اگر کبھی یوں ہوا
میری کسی بھولی بھٹکی یاد نے
تیرے خیال کے دریچوں پر دستک دی
یا تو نے اپنی تنہائی کے کسی پل میں
میری یاد کی سرگوشی سُنی
یا میرے تصور کا کوئی ہلکا سا سایہ
تیرے دل کی دنیا کو چھو کر گزرا
یا کبھی میرے لفظوں کی خوشبو تیری سانس میں مہکی
یا میرے احساس کی حدت نے تیرے سرد جذبوں کو گلے لگایا
تو شام سمے کسی جھیل کنارے آ جانا
اپنی آنکھیں پلکوں سے ڈھانپ لینا
مجھے محسوس کرنا
اس پل میں جب تیرے لبوں پر مسکان جاگے
یا تیری آنکھ سے آنسو ٹپکے
میرا وعدہ یاد رکھنا
میں وہیں تمہیں ملوں گا
یاد رکھنا کہ جھیل کے پانیوں پر ابھرتی ہر لہر
جو تیرے پاؤں چھونے کو بیتاب ہے
وہ کوئی اور نہیں میں ہوں یا میرا خواب ہے
ہر اک لہر میں، جو تجھے چھو گئی ہے
میرے ہاتھوں کا لمس ہے
ہر لہر جو بنا تجھے چھوئے پلٹ گئی ہے
وہ پلٹ کے آئے گی
میں جانتا ہوں میرا بدن
سمے کے بوجھ تلے ڈھلک رہا ہے
بکھر رہا ہے مر رہا ہے
مگر میری چاہتوں کا دریا
زماں و مکاں کے سبھی اصولوں سے ماوراء
اپنی ہی انوکھی سمت میں چل رہا ہے
جب جب تم روز و شب کے کھیل سے اکتاؤ تو
کسی جھیل کنارے آ جانا
تمہیں پانی میں میرے ہاتھوں کا لمس
ہوا میں میری خاموش سرگوشیاں منتظر ملیں گی
اگر کبھی یوں ہوا۔۔!