اندھیروں سے لڑنے نکلی ہو
کانٹوں پر چلنے نکلی ہو
مگر یاد رکھو
جنگ کے بھی اصول ہوتے ہیں
شام سمے جب سورج ڈھلنے لگے
اپنے زخمی اٹھائےلشکری
اپنے پڑاؤ میں لوٹ آتے ہیں
اور شب کی بانہوں میں چھپ کر
اپنے ادھڑے ابدان کے بخیے بنتے ہیں
کہ صبح دم
نئے معرکے میں اتر سکیں
اندھیروں سے لڑنے نکلی ہو
تو ٹھہرو ناں زرا
جنگ کے اصول یاد رکھو
یہاں لوٹ کے اپنے خیمے میں آؤ
میرے سامنے بیٹھو
دیکھو یہ پاؤں تھکن سے ٹوٹ رہے ہیں
میری طرف بڑھاؤ انہیں
میں اپنے ہاتھوں سے سہلاؤں انہیں
انکی پوروں سے تھکن کے کانٹے نکالوں
اور یہ ہاتھ تمہارے
کس دھول میں اٹے ہوئے ہیں
مجھے دو کہ انہیں دھلاؤں میں
مجھے دو کہ انہیں سہلاؤں میں
یہاں میری گود میں سر رکھو
اور لیٹ جاؤ ابھی
دیکھو ضد نہ کرو
میں اپنی نظموں کی لوری سناؤں تمہیں
تمہارے ابروؤں سے ہوتی ہوئی میری انگلیاں
تمہارے بالوں میں دھیرے دھیرے چل رہی ہیں
میں نے ایک ہاتھ تمہاری آنکھوں پر رکھ دیا ہے
ابھی سو جاؤ تم
سپنوں میں کھو جاؤ تم
نئی صبح، نئی جنگ درپیش ہوگی
جنگ کے اصول سمجھو
اندھیروں سے لڑنے نکلی ہو
کانٹوں پر چلنے نکلی ہو۔۔