1. ہوم/
  2. نظم/
  3. عادل سیماب/
  4. ہمارے خواب

ہمارے خواب

ہمارے خواب یہ ہمارے خواب
سراب بعد از سراب

مگر حسیں ہیں
تیری آنکھوں سے جھانکتے لفظوں کی مانند

لفظ موتی ہیں
دنیا کے سب سے حسیں موتی

جو تو نے کتابوں کے صحرا سے چُنے
کتابیں جو دریچہ ہیں

اندیکھی دنیاؤں کا دریچہ
انکہے جذبوں کی زباں

قریہ قریہ پھیلی کہانیوں کی آماجگاہیں
ہم جیسے آشفتہ سروں کی پناہیں

ہم جنکی بصارتیں باغی ہیں
ہم جنکی زبانیں پابہ زنجیر ہیں

ہم جنکے قدم
مخصوص راستوں سے باندھے گئے

ہم انہی راستوں پر
عمر بھر

گھسٹنے کو مجبور ہیں
مگر ہماری آنکھیں ہماری مجبوریوں کے بوجھ تلے دبنے کو تیار نہیں

ہماری سوچیں اپنی دنیا تخلیق کرنے پہ مصر ہیں
یہ خواب بُنتی ہیں

یہ کتابوں سے دانائی کے موتی چُنتی ہیں
یہ رواجوں کے پہرے توڑتی ہیں

یہ زمانوں کو زمانوں سے جوڑتی ہیں
یہ مکانوں کی بندشوں سے آزاد ہیں

یہ وقت کی ناؤ پر تیرتی
ہمیں بابل و نینوا کی پرسرار گلیوں میں

دھڑکتے دلوں کی داستاں سناتی ہیں
اور ایسے کہ جیسے وہ ہمیں تھے

جو اہلِ حکم کے سامنے جھکے نہیں
جنہوں نے شاہوں کے ضابطوں سے انکار کیا

جیسے وہ ہمیں تھے
جو چاندنی راتوں میں

دجلہ کے کنارے چُھپ کے ملتے تھے
جنہوں نے پوّتر پانیوں کو گواہ بنا کر

محبتوں کا اقرار کیا
جیسے وہ ہمیں تھے

جو ایتھنز کی گلیوں میں گھسیٹے گئے
جنکے سوالوں سے مقدس دیوتاؤں کے معبد لرزنے لگے تھے

جنہیں سچ بولنے کی پاداش میں زہرِآب پینا پڑا
وہ ہمیں تھے کہ جن کی کلہاڑی سے

رواجوں کے صنم پاش پاش ہوئے
جنہیں عقیدوں کے الاؤ میں جلنا پڑا

وہ ہمیں تھے
جو صحراؤں کی تپتی ریت پر

لیلائے محبت کو پکارتے پھرے
جنہوں نے زمانے کے بنائے معیار حُسن کا انکار کیا

وہ ہمیں تھے جو تیشہ بدست
سنگلاخ پہاڑوں کا سینہ چیرنے نکلے

جنہوں نے آزمائشوں سے پیار کیا
وہ ہمیں تھے

جنہوں نے انالحق کے نعرے لگائے
جنہوں نے انساں کی عظمت کا اقرار کیا

وہ ہمیں تھے
کہ جن کے لہو سے زمیں سینچی گئی

جو پیرس کی گلیوں میں نئے زمانوں کی نوید بنے
جنہوں نے انقلاب کے گیت لکھے

وہ ہمیں تھے
جنہوں نے عمریں دربدری میں کاٹ لیں

مگر اصولوں پر سمجھوتہ نہیں کیا
جنہوں نے سرمائے کا نقاب اتار پھینکا

جنہوں نے انساں سے دھوکہ نہیں کیا
وہ ہمیں تھے

کہ جو تاریک راہوں میں مارے گئے
جنہوں نے بے ریا محبتیں کیں

بے سود عبادتیں کیں
جو لینن گراڈ کی یخ بستہ فضاؤں میں

نئے زمانوں کے گیت گاتے ہوئے
دار کی ٹہنیوں پر جھولتے رہے

جو اپنے آج کونوع انساں کے کل پر وارتے رہے
وہ ہمیں تھے

جو بازاروں میں پا بجولاں چلے
خاک بر سر چلے خوں بد ا ماں چلے

جنہوں نے عمریں اسیری میں کاٹ لیں
جنکے ہاتھوں سے قلم چھنا تو

خونِ دل میں ڈبو لیں انگلیاں
جنکی زباں پہ مہر لگی تو

حلقہءِ زنجیر میں رکھ دی زباں
جنہوں نے انکار کیا

ایسے دستور کا
صبحِ بے نور کا

جو چند لوگوں کی خوشیوں کولے کر چلتا تھا
دیپ جسکا محلات ہی میں جلتا تھا

اور
یہ ہمیں ہیں

جنکی آنکھیں ایک سے خواب دیکھتی ہیں
امید کے خواب

انقلاب کے خواب
عظمتِ انساں کے خواب

برابری کے خواب
ایسے دنوں کے خواب کہ جب

انساں سِک، وں میں نہ تولے جائیں
سرحدوں میں نہ بانٹے جائیں

جہاں زباں کی زنجیر کُھلے
اور ہم پا بہ گِل نہ رہیں

جہاں رقص کرے زندگی
اور ہم تم مل کے گیت گائیں

جہاں ہم بے وجہ مسکرائیں
جہاں ہم بے سبب گنگنائیں

جہاں انساں کا احترام ہو
جہاں انسانیت ہی دین ہو

جہاں کوئی نہ بے یقین ہو
جہاں تیرے پہلو میں بیٹھ کر

میں لکھ سکوں نظمیں نئی
میں سنا سکوں گیت نئے

ایسی نظمیں کہ جن میں
تیرے لب و رخسار کی بات نہ ہو

ایسے گیت کہ جن میں
تیرے بدن کے زاویوں کا زکر نہ ہو

میں ایسی نظمیں کہوں
ایسے گیت لکھوں

جن میں تیری آنکھوں میں
مہکتی دانائی کی بات ہو

ترے جذبوں تیرے خوابوں کی
سچائی کی بات ہو

ہمارے خواب یہ ہمارے خواب
سراب بعد از سراب

سراب بعد از سراب

عادل سیماب

Adil Seemab

عادل سیماب ہزارہ یونیورسٹی کے شعبہ سیاسیات میں گزشتہ چودہ سال سے تدریسی فرئض سرانجام دے رہے ہیں۔ انکی نثری اور آذاد نظموں کا ایک مجموعہ داستان پبلشرز سے بعنوان صدائے دروں شائع ہو چکا ہے اورورل پول کے عنوان سے ایک انگریزی ناول امیزون پر چھپ چکا ہے۔