یہ عمر کے اس حصے کا ذکر ہے جب زندگی جیسے لفظ محض لفظ ہوا کرتے ہیں۔ نہ تو اس لفظ زندگی کی حقیقت کا اندازہ ہوتا ہے نہ ہی اس کے بھیانک چہرے سے پردہ اٹھا ہوتا ہے۔ دن موج مستی میں گزر رہے ہوتے ہیں۔ ہر طرف سے محبت اور توجہ کی بارش برس رہی ہوتی ہے۔ وجود کی سچائی اور معصومیت کا عکس چہرے پر بہت نمایاں ہوتا ہے۔ اپنے اردگرد پھیلے رشتوں کی محبت سے باہر کچھ دکھائی نہیں دیتا۔ میں سکول سے واپس آکر شام میں ٹیوشن کے لئےجایا کرتا تھا۔ ٹیوشن ہمارے گھر سے زیادہ دور نہیں تھی۔ ایک چھوٹے سے کمرے پر مشتمل یہ درس گاہ درمیانی عمر کی انتہائی نفیس میڈم کے زیر اثر تھی۔ ان میڈم کے چہرے پر مایوسی کی گرد چھائی رہتی تھی۔ جس کو بظاہر وہ چھپانے کی وقتاً فوقتاً کوشش بھی کیا کرتی تھیں، مگر عموماً زندگی کاآدھا حصہ غربت اور افلاس سے جنگ میں گزر جائے تو چہروں کی تازگی وقت کی گرد میں کہیں گم ہو جاتا کرتی ہے۔ چھوٹے بڑےمسائل چہروں پر آنکھ، ناک اور ہونٹوں کی طرح بڑے واضح ہو کر چہرےکا حصہ لگنے لگتے ہیں۔ لیکن ان سب کے باوجود وہ زندگی کے تمام مسائل، زندگی کی تمام تلخیوں کو ایک طرف رکھ کر انتہائی ایمانداری اور توجہ سے ہمیں پڑھایا کرتی تھیں۔ میں اوسطً ایک نالائق طالب علم تھا اور سکول کی نصابی کتابوں کو دیکھ کر ایک عجیب سی بیزاری کا احساس انگڑائی لے کر بیدار ہوتا تھا۔ ان تمام حرکتوں کومد نظر رکھتے ہوئے مجھے ٹیوشن بھیجنے کا فیصلہ کیا گیا تھا تاکہ کم از کم میں کچھوے کی چال سے ہی سہی مگر آگےبڑھتا رہوں۔ اس دن بھی میں معمول کے مطابق ٹیوشن گیا تھا۔ سب کچھ ویسا ہی تھا جیسےہونا چاہیے تھا یا جیسا ہر روز ہوا کرتا تھا۔ ہر ماہ کچھ نئے لوگ آتے اور کچھ پرانے چھوڑ کر جاتےرہتے تھے۔ لیکن نہ تو کبھی کسی کے آنے کی خوشی محسوس ہوتی تھی اور نہ ہی کسی کے جانے کا کبھی دکھ ہوا تھا۔ کیونکہ پڑھائی والی جگہ مجھ جیسے نالائقوں کے لئے بڑی واہیات ہو ا کرتی ہے۔ اس لئے اگر مجھے کبھی وہاں کی کسی چیز میں دلچسپی رہی ہے تو وہ صرف اور صرف چھٹی کا وقت تھا جس میں عجیب سے آزادی کا خوشنما احساس گھیر لیتا تھا۔ مگر اس دن معمول سے ہٹ کر کچھ ہلچل سی ہوئی تھی۔ دو بہنیں اپنےابا کے ساتھ ٹیوشن میں داخلے کے لئے آئیں۔ دونوں کی شکلوں میں ایک دوسرے سے بہت زیادہ مشابہت تھی۔ دونوں کو الگ الگ دیکھ کر بھی آسانی سے اندازہ لگایا جا سکتا تھا کہ یہ دونوں بہنیں ہیں۔ چھوٹی بہن میری ہم عمر تھی۔ شائد اسی لئے اس کو دیکھ کر اپنائیت سی لگنے لگی، اس کو دیکھ کر ایسامحسوس ہوا جیسے کچھ نیا اور کچھ الگ سا دیکھ کر محسوس ہوتا ہے۔ چونکہ میں جس علاقے اور جس ماحول میں رہتا تھا وہاں عورت کا ایک ہی روپ دیکھنے کو ملتا تھا۔ لمبے بال وہ بھی ہر وقت بندھے ہوئےہوتے تھے، سب کے کپرے بھی ایک ہی طرز کے ہوتے تھے۔ نازک مزاجی تو ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتی تھی۔ میں اردو کے مضمون میں شاعروں کی غزلیں پڑھ کر شاعروں کے تصورات پر سر ہلایا کرتا تھا۔ سوچتا تھا کہ شاعر ایسی نازک مزاج عورتیں کہاں دیکھتے ہیں کہ جن کودیکھ کر غزل کہنے کو جی چاہتا ہو۔ لیکن اس دن میری رائے میں تبدیلی ائی۔ وہ بہت الگ تھی۔ اس کے بال کندھوں کو چھو کر اپنا وجود ختم کر دیتے تھے۔ وہ ایسے بولتی تھی جیسے عرب کے لوگ انگریزی بولتے ہیں۔ وہ زبان کو دانتوں میں دبا کر ایک ایک لفظ الگ الگ سے بولتی تھی۔ نزاکت تو اس پر ختم تھی۔ وہ دونوں بہنیں ابا کے ساتھ سکوٹر پر آیا کرتی تھیں۔ ان کے ابا درمیانے طبقے کے سفید پوش اور انتہائی نفیس انسان تھے۔ غربت، گھریلو مسائل، دفتری مصروفیات ہر وقت ان کے چہرے پر نمایاں رہتی تھیں۔ ان کے سر پر بال نہیں تھے لیکن ان بالوں کی جگہ بہت سارے مسائل نے لے رکھی تھی۔ پہلے دن وہ دونوں بہنیں کمرے کے کونے میں جا کر بیٹھ گئیں۔ ہم سب میں سے میں اپنی ہم عمر میں سب سے زیادہ دلچسپی لے رہا تھا۔ میں اسکو بار بار ایسے دیکھ رہا تھا جیسے چور چوری کرنے والی چیز کو دیکھا کرتا ہے۔ شائد میں بھی کچھ چوری کرنے کے چکر میں تھا یا خود اپنا آپ اس پر لٹانے کو تیار بیٹھا تھا۔ بات آگے بڑھانے سے پہلے میں اپنے گھرانے کے بارے میں کچھ انکشافات کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔
ہمارا گھرانہ کافی خوشحال اور بڑا تھا۔ اباخاندان کے معتبر بڑے سمجھے جاتے تھے۔ ان کی رائے اور ان کے فیصلوں کی بڑی اہمیت ہوا کرتی تھی۔ خاندان میں کسی کا رشتہ کرنا ہو، شادی کے معاملات ہوں، الیکشن میں ووٹ دینا ہویا کسی لڑائی جھگڑے کا فیصلہ کروانا ہو، خاندان والے ابو کی رائے کو بہت اہم اور ضروری سمجھا کرتے تھے۔ عموماً جب لوگ آپ کی رائے کو اہمیت دیتے ہوں تو آپ مجبوریوں کی دلد ل میں دھنستے چلے جاتے ہیں۔ کیونکہ دی گئی رائے کسی کے حق میں ہوتی ہے تو اس کے برعکس کسی کے خلاف بھی ہوتی ہے۔ اس صورت حال میں بہت محتاط حالت میں دامن سمیٹ کر چلنا پڑتا ہے۔ تاکہ اپنے کسی فیصلے کی وجہ سے لوگوں میں یہ تاثر نہ جائے کہ اپنی ذات کے لئے بنائے گئے اصولوں میں اور لوگوں کے لئے بنائے گئے اصولوں میں کسی قسم کا تضاد پایا جاتاہے۔ اسی خوف کی وجہ سے اکثر اپنوں کی خوشیوں کی بھی قربانی دینا پڑتی ہے۔ ابا کی پوزیشن بھی اسی قسم کی تھی اور اسی لئے مجھے کبھی کبھی ابا پر بہت رحم اتا تھا۔ لیکن ابا کو کسی پر بھی رحم نہیں اتا تھا۔ باقی کے خاندانوں کی طرح ہمارے خاندان میں بھی پیار کوناقابل معافی گناہ سمجھا جاتا تھا، اور اس کی سزا یہ ہوتی تھی کہ لڑکا اپنی محبوبہ کی شادی کے کھانےمیں روٹیاں تقسیم کرتا یا ٹینٹ لگا تا پایا جاتاتھا۔ ایسی صورت حال میں محبت وقت اور حالات کی بھول بھلیوں میں کہیں گم ہو جایا کرتی ہےاور ایک دوسرے سے محبت کرنے والے اپنے اپنے بچوں سے ایک دوسرے کا مامو یا پھپھو کی حیثیت سے تعارف کراتے پائے جاتےہیں۔ میں اس بات کا عینی شاہدہوں میں نے اپنے خاندان میں اپنی آنکھوں سے محبت کو سر عام ذبح ہوتے دیکھا۔ اور اس کو ذبح کرنے والے قصائی اس رات بڑی اطمینا ن کی نیند سوتے جس رات محبت کرنے والے رات کروٹوں میں گزار دیتے ہوں گے۔ میرے سامنے میرے جلاد صفت خاندان کی تاریخ موجود تھی لیکن میں اس دریا میں جان بوجھ کر چھلانگ لگانا چاہتا تھا۔ تاکہ میں بھی یہ بول سکوں "رل تے گئے آں پر چس بڑی ائی اے"۔ میں اس دن جب ٹیوشن سے واپس آیا تو میرے معاملات زندگی میں کافی تبدیلی آ چکی تھی اور یہ ایسی تبدیلی تھی جس کو مجھ سے زیادہ میری امی نے محسوس کیا تھا۔ اور اس سے پہلے کہ ابو بھی اس تبدیلی کو محسوس کرتے میری ٹیوشن کو ہی بدل دی گیا۔ اور اس طرح ایک بار پھر میری داستان محبت نقطہ آغاز پر ہی اختتام پذیر ہو گئی۔
آج کئی سالوں بعد ساون کی بارش میں کھڑکی کھولی تو بارش کی پھواروں کے ساتھ بچپن کی وہ ٹیوشن والی یادیں بھی کمرے میں داخل ہو گئی۔ میں سوچنے لگا بچپن میں زندگی کتنے دھیمے سروں پر چلا کرتی تھی۔ کتنا کچھ ہو جاتا کرتا تھا کبھی نقصان کا یا نفع کا احساس بھی نہیں ہوتا تھا۔ وقت اپنے ساتھ ساتھ سب کچھ بہا کر لے جایا کرتا تھا۔ اب تو ایک ایک لہر وجود پر اپنا نقش چھوڑ کر جاتی ہے۔ اکثر سوچتاہوں کاش زندگی پھر سے انہی دھیمے سروں پر چلتا شروع کر دے۔ کاش!