1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. علی محمود/
  4. موت اور رزق

موت اور رزق

حضرت سلیمان ؑ ایک جگہ کسی آدمی کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے۔ وہاں ملک الموت آئے اور اس آدمی کو غور سے دیکھنے لگے آدمی خوفزدہ ہو گیا۔ جب ملک الموت وہاں سے چلے گئے تو اس نے حضرت سلیمان ؑ سے پوچھا کہ یہ کون تھے؟ جو مجھے انتہائی انہماک سے دیکھ رہے تھے۔ حضرت سلیمان ؑ فرمانے لگے یہ مالک الموت تھے۔ آدمی خوفزدہ ہو کر کہنے لگا حضرت ہوا کو حکم دیں کہ مجھے اڑا کر سرزمین ہند پر پہنچا دے۔ چونکہ اللہ تعالی نے چرند پرند اور ہواوں تک کو حضرت سلیمان ؑ کے تابع کیا ہوا تھا، اس لئے حضرت سلیمان ؑ نے ہوا کو حکم دیا اور ہوا نے اس کو سرزمین ہند تک پہنچا دیا۔ سرزمین ہند پر پہنچتے ہی اس آدمی کا انتقال ہو گیا۔ کچھ عرصہ بعدایک دن حضرت سلیمان ؑ کی ملک الموت سے ملاقات ہوئی، آپؑ نے پوچھا کہ تم اس دن میرے برابر بیٹھے ہوئے آدمی کو کیوں غور سے دیکھ رہے تھے۔ ملک الموت نے کہا کہ مجھے اللہ تعالی کے حکم سے اس کی روح سرزمین ہند سے قبض کرنی تھی اور میں اس کو سرزمین ہند سے اتنے دور آپ کے پاس بیٹھا دیکھ کر حیران ہو رہا تھا۔ لیکن اس نے خود ہی آپ سے سر زمین ہند جانے کا کہا کیونکہ اس کی موت اسی سرزمین ہر لکھی تھی۔ اور وہ خود ہی وہاں پہنچ گیا۔

کچھ دن پہلے دن کے کھانے کے دوران ایک دوست نے بہت خوبصورت جملہ بولا وہ کہنے لگا انسان کی وجہ سے ہی سفر کرتا ہے رزق اور موت انسان کو کھینچ کر اپنے پاس لے آتے ہیں۔ میں کافی دیر تک اس جملے کو انجوائے کرتا رہا۔ اپنے ماضی میں جھانک کر دیکھا تو اس جملہ کی صداقت کا بر ملا اظہار کرنا پڑا۔ ایک وقت تھا جب میں سوچا کرتا تھا کہ وہ کیسے لوگ ہوتے ہیں جو اپنا ملک، اپنا گھر، اپنے رشتہ دار، اپنے دوست اپنی گلی محلے کو چھوڑ کر رزق کے لئے کسی دوسرے ملک چلے جاتے ہے۔ لیکن مجھے معلوم نہیں تھا کہ بہت سے سوالوں کا جواب وقت سے پہلے کبھی نہیں ملا کرتا، زندگی میں بہت سی باتیں وقت کے ساتھ سمجھ آتی ہیں۔ میں جو دوسروں کو پردیس جانے سے روکتا تھا آج میں خود پردیس میں ہوں۔ اب سوچتا ہوں کہ رزق بھی موت کی طرح انسان کو کھینچ کر اپنے پاس بلا لیتا ہے۔ انسان کی اپنی مرضی، انسان کی اپنی خواہشات اور اپنے نظریے وقت کی غلام گردش میں کہیں گم ہو جاتے ہیں۔ رزق اور موت انسان کو ایسی ایسی جگہوں پر لے جاتے ہیں جہاں جانے کا تصور بھی ذہین میں نہیں آیا ہوتا۔

اگران دو بنیادی باتوں کو ہم اپنی ذات کے ساتھ نتھی کر لیں تو زندگی کے بہت سارے گنجل آپ ہی سیدھے ہو جاتے ہیں انسان دو بنیادی فکروں کی چکی میں ساری زندگی پستا رہتا ہے امر ہونے کی خواہش انسان کی بنیادی خواہشات میں سے ایک اہم خواہش ہے اسی لئےایک فکر اس کو موت کی ہوتی ہے۔ وہ اس سے بچنے کے لئے کیا کچھ نہیں کرتا اسی سے بچنے کی سعی میں انسان آج کلوننگ کے عمل تک پہنچ چکا ہے۔ لیکن یہی موت اپنے مقرر کردہ وقت تک اس کی حفاظت کرتی ہے۔ وقت آنے پر لاکھوں حیلے بہانوں سے بھی ٹلتی نہیں ہے۔ پھر اس سے بھاگنے کا کیا فائدہ ؟ اس لئے موت کے خوف کو زندگی سے ہمیشہ کے لئے نکال دینا کافی مفید ہوگا۔ اور دوسری بنیادی فکر اس کو رزق کی رہتی ہے ہمیں اس بات کا اندازہ بہت دیر سے ہوتا ہے کہ جس رزق کے پیچھے ہم زندگی بھر بھاگتےرہے وہ در حقیقت ہمیشہ ہماری تلاش میں رہا۔ جس طرح ہم اسکو ڈھونڈتے رہے وہ اس سے بھی زیادہ ایمانداری اور ذمہ داری کے ساتھ ہمیں ڈھونڈتا رہا۔ ہم جس رفتار کے ساتھ اس کی طرف بڑھتے رہے وہ اس سے دوگنی رفتار کے ساتھ ہماری طرف بڑھتا رہا۔ اس لئے ان دونوں بنیادی فکروں کو اپنی ذات سے جتنی جلدی دور کر لیا جائے اتنا ہی اچھا ہو گا۔