پہلی کہانی ایک پروفیسر صاحب کی ہے۔ میں اس وقت انٹرمیڈیٹ میں تھا جب پہلی بار ان کے گھر گیا تھا۔ ان کا کمرہ کتابوں کی خوشبوسے مہک رہا تھا۔ وہ انیسویں گریڈ کے ریٹائرڈپروفیسر تھے اور اب بھی مختلف کالجوں میں علم کے دیے جلائے جا رہے ہیں۔ میں جب ان کے گھر گیا توان کی سادگی نے مجھے سراپا حیرت بنا دیا تھا۔ ان کے پاس علم کی دولت کے ساتھ ساتھ دنیاوی دولت کی بھی کثرت تھی۔ لیکن ان کی سوچ، ان کی باتیں علم سے شروع ہو کر علم پرہی ختم ہو جاتی تھیں۔ نئی کتابیں، نئی تحقیقات کی پیاس میں وہ ہر وقت سر بستہ رہتے تھے۔ میں نے ان کی زبان سے کسی کے لئے برا نہیں سنااور نہ ہی ان کے کسی عمل سے کسی قسم کے شر کی بد بو محسوس کی۔ میں نے کبھی کسی کو ان کی وجہ سے تکلیف میں مبتلا نہیں دیکھا۔ بلکہ وہ انسانیت کی بھلائی اور خیر خواہی کے لئے ہمہ وقت موجود رہتے تھے۔ وہ دکھاوے کے اس دور میں بھی سر تا پا سادگی میں ڈوبے رہتے تھے۔ علم کا حصول اور علم دوسروں تک پہنچانا بس یہی ان کا مقصد حیات تھا۔ یہ سب خوبیاں اس لئے تھیں کیونکہ ان کے وجود میں علم کی محبت اور علم ہی کی حرص تھی۔
دوسری کہانی اس انسان کی ہے جس نے افلاس اور غربت کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں آنکھ کھولی۔ ایک بات کثرت سے دیکھنے میں آئی ہے کہ جب زندگی کی کتاب محرومیوں کی گرد سے اٹی ہوئی ہوتو انسان اپنی ساری زندگی انہی محرومیوں کی گرد کو جھاڑنے میں گزار دیتا ہے۔ اس ساری سعی میں انسان ایک بہت بڑی غلطی کرتا ہے۔ ہم گھروں میں بھی گرد کو جھاڑنے کے لئے یا صفائی کے لئے گندہ کپڑا استعمال کرتے ہیں۔ یہ انسان بھی ایسا ہی کرتا ہے، زندگی کی محرومیوں کی گرد کو دولت سے جھاڑنے کی کوشش کرتا رہتا ہے۔ اسی کوشش میں وہ عموماً رشتوں کے تقدس، احساسات اورانسانی جذبوں کو سراسر فراموش کرتا چلا جاتاہے۔ اس نے بھی اپنی زندگی کی محرومیوں کی گرد کو دولت کے جھاڑو سے جھاڑنے کی کوشش کی۔ اس کوشش میں اس نے دولت تو حاصل کرلی لیکن محرومیوں کی نئی شکلیں اس کے روبرو آگئیں۔ جن لوگوں کے پاس دولت کی کنورای دلہن آتی ہے وہ لوگ عموماً اس دلہن سے رشتہ نبہاتے نبہاتے باقی تمام رشتوں اور احساسات سےخود کو بری ذمہ سمجھنا شروع ہو جاتے ہیں۔ پھر ایسے لوگوں کو نہ رشتوں کی نزاکت کا احساس رہتا ہے اور نہ ہی انسانیت کے جذبوں کا احساس رہتا ہے۔ وہ بھی رشتوں کے معانی بھول چکاتھا۔ وہ دولت کی حرص میں جھوٹ بولتا تھا، وہ دولت کی حرص میں لوگوں کو دھوکہ دیتا تھا، وہ دولت کی حرص میں لوگوں کےدل سے نکلی آہ کامستحق بنتاتھا، وہ دولت کی حرص میں انسانیت کی لکیر سے بہت دور نکل چکا تھا۔ وہ ایساکیوں تھا؟ اس لئے کہ اس میں دولت کی حرص پیدا ہو چکی تھی۔
میں اپنی بات کا آغاز کرنے سے پہلے حضرت علی کا ایک قول بیان کر رہا ہوں۔ آپ نے فرمایا۔ "دوچیزوں کی حرص انسان میں پیدا ہو جائے تو وہ وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتی رہتی ہیں ان دو چیزوں میں ایک علم کی حرص اور دوسری دولت کی حرص ہے۔"
آج کے دور میں ہمیں پہلی کہانی کے کردار معدوم ہوتے نظر آتے ہیں۔ ہمیں بہت کم لوگ ایسے ملتے ہیں جو علم کے حریص ہوتے ہیں، جو کتابوں کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنائے رکھتے ہیں۔ جبکہ دوسری کہانے کے کردار کثرت کے ساتھ ہمارے اردگرد موجود ہوتے ہیں۔ یہ بہت بڑی حقیقت ہے کہ ان دونوں چیزوں کی حرص انسان میں پیدا ہو جائے تو ان میں وقت کے ساتھ ساتھ اضافہ ہی ہوتا رہتا ہے۔ علم کے حریص انسان علم کے دریا میں اترتے ہی انسانیت کے قریب ہوتے جاتے ہیں، ان کے دل نرم ہو جاتے ہیں جبکہ اس کے برعکس دولت کے حریص اس پاتال میں ڈوبتے ڈوبتے اتنے حیوان بن جاتے ہیں کہ ان کے نزدیک رشتوں، جذبوں اور احساسات کی قیمت صرف دولت رہ جاتی ہے۔ ہمیں زندگی میں ہر طرح کے لوگوں کے ساتھ رہنا پڑتاہے، ان کے ساتھ وقت گزارنا پڑتاہے، ان پر اعتماد کرنا پڑتاہے۔ اس صورت حال میں اپنی زندگی میں ہمیشہ دولت کے حریص سے دور رہیں، یہ بہت خطر ناک لوگ ہوتے ہیں۔ اس طرح کے لوگوں کے ساتھ جتنا بھی گہرا رشتہ ہو، ان پر کبھی بھی بھروسہ مت کریں کیونکہ یہ لوگ اپنے والدین تک کو اس حرص کی بھینٹ چڑھا دیتے ہیں۔ جبکہ اس کے برعکس علم کے حریص لوگوں پر اگر کبھی اعتبار کرنا پڑ جائے تو ان پرآنکھیں بند کر کے اعتبار کرلیں، مجھے امید ہے علم کے حریص لوگوں پر بھروسہ کر کے پچھتاوے کا احساس کبھی آپ کے در پر دستک نہیں دے گا۔ بس اتنا سمجھ لیں کہ یہ لکیر کی دو حدیں ہیں، علم کے حریص لوگ ایک حد پر ہیں اور دولت کے حریص لوگ دوسری حد پر۔