
اس بیماری کی شدت کے باوجود اپنی صفوں میں اتحاد کی توقع کرنا ایسا ہی ہے کہ آپ کسی بیمار و لاغر سے توقع کریں کہ وہ کسی بڑے پہلوان کو ہارا دے گا، بے اصولیوں کی مثالیں ہمارے اطراف میں اس قدر بھری پڑی ہیں کہ کسی نشاندہی کی ضرورت نہیں۔ اگر تعلیمی اداروں میں پروگرام کے نام پر ڈانس اور میوزک ہوں گے تو نسل نو نے کب اسلامی شعار کو اپنا لینا ہے؟
خود غرضی اور مفاد طلبی نے ہر انداز سے تجاوز کر لیا ہے۔ ہماری اس کمزور کیفیت کو غیروں نے خوب سمجھ لیا ہے۔ کسی مظلوم اور کمزور قوم کو اگر ذلت کے گرداب اور ظلم کے شکنجے سے خلاصی حاصل کرنی ہے تو اس کے لیے غیرت وحمیت کی طاقت پہلی شرط ہے۔ ہم اہلِ مغرب کو اخلاقی پستیوں کا بڑا طعنہ دیتے ہیں، یقینا ان کے ظلم سے انسانیت خوں چکاں ہے اور ان کی بے حیا تہذیب نے آدمیت کے شرف کو داغدار کیا ہے۔
مگر ہم مغرب کے سے ایسی قربانی کی توقع نہیں کر سکتے، جیسی ہم معمولی سی پیشکشوں پر روز دیتے ہیں۔ چھوٹے سے فائدوں کے لیے، ذاتی عزائم اور مفادات کے لیے ہم ذلت انگیز حد تک پستی اختیار کرنے کو تیار ہیں۔ محمد عربیﷺکی اُمت کو غیروں سے بھی عبرت نہیں ہوتی۔ ان سب مسائل کا حل اپنی اصلاح سے ممکن ہے۔ کیوں کہ یہ انسانوں سے نہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے حل ہو سکتے۔ اور اللہ ہر چیز پر قادر ہیں۔