کسی روٹھے ہوئے خواب کو مناتے پھر سے
اور پھر سے کوئی پیمان وفا کا باندھتے
دل کے آستاں میں کوئی آرزو کا دیا جلاتے
وصل کی تمنا کا کوئی ادھورا خواب
اور سینے میں جاگتی کسی خلش کی تپش
پھر سے تجھے نذر کرتے اے جانِ تمنا مگر
میرے احساس کے جزیروں میں ان دنوں
خزاں موسم کی پت جھڑ کا سماں ہے
سو میں چپ ہوں۔۔
میں جانتا ہوں
اداسیوں کے روگ وباؤں کی طرح پھیلتے ہیں
اور وباؤں کے موسم میں
سماجی فاصلے ضروری ٹھہرتے ہیں
سو میں چپ ہوں۔۔