1. ہوم/
  2. نظم/
  3. عادل سیماب/
  4. بے خودی

بے خودی

میں محسوس کر رہا ہوں تمہیں

بہت قریب، بہت قریں

میں چاہتا تھا اس احساس کو نظم کروں

مگر میرے سامنے لفظوں کی مٹی خشک پڑی ہے

تخیل کے چاک پر میرے پاؤں کی حرکت رکی ہوئی ہے

ایک گہرے سکوت نے مجھے گھیرا ہوا ہے

میرے انگلیوں کی پوروں پر تمہارا لمس رینگ رہا ہے

میرے سینے پر جیسے تمہارا سر آ ٹکا ہے

میری سانسوں میں تمہاری خوشبو مہک رہی ہے

میری آنکھوں میں وہی منظر جاگ رہا ہے

جب دامن کہسار میں اس پُل پر پہلی بار تم سے سامنا ہوا تھا

میں نے بے ساختہ تمہارا ہاتھ تھام لیا تھا

مجھے یقیں ہے وہ پل کائناتوں کے سفر کا سب سے حسین حادثہ تھا

اس لمحے مجھے ایسے لگا تھا

جیسے بس اس لمحے کی تخلیق کے لئے ارب ہا سال پہلے

کثیف مادے کا دل پھٹا تھا اور کہکشاؤں کی تخلیق کا ایک سلسلہ چل پڑا تھا

ہمارا ملنا کب عام سا واقعہ تھا

میں آج تک اسی لمحے کے حصار میں ہوں

میرے فن کے سبھی سہارے بیکار پڑے ہیں

میں محسوس کر رہا ہوں تمہیں

بہت قریب بہت قریں

میری انگلیوں کی پوروں سے سفر کرتا تمہارا لمس

میری نس نس میں اتر چکا ہے

میری نظم راستہ کھو چکی ہے

تمہاری یاد کی ناؤ پر بیٹھا

میں بے سمتؒ لہروں پہ بہہ رہا ہوں

جانے مجھے کیا کہنا تھا؟

جانے میں کیا کہہ رہا ہوں؟

جانے میں کیا کہہ رہا ہوں؟

عادل سیماب

Adil Seemab

عادل سیماب ہزارہ یونیورسٹی کے شعبہ سیاسیات میں گزشتہ چودہ سال سے تدریسی فرئض سرانجام دے رہے ہیں۔ انکی نثری اور آذاد نظموں کا ایک مجموعہ داستان پبلشرز سے بعنوان صدائے دروں شائع ہو چکا ہے اورورل پول کے عنوان سے ایک انگریزی ناول امیزون پر چھپ چکا ہے۔